سخن کا اس سے یارا بھی نہیں ہے
ذیشان الہی
سخن کا اس سے یارا بھی نہیں ہے
سخن کے بِن گزارا بھی نہیں ہے
۔
بیاں شعروں میں ہم کرتے ہیں جتنا
وہ اس درجہ تو پیارا بھی نہیں ہے
۔
بہت شکوے ہیں اس کو زندگی سے
مگر مرنا گوارا بھی نہیں ہے
۔
نظر میں جتنی حیرانی ہے, اتنا
انوکھا تو نظارہ بھی نہیں ہے
۔
لباسِ جاں تجھے واپس تو دے دوں
مگر اک قرض اتارا بھی نہیں ہے
۔
نکل آئے دلِ ویراں کی جانب
کوئی قسمت کا مارا بھی نہیں ہے
۔
سہارا اس کا لینا پڑ گیا ہے
جو خود اپنا سہارا بھی نہیں ہے
۔
جسے ذیشان بڑھ کر روکنا تھا
اسے میں نے پکارا بھی نہیں ہے
تبصرے بند ہیں۔