سیلابِ کوکن

مرزا انور بیگ

(میرا روڈ، تھانہ)

بڑھاؤ ہاتھ اے لوگو پڑا ہے وقت کوکن پر
مصیبت کی گھڑی ہے اور برا ہے وقت کوکن پر

ندی نالے پہاڑی چوٹیوں تک پانی چڑھ آیا
جنھیں رکنا کناروں تک تھا شہروں تک وہ بڑھ آیا

سبھی اطراف منظر بس تباہ کاری نظر آۓ
جسے دیکھو اسی چہرے پہ غم طاری نظر آۓ

پھسلنے کے پہاڑوں کے ہوئیں مسدود سب راہیں
مچی وہ افراتفری جو کہ جائیں تو کہاں جائیں

کوئی کہتا قیامت ہے کوئی کہتا ہے پرلے ہے
تباہی بے تحاشہ ہے یہی اک بات بس طے ہے

بڑھاؤ ہاتھ اے لوگو پڑا ہے وقت کوکن پر
جو کر سکتے ہو کر جاؤ برا ہے وقت کوکن پر

سبھی جانب وہاں کیچڑ ہی کیچڑ اور پانی ہے
جہاں دیکھو وہاں پر وحشتوں کی حکمرانی ہے

نہ اعلی ہیں نہ ادنیٰ ہیں نہ ہندو نہ مسلماں ہیں
مصیبت میں پڑے ہیں جو بھی سارے بس وہ انساں ہیں

نہ نفرت ہندوؤں کی نہ مسلماں کی مسلمانی
تھے لت پت ایک ہی مٹی میں کیا بھگوا تھے کیا دھانی

سکھاتے ہیں سبق دنیا کو یہ لمحے بڑے چھوٹے
جو نہ انسانیت سمجھے وہی کھاتے ہیں پھر دھوکے

تبصرے بند ہیں۔