سات سال، ملک کے عوام بے حال 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

 وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی دوسری میقات کی ابتداء میں بی جے پی کارکنوں اور پارٹی ذمہ داران کو خطاب کرتے ہوئے جن عزائم کو دوہرایا تھا، ان میں غریبی دور کرنا، اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانا شامل تھا۔ اسی تقریر میں "سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس” کو پارٹی کے سلوگن میں جوڑا گیا تھا۔ یہ نعرہ نہ بھی دیا جائے تب بھی ایسا کرنا ہر وزیراعظم کی آئینی ذمہ داری ہے۔ غریبی دور کرنے کے لئے کام کرنے والوں کو سرکاری تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ اس وقت لگا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی نے اقوام متحدہ میں غریبی دور کرنے کا جو عہد کیا تھا وہ اب شاید پورا ہو  جائے گا۔ یہ بھی امید بندھی تھی کہ مسلمان جس مایوسی، محرومی میں زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی دور ہو جائے گی۔ لیکن گزشتہ دو برس میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ مودی سرکار کی پہلی میقات سے زیادہ افسوس ناک ہے۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس اور مہنگائی نے پوری کر دی ہے۔

یونیسیف اور سیو دی چلڈرن کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہوئے بحران نے پندرہ کروڑ سے زیادہ بچوں کو غریبی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں غریبی میں رہنے والے بچوں کی تعداد ایک ارب بیس کروڑ ہو گئی ہے۔ صرف بھارت میں کورونا کال میں قریب تین کروڑ منظم زمرے کی نوکریاں چلی گئیں۔ غیر منظم زمرے میں کتنے لوگوں کا روزگار چھنا اس کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔ غریبی کو لے کر دنیا بھر میں جو ایک طرح کی بے حسی رہی ہے۔ اس میں شاید پندرہ کروڑ اور بچوں کے غریب ہونے کو بھی بہت سنجیدگی سے نہ دیکھا جائے۔ مگر یہ دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نئی صورتحال انسانیت کے سامنے سنگین بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔

کورونا سے پہلے نوٹ بندی، جی ایس ٹی (جسے غریبوں کے حق میں لیا گیا فیصلہ بتایا گیا تھا) کا سیدھا اثر غریبوں پر پڑا۔ کتنوں کی روزی روٹی چھن گئی تو کتنوں کو نئے نوٹ نہ ملنے کی وجہ سے بھوکے رہنا پڑا۔ نئے نوٹ نکالنے یا بنک سے نوٹ بدلنے کے لئے لائن میں کھڑے ہونے سے ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی وہ الگ۔ اس کے بعد مکمل تالا بندی، پھر کورونا کی دوسری لہر اور بے لگام مہنگائی نے غریب طبقات کی زندگی کو اجیرن بنا دیا۔ حق اور عزت سے زندگی گزارنے جیسی باتیں ان کے لئے خواب بن گئی ہیں۔ وہ اسے مقدر سمجھ کر کسی طرح اپنے خاندان کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ لیکن اتنی گنجائش نہیں نکل پا رہی کہ اپنے بچوں کی پڑھائی کے لئے ضروری وسائل مہیا کرا سکیں۔ کورونا کی دوسری لہر کے بعد بچوں کو پڑھانا تو دور بنیادی ضروریات کو پورا کرنا بھی عام آدمی کے لئے محال ہوگیا ہے۔ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا ماننا ہے کہ جو خاندان غریبی سے نکلنے کے قریب تھے، وہ کووڈ کی وجہ سے واپس غریبی میں چلے گئے ہیں۔ لوگ ایسی تنگی اور پریشانی جھیل رہے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھی۔ یونیسیف اور سیو دی چلڈرن نے بچوں کے غریبی میں گہرے دھنسنے کی وجہ تعلیم، صحت، عدم غذائیت، دیکھ بھال اور رہنے کی مناسب جگہ نہ ملنا بتایا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے پچھلے سال مدھیہ پردیش کے ایک لاکھ سے زیادہ سڑک کنارے ٹھیلا لگا کر یا فٹ پاتھ پر کام کرنے والوں (اسٹریٹ وینڈرس) سے خطاب کیا تھا۔ انہوں نے غریبوں اور محروم افراد کے مفاد میں کام کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں پچھلے چھ برسوں میں غریبوں کے مفاد میں جتنے منظم طور پر کام ہوئے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے تمام اسکیمیں اس طرح ایک دوسرے کو جوڑ کر بنائی ہیں کہ غریبوں، مظلوموں، استحصال کے شکار محروموں، دلتوں اور قبائلیوں کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔ انہوں نے سوندھی یوجنا سے ایک لاکھ سے زیادہ اسٹریٹ وینڈرس کے مستفید ہونے کی بات کہی۔ اس موقع پر وہ اجولا، جن دھن، آیوشمان بھارت اور ڈیجیٹل لین دین کا ذکر کرنا نہیں بھولے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دوسری اسکیموں کا فائدہ نہیں مل رہا ہے تو اسے یقینی بنایا جائے گا۔ گزشتہ سالوں میں اسکیمیں انتخابات کے مدنظر لانچ ہوئیں ان کا ڈھنڈورا بھی خوب پیٹا گیا۔ سوندھی یوجنا کا اعلان مدھیہ پردیش کے ضمنی انتخابات کے مدنظر کیا گیا تھا۔ مگر اس سال ہوئے بنگال الیکشن سے پہلے کسی اسکیم کا اعلان نہیں ہوا۔ یہ انتخاب سوشل انجینئرنگ اور ہندوتوا کو مرکز میں رکھ کر لڑا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ آگے آنے والے انتخابات بھی اسی بنیاد پر لڑے جائیں گے۔

کورونا کی دوسری لہر نے ترقی کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی۔ حالات ایسے بن گئے کہ لوگ کورونا سے مر جائیں یا پھر مہنگائی سے۔ حکومت اپنی ناکامی سے عوام کا دھیان ہٹانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت یہ کہنا ہو کہ کورونا میں حکومت سے غفلت ہوئی ہے لیکن غفلت انتظامیہ اور عوام سے بھی ہوئی ہے۔ یا پھر یہ کہ موب لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہئے، ہندو مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے، مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وغیرہ۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی اور نریندرمودی کے بیچ تنازعہ کی خبریں، تبدیلی مذہب کے مسئلہ کو بلا وجہ طول دینا ہو یا پھر یوپی آبادی کنٹرول بل 2021 پر بحث، یوگی کے طریقہ کار پر خود بی جے پی کے دو سو سے زیادہ ممبران اسمبلی کی ناراضگی کے باوجود مودی جی کے ذریعہ یوگی ادتیہ ناتھ کی تعریف اور یوگی جی کا نریندرمودی کی تعریف کرنا وغیرہ۔ یہ سب عوام کے غصّہ کو کم کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔

موجودہ حکومت کے نزدیک عام آدمی کو چھوڑیئے پارلیمنٹ، ممبران پارلیمنٹ، آئینی اداروں، وزراء اور صحافیوں تک کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پیگا ساس جاسوسی معاملہ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ اپوزیشن کے شدید مطالبہ پر حکومت جاسوسی معاملہ کی جانچ کرانے کے بجائے جانچ کی مانگ کرنے والوں کی جانچ کرا رہی ہے۔ ہندی میڈیا ہاؤس بھاسکر کے دفاتر پر انکم ٹیکس کے چھاپوں کو اسی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ملک کا ان داتا کئی مہینوں سے سڑکوں پر ہے۔ کتنے ہی کسان اس احتجاج کے دوران اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ لیکن حکومت ان کا درد سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ کارپوریٹ کے حق میں لئے گئے فیصلہ کو وہ واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔ جمہوری حکومت کا یہ رویہ ملک و عوام کے حق میں نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ گزشتہ ستر سال کے دوران مختلف وزراء اعظم نے جو قومی اثاثے بنائے تھے حکومت انہیں اونے پونے داموں پر فروخت کر رہی ہے۔ جبکہ 2014 میں بی جے پی کا انتخابی ترانہ تھا "میں دیش کو نہیں جھکنے دوں گا میں دیش کو نہیں بکنے دوں گا” اس گیت کو خود نریندرمودی نے اپنی آواز دی تھی۔ اس جذباتی ترانہ کی روشنی میں ملک کو دیکھیں تو سب کچھ الٹا ہو رہا ہے۔ حکومت ملک کا سب کچھ یہاں تک کہ فوج کی زمین تک بیچنے پر آمادہ ہے۔ اس کے بعد بھی ریزروبینک سے حکومت پیسے لے چکی ہے۔ سرحد پر چین سے تنازعہ چل رہا ہے ملک کی زمین پر چین کے قبضہ کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔

مہنگائی اپنی انتہا پر ہے اور ملک کی معیشت اپنے انتہائی خراب دور سے گزر رہی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کمزور نظام صحت کی گواہ ہے۔ مریضوں کو دوا اور آکسیجن تک مہیا نہیں ہو سکا لیکن ملک کے سربراہوں کی رئیسی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ قریب سترہ ایکڑ کے مکان میں رہتے ہیں۔ اس مکان کی دیکھ بھال وغیرہ پر دو ہزار افراد معمور ہیں۔ آنے جانے کے لئے بی ایم ڈبلیو کی کئی گاڑیوں کا قافلہ ہے۔ جس میں سے ہر گاڑی کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ ملک سے باہر جانے کے لئے امریکہ سے تمام سہولیات سے لیس اپنے اور صدر جمہوریہ کے لئے دو جہاز خریدے گئے ہیں۔ ایک جہاز کی قیمت 320 ملین ڈالر ہے۔ لوٹین زون کو اور خوبصورت بنانے، پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کرنے پر بھی اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک معاشی بحران کا شکار ہے تو اس منصوبے کو کچھ وقت کے لئے ملتوی کیوں نہیں کیا جا سکتا۔

رہی سب کا بھروسہ حاصل کرنے کی بات تو مسلمانوں کے تعلق سے حکومت اور برسراقتدار جماعت کے رویہ میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ بلکہ ایسے فیصلے لئے جا رہے ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو اور اکثریت نوازی کی فکر پروان چڑھے۔ بہر حال کورونا کی مار ویسے تو سبھی شعبوں پر پڑی ہے لیکن سب سے زیادہ غریب اور محروم طبقات اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت روزگار کی کمی کی وجہ سے نئے بحران کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔ خاندان کی آمدنی کم ہونے سے بنیادی غذائیت سے محرومی اور بیماری کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اسکول بند ہیں آن لائن نظام تعلیم نے غریب اور وسائل سے محروم طبقات کے طلبہ کو پڑھائی کے دائرے سے باہر کر دیا ہے۔ اس کا سیدھا اثر غریبی میں زندگی گزارنے والے بچوں کی حالت اور خراب ہونے کی شکل میں سامنے آئے گا۔ جب بیماری غریبی کو وسعت دیتی یا بڑھاتی ہے تو ایک بیماری کے ساتھ کتنی اور بیماریاں کسی ملک یا سماج کو مسائل کی گہری کھائی میں دھکیل سکتی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھک مری اور بیماری کے ڈر سے کتنے ہی غریب خودکشی کر چکے ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں شامل 117 ممالک میں بھارت 102 ویں مقام پر ہے۔ بھک مری سے بچانے کے لئے کورونا کے دور میں اسی کروڑ غریبوں کو پانچ کلو اناج دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے غریبوں کی بدحالی کا اندازہ با خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اناج دینے کے بجائے انہیں غریبی و محرومی سے اوپر اٹھانے کی منصوبہ سازی کی جاتی۔ اس سے نہ صرف وہ خود کفیل بنتے بلکہ ملک کی مجموعی پیداوار بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔