سرزمین فلسطین قرآن کریم کی روشنی میں

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے، اس سرزمین پر اکثر انبیاء اور رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتداء اور انتہاہوئی ہے، یہ آسمان کا دروازہ ہے، یہ سرزمین محشر بھی ہے۔

۱۔سرزمین مبارک:

اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرما یا ہے :، ان جریر طبری فرماتے ہیں کہ یہاں دائمی اور ابدی طور پر خیر وبرکت قائم ودائم رہے گی، علامہ شوکانی برکت کے معنی یہاں کی زراعت اور پھل لئے ہیں ، اسی کی پیدوار بہت زیادہ ہوگی، دیگر لوگوں نے برکت سے نہریں ، پھل، انبیاء او ر صلحاء مرا د لئے ہیں ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس سزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘ ( الإسراء: ۱)  اس سے مراد ملک شام ہے،ٍسریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں ، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کو مبارک اس لئے کہا گیا کہ یہ انبیاء کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے، یہیں لوگ روزِ محشر میں جمع کئے جائیں گے، حضرت حسن اور حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے، ، زید بن اسلم سے مروی ہے کہ اس سے مراد ملک شام گاؤں مراد ہیں ، عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں ، اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے۔

سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں پانچ مواقع سے بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے :

۱۔ ’’  سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْر‘‘( الإسراء: ۱)

(پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔)۔

۲۔’’وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُواْ یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُواْ یَعْرِشُون‘‘(الأعراف: ۱۳۷)

( اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انہیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں ۔ (۱۶) اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا، کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا۔ اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی،، اس سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا۔)

۳۔’’وَنَجَّیْْنَاہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا لِلْعَالَمِیْن‘‘ (الأنبیاء : ۷۱)

اور ہم نے نجات اسے اور لوط کواس زمین کی طرف جو (کہ) ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے۔

۴۔’’وَلِسُلَیْْمَانَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِأَمْرِہِ إِلَی الْأَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَالِمِیْنَ‘‘ ( الأنبیاء: ۸۱)

اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں ۔ اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔

۵۔’’وَجَعَلْنَا بَیْْنَہُمْ وَبَیْْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَقَدَّرْنَا فِیْہَا السَّیْْرَ سِیْرُوا فِیْہَا لَیَالِیَ وَأَیَّاماً آمِنِیْن‘‘( السبا: ۱۸)

اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں ، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔

۲۔مقدس سرزمین

ارض مقدس سے مراد ’’ارض مطہر‘‘ (پاک وصاف سرزمین ) ہے، راغب کہتے ہیں : بیت المقدس : یعنی یہ شرک وکفر کی نجاست سے پاک ہے، زجاج کہتے ہیں : ارض مقدس سے مراد دمشق، فلسطین اور اردن کے بعض حصے کو کہتے ہیں ، حضرت قتادہ سے مروی ہے : اس سے ملک شام مراد ہے، ابن عساکر نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ارض مقدس عریش سے فرات تک کی سرزمین کو کہتے ہیں ۔ سرزمین فلسطین کو ’’ارض مقدس‘‘ صرف قرآن مجید میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد گرامی ہے :

’’یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْن‘‘( المائدۃ: ۲۱)

اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجا جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے،اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد جا گے۔

۳۔سرزمین محشر

اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو ’’ارض محشر‘‘ اور ’’سرزمین محشر‘‘ بھی فرمایا ہے، ارشاد باری عز وجل ہے :

’’ہُوَ الَّذِیْ أَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مِن دِیَارِہِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ‘‘( سورۃ الحشر: ۲)  (وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔)یہاں ’’ اول حشر‘‘ سے مراد یعنی ان یہودیوں کا ملک شام میں اکٹھا ہونا ہے، جس وقت نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کو سرزمین مدینہ سے جلاوطن کردیا تھا، زہری سے مروی ہے کہتے ہیں ، اول حشر کے طور پر ان کی دنیا میں جلا وطنی سرزمین شام میں ہوئی تھی، ابن زید کہتے ہیں : ’’اول حشر‘‘ سے مراد سرزمین شام ہے، ابن عباس سے بکثرت روایات میں منقول ہے کہ فرماتے ہیں : جس کو اس بات میں شک ہو کہ ارض محشر سے مراد سرزمین شام ہے وہ اس آیت کو پڑھے، پھر اس آیت کا آپ ﷺ نے تذکرہ فرمایا۔

۲۔سرزمین فلسطین بغیر کسی صفات کے تذکرہ :

اس طرح کئی مواقع سے قرآن کریم میں بغیر کسی صفت کے تذکرہ کے سرزمین فلسطین کا تذکرہ واقع ہوا ہے۔

۱۔’’وَقَضَیْْنَا إِلٰی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘(الإسراء: ۴)

(اور ہم نے فیصلہ سنادیا بنی اسرائیل کو کتاب میں (کہ) بلا شبہ ضرور تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور بالضرور تم چڑھائی کرو گے بہت بڑی چڑھائی )۔شوکانی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں اس آیت میں سرزمین شام اور بیت المقدس مراد ہے۔

۲۔’’وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُون‘‘( الأنبیاء: ۱۰۵)

( اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ )

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہاں ارض مقدسہ سے سرزمین شام اور فسلطین ہے، شوکانی نے بھی ان کی موافقت کی ہے، مجید الدین حنبلی کا ایک قول یہ ہے: یعنی اس سے مراد سزمین مقدس( بیت المقدس) جس کے مسلمان امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم وارث ہوں گے۔

 ۳۔’’وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاہُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَائَ ہُمُ الْعِلْمُ إِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ‘‘(یونس: ۹۳)

(اور ہم نے بنو اسرائیل کو ایسی جگہ بسایا جو صحیح معنی میں بسنے کے لائق جگہ تھی، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق بخشا۔ پھر انہوں نے ( دن حق کے بارے میں ) اس وقت تک اختلاف نہیں کیا جب تک ان کے پس علم نہیں آگیا۔، یقین رکھو کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، ان کا فیصلہ تمہارا پروردگار قیامت کے دن کرے گا۔)یہاں ’’مبوأ ‘‘ سے منزل محمود مرا د ہے، یعنی ملک شام کا جنوبی علاقہ فلسطین اس سے مراد ہے۔

۴۔وَالتِّیْنِ وَالزَّیْْتُونِ، وَطُورِ سِیْنِیْنَ ( التین : ۲)

اکثرمفسرین کے یہاں انجیر اور زیتون سے مراد وہ شہر ہیں جہاں ان کی بکثرت زراعت اور پیداوار ہوتی ہے، حضرت کعب سے مروی ہے ’’ التین ‘‘ سے دمشق اور ’’زیتون‘‘ بیت المقدس مراد ہے، شہر بن حوشب سے مروی ہے فرماتے ہیں : ’’الزیتون‘‘ سے ملک شام مراد ہے۔

۵۔قرآن میں فلسطین کے علاقوں کا تذکرہ :

قرآن کریم نے بعض سرزمین فلسطین کے علاقوں کا بھی تذکرہ کیا ہے :

۱۔’’وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیَۃً وَآوَیْْنَاہُمَا إِلَی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِیْنٍ ‘‘(المؤمنون : ۵۰)۔

(اور مریم کے بیٹے کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا، اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی، اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا)

 ابن جریر نے مرہ نہزی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہا’’ الربوۃ‘‘ سے مراد ’’ الرملۃ‘‘ ہے۔

ابن عساکر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : اس سے مراد ’ ’ ربوۃ‘‘ فلسطین کا علاقہ مراد ہے ن قتادہ، کعب اور ابو العالیہ فرماتے ہیں : اس سے مراد بیت المقدس ہے۔

 ۲۔’’َفَحَمَلَتْہُ فَانتَبَذَتْ بِہِ مَکَاناً قَصِیّاً‘‘( مریم : ۲۲)

تو وہ حاملہ ہو گئی اس (ے) سے پھر وہ الگ ہوگئی اس کے ساتھ ایک دور جگہ (یعنی جنگل )میں ۔ مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ حضرت مریم حالت حمل میں دور چلی گئیں ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وادی اقصی تک گئی، اور یہی بیت اللحم ہے، اس کے اور ’’ایلیا‘‘ کے درمیان چار میل کا فاصلہ ہے، اور ’’ایلیا‘‘ ’’بیت المقدس ‘‘ کاہی ایک نام ہے۔

 ۳۔’’وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّکَانٍ قَرِیْب‘‘(ق: ۴۱)

اور توجہ سے سنیے جس دن پکارنے والا پکارے گا قریب جگہ سے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ عز وجل کے اس قول کے بارے میں ارشاد ہے :’’ من مکان قریب‘‘ سے ’’ ًصخرہ ‘‘ بیت المقدس مرا د ہے، قتادہ کہتے ہیں : ہم کہتے تھے کہ منادی صخرہ بیت المقدس سے آواز لگائے گا، اور کلبی اور کعب فرماتے ہیں : یہ آسمان سے زمین کا قریبی حصہ ہے۔

 ۴۔’’وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُواْ مِنْہَا حَیْْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْن‘‘( البقرۃ : ۵۸)

اور (وہ وقت بھی یاد کرو)جب ہم نے کہا تھا کہ  اس بستی میں داخل ہوجا اور اس جہاں سے چاہو جی بھر کر کھا اور (بستی کے)دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یااللہ)ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں (اس طرح)ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔

 علماء کے مابین اس گاؤں کی تعیین میں اختلاف ہے، جمہور علماء کا کہنا ہے یہاں ’’قریۃ‘‘ ’’گاؤں ‘‘سے مراد بیت المقدس ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : یہاں ’’باب‘‘ دروازہ سے مراد بیت المقدس کا ’’باب الحطۃ‘‘مرا د ہے۔

 ۵۔’’أَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلَی قَرْیَۃٍ وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلَی عُرُوشِہَا‘‘( البقرۃ: ۲۵۹)

(یا (تم نے)اس جیسے شخص (کے واقعے) پر (غور کیا) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گزر ہوا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی ؟)قرطبی نے ذکر کیا ہے اس سے مراد وہب بن منبہ اور قتادہ وغیرہ کے قول کے مطابق بیت المقدس ہے، جس وقت اللہ عز ووجل نے بخت نصر کے ذریعہ بیت المقدس سے ان کا تخلیہ کرایا تھا، یہ عراق کا والی تھا، شوکانی اور جمہور بھی اسی بات کے قائل ہیں ۔

۶۔’’فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ قَالَ إِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَر‘‘( البقرۃ : ۲۴۹)

(چنانچہ جب طالوت لشکر کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے (لشکر والوں سے) کہا کہ : اللہ ایک دریا کے ذریعے تمہارا امتحان لینے والا ہے)۔قتادہ نے ذکر کیا ہے کہ یہاں نہر سے مراد اردن اور فلسطین کے درمیان کی نہر ہے، شوکانی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ نہر اردن ہے، ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نہر فلسطین ہے۔

 ۷۔’’حَتَّی إِذَا أَتَوْا عَلَی وَادِیْ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُودُہُ وَہُمْ لَا یَشْعُرُون‘‘(سورۃ النمل : ۱۸)

یہاں تک کہ جب وہ آئے چیونٹیوں کی وادی پر کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیو تم داخل ہو جاو اپنے گھروں (بلوں )میں (کہیں )ہرگزکچل نہ دیں تمہیں سلیمان اور اس کا لشکراس حال میں کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں ۔

امام رازی کہتے ہیں ، اس ’’وادی النمل‘‘ سے مراد ’’وادی شام ‘‘ ہے، جہاں چیونٹیوں کی کثرت ہوتی ہے، یہ وادی ’’عسقلانی ‘‘ کے پڑوس میں واقع ہے۔

یہ سرزمین جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم بار بار آیا ہے، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے، یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ناپاک یہودی اپنے قدم جمانے اور اس کو اپنی ملک اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کے ناپاک عزائم بناچکے ہیں اور منصوبہ پر عمل در آمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ساری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے، جلسے جلوس ہورہے ہیں ، مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور اس بیت المقدس کی بازیابی کے لئے اور اس پا ک سززمین پر ناپاک قدم پڑنے روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کرنی چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔