ایک فی البدیہہ غزل: نذرِ مولانا ابوالکلام آزاد
احمد علی برقیؔ اعظمی
بیمارِ محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے
’’کچھ اور ہی سمجھے تھے ہوا اور ہی کچھ ہے‘‘
۔
آزادؔ کی تحریر کا انداز الگ ہے
اقبالؔ کے نغموں کی نوا اور ہی کچھ ہے
۔
اس عہد میں ہر سمت ہے اک عالمِ محشر
ہے دل میں جو اک حشر بپا اور ہی کچھ ہے
۔
بے سود قفس میں ہے ہر آسایشِ دنیا
پرواز کو آزاد فضا اور ہی کچھ ہے
۔
جذبات میں اخلاص سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
بے لوث محبت کا مزا اور ہی کچھ ہے
۔
فن پارے میں ہے پاس روایت بھی ضروری
تحریر کا اسلوب نیا اور ہی کچھ ہے
۔
ہے کرب کا احساس جو جینے نہیں دیتا
ناکردہ گناہی کی سزا اور ہی کچھ ہے
۔
زاہد کی ریا کار عبادت سے ہے افضل
اللہ کے بندوں کا بھلا اور ہی کچھ ہے
۔
سیرت میں ہے جو حسن وہ صورت میں نہیں ہے
پاکیزگی و شرم و حیا اور ہی کچھ ہے
۔
بے موت بھی مرنے پہ وہ کردیتا ہے مجبور
نظروں میں ہے جو تیرِ قضا اور ہی کچھ ہے
۔
محدود ہے شاہوں کی گداؤں پہ نوازش
بندوں پہ یہ انعامِ خدا اور ہی کچھ ہے
۔
یوں تو ہیں مشاہیر سخن شہرۂ آفاق
برقیؔ کی الگ طرزِ ادا اور ہی کچھ ہے
تبصرے بند ہیں۔