سال نو: موقع "عبرت و نصیحت” ہونا چاہیے

محمد قاسم ٹانڈوی

عیسوی کلینڈر کے اعتبار سے آج رواں سال 2018 کا اختتام اور سال نو 2019 کا آغاز ہو ہی گیا ہے، گزشتہ سب جو لوگ سوئے ہوں گے انہوں نے اپنے بیدار ہونے کے بعد سال نو میں آنکھیں کھولی ہوں گی (رب ذی الجلال! ان سب کے بیدار ہونے پر ان کو صحت و عافیت، امن و سلامتی اور خوشگوار زندگی کے لمحات میسر فرمائے اور حقیقی خوشیاں ان کو مقدر فرمائے۔ آمین)

ہمیں اس بات کا یقین کامل ہونا چاہئے کہ ماہ و سال کے اس طرح آنے جانے کے ساتھ ہی ہم سب لوگوں کی عمر عزیز کا ایک اور قیمتی سال گزر گیا ہے، چنانچہ رات کے جانے کے بعد دن کا نمودار ہونا اور برابر اس سمت میں حرکت و  تبدیلی ہوتے رہنا، موسم کے اعتبار سے ان میں تغیر و تبدل یعنی کبھی رات کا بڑھنا اور دن کا گھٹنا یا اس کے برعکس ہونا وہ امور خاصہ اور حکمت الہیہ پر منحصر نظام ہے جس پر ہر شخص کی نظر نہیں ہوتی بلکہ اس کی طرف انہیں اہل دل اور دیدہ و بینا کی افراد کے ذہنوں کی رسائی ممکن ہوتی ہے جنہیں اس فانی دنیا کی حقیقت اور اپنی تخلیق کا مقصد معلوم ہوتا ہے، وہ اس بات کو بخوبی جانتے پہچانتے ہوں کہ لیل و نہار کے ذریعے اس طرح سالوں میں ایر پھیر ہونا معمولی اہمیت کا حامل مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے جو اپنے اندر بہت کچھ راز کی باتیں اور پوشیدہ خزانے پنہاں کئے ہوئے ہے۔ مگر لوگ باگ اس معاملے کے تئیں اتنے بیدار نہیں دکھائی دیتے جتنا کہ اس کا حق ہے خاص طور پر وہ لوگ جن کے یہاں دولت کی ریل پیل اور ہر طرح کے عیش و عشرت کے اسباب مہیا ہیں۔ انہیں اس موقع پر اور بھی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جو ہر نئے سال کی آمد پر اپنے اسی روایتی انداز سے خوشیاں مناتے ہیں اور ان کے وہم و خیال میں بھی لمحہ بھر کےلئے احساس نہیں گزرتا کہ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے اور وہ لوگ نئے سال کے اس موقع پر بےحسی کا پورا پورا مظاہرہ کرتے ہیں، سال بھر کی زندگی کے قیمتی لمحات اور شب و ایام کو یوں ہی فضول اور لایعنی کاموں میں بھنانے اور ضائع کرنے میں لگے رہتے ہیں جیسا کہ سال کی اوائل شب میں ہونے والی خرمستیاں اور بےہودہ باتوں کو زبان زد عام و خاص مقبولیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ سال کی آخری نصف رات کو کسی ایک مقام کو منتخب کرکے وہاں جمع ہوا جائے یا کسی ہوٹل پارک کی بکنگ کرا کر اس میں بدمستی کرنے یا من مانے طور پر ان کاموں کو انجام دیا جائے جس کو کوئی بھی مہذب سماج، صالح معاشرہ اور سلیم الطبع افراد کے یہاں کر گزر نے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مگر کیا کیا جائے۔

 ایک تو زمانہ کی دیکھا دیکھی اور دوسرے مغرب کی ایجاد کردہ رسم و رواج اور تہذیب کے نام پر بدتہذیبی کو فروغ دینے والی تیار کردہ اشیاء لہو و لعب میں لوگ خود کو ایسا مقید کر بیٹھے ہیں کہ اب اچھے برے کے درمیان تمیز کرنا اور جائز و ناجائز کو سمجھنا ہی انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ حدیث کی رو سے سال کے اختتام و افتتاح کے موقع سے گفتگو کی جائے تو وہ یہ ہےکہ: بروز قیامت حساب و کتاب کے وقت ابن آدم کے قدم اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹ سکیں گے جب تک کہ ہر شخص اس دنیا میں گزاری ہوئ زندگی کے پانچ سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب نہ دیدے گا؛ جس میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ تو نے اپنی عمر (زندگی) کو کہاں گزارا کیسے گزارا”؟

یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا ہر شخص کو کرنا ہے اور ہر شخص کو جواب بھی دینا ہے، ورنہ عدم جواب دہی کی صورت میں نقصان سے دوچار ہونا ہوگا اور وہ نقصان دنیا کے نقصان سے جدا ہوگا۔ مگر ہم رسم و رواج، بدعات و خرافات اور شریعت کے طے کردہ اصولوں سے انحراف برت کر ان کاموں کو انجام دینے میں ایسے مشغول و منہمک ہوئے جن کا عشر عشیر بھی ہمارے پاکیزہ دین اور شریعت محمدی سے دور کا واسطہ نہیں بنتا اور شریعت سختی کے ساتھ ان کاموں اور ان چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیتی ہے۔ اگر ان سب باتوں کے انجام پر توجہ دی جائے اور ساتھ ہی جو کام ضروری ہیں ان کی طرف توجہ مرکوز کی جائے تو بہت سارے مسائل سے نجات مل مل جائے اور بہت ساری پریشانیوں کا مداوا بھی ہو جائے۔ اب ذرا تصور کی جئے کہ سال کی آخری نصف رات کو جس انداز سے مال کی بربادی کرکے خود کو فضولیات میں لگا کر دوسروں کی ضروریات پر ترجیح دی جاتی ہے اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے کیا وہ کم عقلی، بےوقوفی اور بےشرمی کا مظاہرہ نہیں ہوتا؟ کسے نہیں معلوم کہ ماہ دسمبر کا آخری حصہ بھی گزرنے کو ہے اور اس ماہ میں شمالی ہند اور پہاڑوں پر آباد موسم کے اعتبار سے لوگوں کو جو پریشانی جھیلنی پڑتی ہے اور موسم سرما کی جس سنگینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کو اہل ثروت اور مالدار طبقہ سے تعلق رکھنے والے اور بے مقصد کی رسم و رواج کو انجام دینے والے لوگ کیوں فراموش کر دیتے ہیں؟ کیوں بے سہارا اور پریشان حال لوگوں کے مسائل کی طرف ان لوگوں کی توجہ نہیں ہوتی؟ کسے نہیں معلوم کہ موسم سرما اپنی پوری سروسامانی کے ساتھ جلوہ فگن ہے اور حال یہ ہےکہ انسانی لہو کو رگوں میں منجمد کر دینے والی سرد لہریں اور جسم کے اعضاء میں شگاف پیدا کر دینے والی ٹھنڈک کا ان کو سامنا ہے اور ان کے ننھے مننے بچے، بیمار لاچار عورتیں اور ضعیف تڑپ رہے ہیں اور ادھر یہ صاحب ثروت طبقے کے لوگ نئے سال کی خوشی میں مگن اپنے جان مال کو آگ لگا کر ہاتھ سینکنے میں لگے ہیں؟ کیا ان کو اپنے ایام اور ماہ و سال کا حساب دینا نہیں ہے اور کیا جو حالات ان کے آج ہیں، وہ سب دن ایسے ہی بنے رہیں گے؟

 اس لئے سردی سے متاثر یہ طبقات اب بھی کسی صاحب خیر اور صاحب استطاعت کی طرف نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں تاکہ وہ ان کے پاس آئیں اور قہر ڈھاتی موسم کی تلخی اور روز بروز انگڑائی لیتی سردی سے بچاؤ کے کچھ اسباب مہیا کرا سکیں اور پریشانی کے اس عالم میں وہ حضرات ان فٹ پاتھ نشینوں اور رات بھر سڑک کنارے زندگی گزارنے والے ایک بڑے طبقے کے حق میں خود کو ان کا ممد و معاون بن کر اپنی دنیا اور آخرت میں کام آنے والے اسباب خیر مہیا کر سکیں، کیونکہ یہ کار خیر ان بدمستیوں سے لاکھ جگہ بہتر ہے جو وہ "تھرٹی نائٹ” منانے میں گزارتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔