ریاستی حکمرانوں کا سیاسی سفر: کارواں بس دائروں میں ہی سفر کرتا رہا

 تنویر احمد خطیب

ریاست کی تاریخ میں اُس وقت ایک نیا باب رقم کیا گیا جب سال 2014ء میں دو مختلف بلکہ متضاد نظرئیوں کی سیاسی جماعتوں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت سازی کااعلان کر کے ایجنڈا آف الائنس کے طور اقتدار سنبھالا۔ گو کہ سیاسی بصیرت رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے اس الائنس کو پی ڈی پی کے لئے ایک حادثہ قرار دیا لیکن حسبِ روایت اقتدار کے نشے میں پی ڈی پی اور بھاجپا کا اتحاد ہوا جو ماضی سے لیکر اب تک کی  ریاستی حکمرانوں کی ایک ریت رہی ہے۔ خیر لنگڑے اقتدار کی ہوا چلی اور یوں ہوا نکلگئی، اتحاد ٹوٹ گیا، نظریں بدل گئیں، دوستی نے دشمنی کا روپ دھارن کر لیا، کسی کا وقار گرا اور کوئی اپنا وقار تعمیر کر گیا، تعمیر و ترقی کے نام پر قائم کیا گیا اتحاد صرف ایک اتفاق ثابت ہوا، حقائق منظر عام پر آگئے۔

اب چونکہ اتحاد ہے نہ اقتدار! لہٰذااب ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی اُتھل پتھل شروع ہوئی ہے پوری ریاست کی سیاست کا ڈھانچہ ہی بکھر رہا ہے۔سیاسی وفاداریاں بدل رہی ہیں، کل کے دوست آج کے دشمن ہیں، سیاسی پنڈتوں کاالزام در الزام کا قدیم ہتھکنڈ ا اپنانے کا سلسلہ عرو ج پر ہے۔ الزام در الزام میں کون سچا ہے ؟کون جھوٹا ہے ؟یہ سیاست دان ہی بہتر جانتے ہونگے، عام لوگ تو خام ہوتے ہیں۔ سیاسی پنڈت جو ہوا بنائیں لوگ اُسی کے دوش پر چلتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ ایسا ہوگاویسا ہو گا۔ کبھی عمر عبداللہ کو وزیر اعلیٰ بناتے ہیں، کبھی محبوبہ مفتی کو اقتدار سونپتے ہیں، یا پھر کبھی سجاد غنی لون کواپنا مسیحا بنا لیتے ہیں۔ لیکن کل کیا ہوگا اُس کے تانے بانے دِلی میں ہی بُنے جاتے ہیں۔ریاست کی سیاسی صورتحال کے غبارے میں ہوا بھرنا دلی دربار کا ایک انوکھا اور آزمایا ہوا ہتھکنڈا ہے۔ لیکن باعث شرمندگی یہ ہے کہ ریاست کا حکمران طبقہ دلی کی دلالی کا کا م انجام دینے میں بجائے ندامت کے فخر محسوس کرتا ہے۔ دوڑ لگی ہے وفاداریاں نبھانے کی۔ کوئی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتے ہوئے وفاداری کا ثبوت دیتے ہے تو کوئی نیشنلزم کی گوہار لگا کر دلی کی جی حضوری پر اتفاق کر لیتا ہے۔ گو کہ اقتدار کی لالچ میں ریاست کے تمام حکمرانوں نے دلی دبار کے سامنے سر خم ہونے میں کبھی بھی شرم محسوس نہیں کی اور نہ ہی کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ چند دنوں کے لنگڑے اقتدار کی خاطر ہم کس طرح سے ریاستی عوام کا استحصال کر رہے ہیں، دغابازی کر رہے ہیں، دلی دربار سے فریب کھا رہے ہیںلیکن ریاست کی اِس تمام صورتحال کے لئے سب سے زیادہ ذمہ دار اگر کوئی سیاسی جماعت یا کوئی خاندان ہے تو وہ نیشنل کانفرنس اور شیخ خاندان نے جس نے ہمیشہ عوام پر اقتدار کو ترجیح دی۔

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو شیخ خاندان نے سنتالیس ۴۸ سے لیکر آج تک اقتدار کوفوقیت دی ہے، اقتدار کو حاصل کرنے کیلئے دِلی دربار سے جو بھی فرمان جاری ہوتا ہے اُسے غنیمت جان لیتے ہیں۔۱۹۷۵ء میں جب شیخ محمد عبداللہ سیاسی آوارہ گردی کر تے کرتے کافی تھک چکے تھے تو وزیر اعلیٰ کی کرسی کو غنیمت جانتے ہوئے مسند ِ اقتدار پر جلوہ نما ہو گئے اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حالات بدل چکے ہیں، پاکستان دو لخت ہو چکاہے اب پاکستان اِ س پوزیشن میں نہیں ہے کہ ہم اُن پر بھروسہ کر لیں۔ خاندانی سیاست کو فروغ دینے کیلئے اقتدار پر قابض ہوتے ہی شیخ نے خاندانی سیاست کا لائسنس فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یوں شیخ نے سیاست کو اپنی جاگیربنانے کا ایک مضبوط پلان تیار کر لیا۔اپنے فرزندوں کو سیاست کا وارث بنانے کیلئے کسی کو جماعت کا سربراہ بنا دیا، کسی کو وزیر بنایا اور ایک کسی محکمے کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا۔ سیاسی وراثت کا نشہ اس قدر سوار تھا کہ شیخ عبداللہ نے بیگم عبداللہ کو بھی حکومت میں عمل دخل رکھنے کیلئے کھلی چھوٹ دی۔ جماعت کے تمام ممبران کے معاملات بیگم عبداللہ کے ہاتھ میں تھے۔اُنکے داماد غلام محمد شاہ جو کہ پہلے سے ہی سیاست میں آچکے تھے لہٰذا یہاں سے ہی لوٹ مار کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو گیا۔

دیکھتے دیکھتے ریاست میں خاندانی راج کا سلسلہ عروج پر پہنچنے لگا،ہر کوئی اپنی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے دائو پیچ کھیلنے میں مشغول ہو گیا۔لیکن دلی والوں کی پھر وہی خصلت کہ اِسی دورانیہ میں کانگریس نے اپنی حمایت واپس لی، سرکار گر گئی۔ ریاست میں نئے سرے سے انتخابات کا بگل بجا دیا گیا۔ اب کی بار شیخ نے اقتدار میں آنے کیلئے ایک انوکھا سیاسی کارڈ کھیلا، عوامی جذبات کا امتحان لیا گیا۔ شیخ محمد عبداللہ سیاسی مریض ہوگئے اور تب تک مرض ِسیاست میں زیر بستررہے جب تک سادہ لوح عوام کی شیخ کے تئیں ہمدردیوں نے ووٹ کی شکل اختیار نہ کر لی، عوامی جذبات نے شیخ عبداللہ پر اس قدر ووٹوں کی بارش کر دی گویا سیاسی مرض پر ٹیکہ کاری ہوگئی۔ اُدھر بلٹ بکس میں ووٹ کیا پڑ رہا تھا اِدھرشیخ صاحب کی حالت لمحہ بہ لمحہ بہتر ہو رہی ہے۔ ووٹوں نے دوا کا کام کیا، سیاسی مرض میں میں مبتلا زیر بستر پڑے شیخ صحتیاب ہوئے۔ پھر سے اقتدار ہاتھ لگا لیکن  افسوس رویہ پھر وہی رہا کہ ………

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیو ں چھوڑیں؟

شیخ نے اقتدار میں آکر وہی فطرت برقرار رکھی جو اُس کی رگ رگ میں رچ بس گئی تھی۔ وگرنہ جن جذبات کے ساتھ عوام نے شیخ کو اعتماد بخشا تھا اگر وہ مخلص ہوتے تو وہ کوئی سا بھی ’’بل‘‘ اسمبلی میں پاس کر کے عوام کا اعتماد بحال کر سکتے تھے، چاہیے وہ 53کی پوزیشن ہو یا ری سٹلمنٹ بل(Re Setelment Bil)…’’مگر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق‘‘ …اقتدار جو خیرات میں ملا تھا ایسے میں وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے جس سے دلی  دربار میں ناراضگی پیدا ہوجاتی، کیونکہ یہ سودا بازی ایک دن کی نہیں بلکہ ہمیشہ کی سودا بازی تھی۔

شیخ صاحب اپنی زندگی کاسفر تمام کر کے فوت ہو ئے ابھی انہیں دفنایا بھی نہیں گیا تھاکہ اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی، اندرا گاندھی دِلی سے وارد ہوئی اور صلاح مشورہ شروع ہو گیا، اندرا گاندھی کی خواہش تھی غلام محمد شاہ کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے، لیکن اُس کے مخالف گروپ نے ایک زبردست کارڈ کھیلا اور اندرا گاندھی سے کہا یہ غلام محمد شا ہ پاکستان نواز ہے۔ الحاق کو نہیں مانتا ہے، لہٰذا اقتدار کی کرسی کے موزوں امیدوار اور دلی دربار کے بھروسہ مند وفادارفاروق عبداللہ کا نام تجویز ہوا، یوں مسند ِ اقتدار پر فاروق عبداللہ براجمان ہوئے۔ وائے شومئے قسمت ابھی زیادہ عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ فاروق عبداللہ کے پر کاٹنے کی سازشیں ہونی لگیں۔ فاروق عبداللہ سے اقتدار چھین لیا گیا، فاروق عبداللہ کے چند حقیقی رقیبوں نے دلی والوں سے ملی بھگت کر کے افتدار کو ہوا کر دیا۔ وہ ہی لوگ جو کل تک غلام محمد شاہ کو پاکستان کا غلام کہتے تھے اُنھوں نے اچانک رنگ بدلا اور کانگریس کی حمایت لیکر غلام محمد شاہ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔

یہاں سے خاندانی جنگ کا آغاز ہوا، دوست دوست نہ رہا، بہن بھائی جدا ہوئے وجہ صرف اور صرف اقتدار کی ہوس رہی۔ فاروق عبداللہ سر ِ عام غلام محمد شاہ اور اپنی بہن کو لعن تان کرتے رہتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب فاروق عبداللہ وزیر اعلیٰ نہ رہے وہ کس طرح اندرا گاندھی کو گالیاں دیتے تھے۔ایک جلسے میں کہاکہ ’’جب تک نہ میں اندرا گاندھی اور کانگریس کو دریا برد کردوں تب تک میں چین نہیں بیٹھوں گا‘‘اور وقت نے یہ بھی دکھایا کہ اِسی فاروق عبداللہ نے اندرا گاندھی کے بیٹے کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملایا۔کانگریس نے ایک بار پھر نیشنل کانفرنس کے غلام محمد شاہ گروپ کو دن میں تارے دکھا دیئے اور اپنی حمایت واپس لی۔

87کے الیکشن ریاست جموں و کشمیر کی سیاست کے بدترین الیکشن تھے۔ اِسی الیکشن نے ریاست جموں و کشمیر کی کایا پلٹ دی۔ جوان بر سر ِ پیکار ہوئے، چاروں اور خون کی ندیاں بہتی گئیں، عزتیں تار تار ہوئیں، یتیموں اور بیوائوں کی ایک فوج تیار ہوئی۔ تلخ سچ یہ ہے کہ یہ سارا کارنامہ شیخ خاندان کھاتے میں جاتا ہے۔۱۹۹۶ء کے انتخابات میں شیخ خاندان کی شرکت پوری قوم کے سینے میں خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔87کے انتخابی نتائج آج تک پوری قوم بھگت رہی ہے۔گورنر راج بھی وقتاً فوقتاً لگتا رہا اِسی دورانیہ میں مفتی محمد سعید سیاست میں جلوہ نما ہوئے، وہ بھی دلی دربار کاتیار کردہ فارمولہ کو لیکر ایک مہرے کی صورت میں ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو راحت دینے کا نعرہ لیکر میدان میں آئے۔

آخر کا ر اُن کی تمنا بھی پوری ہوئی، وہ بھی وزیر اعلیٰ بن کر اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کر گئے۔ ایک دفعہ بار تین برس اور پھرتقریباً ڈیڑھ  دبرس کے عرصے تک وزیر اعلیٰ رہ کر اِس دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔جاتے جاتے دلی دربار نے اُنہیں بھی سبق دیا۔ اب چونکہ سبق حاصل کرنے کا ایک اہم موقعہ پی ڈی پی کو ہاتھ لگا تھا لیکن بے شمار جواز پیش کرتے ہوئے  دوماہ انتظار کرنے کے بعد مرحوم مفتی سعید کی صاحبزادی محبوبہ مفتی بلآخر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوہی گئی۔ اقتدار کیا ملا کہ ساکھ ہی مٹ گئی دِلی دربار نے محبوبہ مفتی کوبھی ایسا سبق دیا کہ اب محبوبہ اس سبق کا ایک ایک باب کو پڑھ کر عوام کے سامنے بیان کر رہی ہے۔المختصر یہ کہ جو تنکے تنکے مختلف گھونسلوں سے اُٹھا کر لائے تھے وہ سارے تنکے بکھر گئے۔

اب سیاست تیزی پر ہے دِلی دربار بھی ناراض نہ ہو۔ فاروق عبداللہ کو اٹل بہاری واجپائی کے خراج تحسین کے دن کی ایک تقریب میں ’’بھارت ماتا کی جے ‘‘کے نعرے لگانے پڑے، کسی طرح بھی  سے دلی دربار خوش ہو جائے تاکہ اقتدار آسانی سے میری جھولی میں آجائے۔رد ِ عمل کے طور فاروق عبداللہ کو حضرت بل میں نوجوانوں کا غصہ جھیلنا پڑا، ساتھ میں اپنے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے ناراض ممبران کے غصے کو بھی شانت کرنے کے لئے نرم مزاجی اختیار کرنا پڑی،بلدیاتی اور پنچایتی چنائو کا بائیکاٹ عوام کو بیوقوف بنانے کا ایک نیا ہتھکنڈا تھا۔ اب ریاستی انتخابات میں جوازیت پیدا کرنے کیلئے مختلف بہانے تراشے جا رہے ہیں، لوگوں کو اِدھر اُدھر سے جمع کر کے نیشنل کانفرنس میں شمولیت کرا رہے ہیں۔

سیاسی اداکاری دیکھئے اقتدار میں رہ کر کچھ کرنے سے رہے اقتدار سے باہر کیا آئے کہ محبوبہ مفتی نے پیر پنچال اور چناب کو ہل ڈولپمنٹ کونسل کی گوہار لگائی اگر کرگل کو دیا گیا تو خطہ پیر پنچال اور چناب کو بھی اُس کا حق دیا جائے، ورنہ ایجی ٹیشن شروع کر دیں گے۔ فاروق عبداللہ کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے گریٹر اٹانومی سے تھوڑا سا نیچے آ کر اٹانومی اور ریجنل اٹانومی کا نعرہ بلند کیا۔ نعرہ بلند کرنے میں فاروق کا کوئی ثانی نہیں، دونوں باپ بیٹے آج کل شیر کشمیر بھون جموں اور نوائے صبح کشمیر میں مالائیں ہاتھ میں لیکر آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لئے انتظار میں ہوتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں گردن جھکا کر مالائیں پہن کر باپ بیٹوں سے سیاسی پرشاد حاصل کرتے ہیں۔

یہاں مجھے آخر میں صرف نیشنل کانفرنس کی کہانی پر چند الفاظ کہنے کی اجازت دیجئے۔ ’’نیشنل کانفرنس کے ایک دیرینہ لیڈر جو جموں سے تعلق رکھتے ہیں اور ابھی حیات ہیں انھوں نے کہا جب ۱۹۴۸ء میں لال چوک میں پنڈت جواہر لعل نہرو تقریر کر رہے تھے میں وہاں موجود تھا، جواہر لعل نہرو نے کہا کہ حالات بہتر ہوتے ہی یہاں رائے شماری کرائی جائے گی۔ تقریر ختم ہوئی شیخ عبداللہ نے جواہر لعل نہرو سے کہا کہ آپ نے یہ بات کیوں کہی اب لوگ اِسی بات کو پکڑیں گے مجھے معلوم ہے اِس قوم کو کیسے چلانا ہے۔ تاریخ کا ایک تلخ سچ یہ بھی ہے کہ جب سیف الدین سوز نے واجپائی سرکار کے خلاف ووٹ دیکر اپنے ضمیر کو زندہ رکھا وہیں نیشنل کانفرنس نے سیف الدین سوز کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا او راِ س سے یہ ثابت کیا نیشنل کانفرنس کی دوغلی سیاست کا معیار کیا ہے۔اس پر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ ووٹ دینے سے قبل نیشنل کانفرنس کے محمد شفیع اوڑی اور خالد نجیب سہروردی میرے پاس آئے اور مجھے قائل کرنے کی انتھک کوشش کی کہ آپ ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے لیکن بقول سیف الدین سوز میں نے اُن سے کہا آ پ مجھے دلیل کے ساتھ مطمئن کریں وگرنہ میں دلیل دیکر یہ ثابت کروں گا کہ میرا ووٹ دینا کتنا ضروری ہے۔ سوز کے اِس سوال کا اُن کے پاس کو جواب نہیں تھا۔ عوامی نیشنل کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان اتحاد کی بات چل رہی تھی لیکن عمر عبداللہ نے رکاوٹ ڈالی کہ غلام محمد شاہ الحاق کو تسلیم کریںتب جا کر ہم اتحاد کریں گے جبکہ الحاق کو تسلیم کرنا عوامی نیشنل کانفرنس کے لئے کسی بھی قیمت میں ممکن نہ تھا یہ بات راقم کو نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر دویندر سنگھ رانا نے آج سے ۱۲ برس قبل کہی ہے۔آج اگر نیشنل کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کیلئے مسیحا بننے کی کوشش کر رہی ہے تاریخ کے تناظر میں اگر پرکھا جائے تو کہیں بھی یہ لوگ ریاستی عوام کے تئیں وفادار نہیں رہے ہیں۔ بزرگو!،بھائیو! مائوں، بہنوں اور ساتھیو!یہ کہانی ہے نیشنل کانفرنس کی !! اب فیصلہعوام کے ہاتھ میں ہے وہ جو چاہیے فیصلہ کر سکتی ہے!میں تو بس اتنا کہوں گاکہ ……

دیارِ گل میں بھیانک بلا ئیں حاکم ہیں

طلسمِ شب ہے سحر تک بلا ئیں حاکم ہیں

سفید پوش ہیں سہمے ہوئے مکانوں میں

گلی میں پھرتی ہے کالک بلائیں حاکم ہیں

یہاں سے ہجرتیں کرنی ہیں خوش دماغوں نے

یہاں ہے موت کی ٹھنڈ ک بلا ئیں حاکم ہیں

یہ گفتگو سے سویرے طلوع کرتی ہیں

وطن پہ رات کی زیرک بلائیں حاکم ہیں

نکل پڑے ہیں ہزاروں سگانِ آدم خور

کھلے ہیں موت کے پھاٹک بلا ئیں حاکم ہیں

وہ ساری روشنیوں کی سہانی آوازیں

تھا اقتدار کا ناٹک بلا ئیں حاکم ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔