سیاسی ٹھگ

زبیر خان سعیدی

قدیم زمانے میں لوگوں کو بے وقوف بناکر مال بٹورنے کے لئے چھوٹے چھوٹے گروہ ہوا کرتے تھے، جنہیں لوگ ٹھگ کہا کرتے تھے، پہلے اسی عہد سے جڑا ایک بہت مشہور ٹھگی کا قصہ آپ کو سناتا ہوں، پھر گفتگو کا رخ دوسری جانب کریں گے، کافی معروف ہے اور شاید آپ سب نے سنا بھی ہوگا کہ:

"ایک دیہاتی تھا، جو بکرا خرید کر اپنے گھر جا رہا تھا، چار ٹھگوں نے اسے دیکھ لیا اور ٹھگنے کا پروگرام بنایا۔ چاروں ٹھگ اس کے راستے پر کچھ فاصلے سے کھڑے ہو گئے۔ وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو پہلا ٹھگ اس سے آکر ملا اور بولا  ’’بھائی یہ کتا کہاں لے کر جارہے ہو؟

‘‘دیہاتی نے اسے گھور کر دیکھا اور بولا ’’بیوقوف تجھے نظر نہیں آرہا کہ یہ بکرا ہے، کتا نہیں‘‘۔

دیہاتی کچھ اورآگے بڑھا تو دوسرا ٹھگ اس سے ٹکرایا۔ اس نے کہا ’’یار یہ کتا تو بڑا شاندار ہے، کتنے کاخریدا؟

‘‘دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔ لیکن…. اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا، مگر…….. آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا، جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب بالا! یہ کتا کہاں سے لیا؟

اب دیہاتی تشویش میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں واقعی یہ کتا تو نہیں۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔ بالآخر چوتھے ٹھگ سے دوچار ہوگیا، جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا: جناب کیا اس کتے کو گھاس کھلاؤ گے؟

اب تو دیہاتی کے اوسان خطا ہو گئے اوراس کا شک یقین میں بدل گیا کہ "یہ واقعی کتا ہے۔” وہ اس بکرے کوچھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور یوں ان چاروں ٹھگوں نے بکرا ٹھگ لیا.

قصہ ختم

اب غور کریں کہ موجودہ وقت میں کتنے قسم کے سیاسی، سماجی، رفاہی اور اصلاحی ٹھگ (ابن الوقت) جو ہمیں کسی نہ کسی انداز میں الو بنا کر لگاتار ٹھگ رہے ہیں، اگر تمام ٹھگوں کی تفصیلات میں بیان کرنا شروع کردوں تو ایک کتاب بھی کم پڑ جائے گی

آئیے، اس لئے ابھی صرف فوکس کرتے ہیں، حالیہ سیاسی منظر نامے اور تازہ ترین ٹھگی پر، آج کل شرافت اور سیکولر نام کے کچھ سیاسی ٹھگ نئی نئی جماعتوں کی شکل میں ہمارے سامنے یا ہماری صفوں میں موجود ہیں، جو ہمیں نت نئے مسائل میں الجھا کر اصل امور، اصل عوامل، اسباب شکست اور اس کے سد باب سے ہمیں دور رکھنے کا کام بہ حسن خوبی انجام دے رہے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں

غور کریں گجرات کے نتائج پر، سارے اسٹیٹکس اب آپ کے سامنے ہیں، کانگریس کو جہاں ہار ملی ہے وہیں خوب فائدہ بھی ہوا ہے، لیکن فائدہ اتنا نہیں کہ وہ حکومت سازی کی پوزیشن میں ہوتے، واضح اکثریت نہ ملنے کے سبب ایک بار پھر کانگریسیوں کو حکومت میں حزب مخالف بن کر ہی بیٹھنا پڑے گا-

قبل اس کے کہ لوگ اپنی ہار پر سنجیدگی سے غور کرپاتے، کچھ سیاسی ٹھگ ای وی ایم کو ایک بار پھر خبروں میں لاکر دھیان ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ صاف صاف دکھ آیا ہے کہ کانگریس کو کچھ نشستوں پر صرف سو کالڈ مہا سیکولر فورسز کو حاصل ہونے والے ووٹوں نے ہرایا ہے،، رہی سہی کسر آزاد سیکولر امیدواروں نے پوری کردی ہے اور ان نشستوں کی تعداد اتنی ہے، جتنی کانگریس کو واضح اکثریت کے لئے مطلوب تھی، یہ بتاتا چلوں کہ مجھے کانگریس کا حمایتی بھی نہ سمجھا جائے۔

اب کچھ سوالات نما حقائق پر نظر ڈالیں 

۔ ای وی ایم کو ولین کے طور پر پیش کرنے جب جانتے ہیں اور جانتے تھے کہ ای وی ایم مشتبہ مشین ہے، تو اس کا مکمل بائیکاٹ پہلے کیوں نہیں کرتے ہیں، کیوں عین نتائج کے اعلان کے بعد ہی یہ بحث چھڑتی ہے؟

۔ اور اگر واقعی ای وی ایم ہی ولین کا رول پلے کر رہی ہے تو کانگریس کی نشستوں میں دگنا اضافہ کیونکر ممکن ہو گیا ہے؟

۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں اب بھی اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے مگر جمہوریت کے اصول ہی کچھ ایسے ہیں کہ وہ گنتی میں زیادہ اچھے لوگ کئی جگہ تقسیم ہو جاتے ہیں، جس کا فائدہ یقیناً کم اچھوں یا بروں کو مل جاتا ہے

۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں ای وی ایم میں ممکنہ چھیڑ چھاڑ سے انکار نہیں کر رہا ہوں لیکن مجھے اعتراض صرف اس ٹائمنگ پر ہے، جب ہار کی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے سارا ٹھیکرا ہی ای وی ایم پر نکالنے کو ترجیح دی جاتی ہے

۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں، دشمن طاقتوں کو پہچانیں ورنہ ای وی ایم کرتے کرتے بہت دیر ہو جائے گی اور چڑیا سارا کھیت چگ جائے گی اور یہ ملک کنگال ہو جائے گا

 اس پوری صورتحال سے بچنے کے لیے ایک صالح انسان کو جو تدبیر اختیار کرنی ہے وہ یہ ہے کہ  ” وہ ان شیطانوں کو پہچانے اور ان کی باتوں کو اہمیت نہ دے ورنہ اس کاحشر اس دیہاتی کی طرح ہوگا جو بکرے کو کتا سمجھ بیٹھا تھا۔”

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔