شاہ نور محمد بہرائچی قسط 2

عادات و خصائل و کمالات

مولانا نور محمد نہایت رحم دل رفیق القلب تھے۔اور سینہ عشق رسول ؐسے لبریز تھا ۔ رسول اللہؐ کے نام پر صلوۃ و سلام پڑھنے کے وقت بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔آپ کبھی کسی کی برائی نہ کرتے تھے ،اور اگر کوئی شخص آپ کے متعلق کوئی نازیبا کلمات کہتا اور اسکی خبر آپ کو ہو جاتی تو فرماتے کہ کہنے دو۔

تواضع و سادگی

آپ کو اگر کوئی گھر لیجانا چاہتا تو آپ اسکے منتظر نہ رہتے کہ پھر کوئی استقبال کیلئے آئے شہر میں اگر کوئی سواری لانے کو کہتا تو آپ انکار فرما دیتے۔امراء سے زیادہ غربامیں گھل مل کر رہنا پسند فرماتے۔ملازموں کے ہوتے ہوئے بھی گھر کا سامان وغیرہ بھی خود خرید کر لے آتے،اور اکثر اوقات محلہ والوں سے بھی دریافت فرما لیتے تھے۔
آپ کی وضع بالکل سادہ تھی ۔اکثر کرتا زیب تن رہتا تھا۔ سر پر گول ٹوپی یا کتھئی رنگ کا عمامہ ہوتا تھا،عیدین وغیرہ کے موقع پر اچکن اور عبا بھی پہن لیتے تھے۔

ذکر الہٰی و توکل

ُآپ کوشیخ الدالائل مولانا محمد عبد الحق ؒ سے خلافت حاصل تھی اور آپ طریقہ نقشبندیہ کے مطابق ہروقت ذکر الہٰی میں مصروف رہتے تھے اور ہر وقت آپ زبان پر ذکر خدا رہتا تھا۔ اور کبھی کبھی نیند کی حالت میں آپ ذکر کرنا شروع کر دیتے تھے اور آواز اتنی بلند ہو جاتی تھی کہ محلہ کے لوگ نیند سے بیدار ہو جاتے تھے۔
آپ کے اکثر کاموں کے افتتاح کے وقت ظاہری اسباب کچھ بھی نہ ہوتے تھے ۔آپ نے جب تفسیر اکلیل کی طباعت اپنے ذمہ لی تو ایک جلد کے چھپنے کا سرمایہ بھی نہ تھا ۔حالانکہ اسکے طباعت کا تخمیہ 2ہزار سے کم نہ تھا ،مولانا محض توکل علی اللہ اس خدمت کو اپنے ذمہ لیا آخر خدا نے اسے پورا کیا ۔ایک بار حج کا ارادہ ہوا ،چچا نے محض 2 روپئے آپ کو دئے اور انہیں 2روپوں کو لیکر آپ حج پر چل دئے نہ کسی سے کچھ طلب فرمایا نہ کسی پر اپنی حاجت ظاہر کی ۔آپ خدا پر بڑا یقین رکھتے تھے اور اللہ نے اس پورے صفر حج میں آپ کا پورا خیال رکھا۔

حج

مولانا یوں تو ہند میں اقامت گزین تھے مگر آپ کا دل ہمیشہ عرب کی سر زمین میں لگا رہتا تھا۔اور 9 حج کر چکے تھے آپ کی تمنا تھی کہ حجاز ہی کے راہ میں میری وفات بھی ہوا۔اللہ نے آپ کی یہ تمنا بھی پوری کی۔

آخری ایام

مولانا نورمحمد ؒ کی وفات ایک بیحد تعجب انگیز تھی ۔جسکی تفصیل کچھ اس طرح ہے مولانا نور محمد ؒ نے 1348ھ میں نواں (9) حج کیا تھا اور وہاں سے واپس پر سخت علیل ہوگئے تھے اور عرصہ تک علیل رہے ،ضعف بیحد بڑھ گیا تھا ،خوراک بہت کم رہ گئی تھی جمادالشانی1349ھ تک مرض کا بہت اثر رہا ۔لیکن پھر صحت میں بہتری ہونے لگی اور تا دم وفات طبیعت رو بصحت ہی رہی لیکن اس مرض کا آپ کے مشاغل پر کوئی اثر نہ تھا شاید ہی کوئی ایسا وقت ہوا کہ باجماعت نماز نہ پڑھی ہو ۔اس مرض کی حالت میں آپ نے رسڑا میں مدرسہ فیض عام کی بنیاد رکھی اور آپ کا سارا وقت اسی کی تعمیر میں صرف ہوتا تھا۔خود تمام کاموں کی نگرانی فرماتے اور بعض وقت خود اپنے ہاتھوں سے کام شروع کر دیتے تھے۔اس طرح عمارت تعمیر ہوگئی ۔ رسڑا میں مولوی سعید بہت زیادہ علیل تھے مولانا عیادت کے لئے تشریف لے گئے مولوی صاحب سے ملے اور دونوں کی آنکھوں میں آنسو ں جاری ہوگئے مولانا نے فرمایا کہ چلئے اب ہمارا وقت بھی قریب ہے ۔مولوی صاحب کی وفات تیسرے ہی دن ہوگئی اور مولانا کی تقریباََ پانچ ماہ کے بعد وفات ہوئی ۔آپ سال وفات میں جب لوگوں سے ملتے سب سے ایسے کلمے کہتے جس سے معلوم ہوتا اب یہ آخری ملاقات ہے ۔جن جن مقامات پر تشریف لئے جاتے با چشم گریاں واپس ہوتے اور کسی نے کچھ بھی کہا فوراََ آنسو نکل آتے لڑکے تنظیم کی نظمیں پڑھتے ہوئے نکلتے جب آپکو دیکھا جاتا کہ آنکھوں سے آنسوں جاری رہتے تھے۔ رمضان میں معتکف ہوئے تو بعض مخلصین سے فرمایا کہ سرور عالم ﷺ کی عمر 63برس کی ہوئی تھی اور میری عمر بھی63 سال کی ہو چکی ہے اب ارادہ ہے حجاز کا کاش خدا اس سفر میں یہ سنت کو پوری کرا دے ۔عید کے بعد اکثر لوگوں اصرار کرنے پر مختلف مقامات پر لیگئے تھے۔جہاں جہاں وعظ فرماتے ایسا وعظ فرماتے جس سے معلوم ہوتا کہ مولا نا کے واعظ سے دنیا اب جلد محروم ہونے والی ہے 15شوال کو آبائی وطن رسڑا گئے اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کر کے 21شوال کو واپس بہرائچ پہنچے ۔ 22شوال کو جمعہ کا دن تھا آپ سے عرض کیا گیا کہ بازار کی مسجد میں نماز ادا فرمائے لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں مجھے تمام لوگوں سے ملاقات کرنا ہے میں جامع مسجد میں نماز پڑھونگا آپ سے لوگوں نے اصرار کیا کہ وہاں تشریف نہ لے جائے مگر آپ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے بہت سے لوگوں سے ملنا ہے چنانچہ وہیں تشریف لے گئے۔جمعہ بعد ایک مختصر سا وعظ فرمایا اور جو بات پہلے اشارۃ فرماتے تھے اسے آپ نے صراحتہََ فرما دیا کہ صاحبوں یہ میرا آخری وعظ ہے اس کے بعد میں غالباََ آپ سے نہ مل سکوں اس لئے اگر مجھ سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا میں نے کسی کی غیبت کی ہو تو خدا کے لئے مجھے معاف کر دیں ۔آپ نے اس آخری وعظ میں استقامت علی الدین خلوص اتحاد و اتفاق تنظیم و اصلاح کے متعلق مختصر لفظوں میں فرمایا ۔

آخری سفر حج

24شوال کو روانگی حج کا دن تھا علی الصباح درگاہ حضرت سید سالار مسعود غازیؒ [8]تشریف لے گئے ،راہ میں حافظ حیرت شاہ وارثی ؒ (بہرائچ کے ایک مجذوب بزرگ تھے)سے ملاقات ہوئی کچھ دیر گفتگو ہوئی ، درگاہ جا کر فاتحہ پڑھی پھر حافظ حیرت شاہ ؒ سے ملاقات ہوئی اور تقریباََ 5یا 6منٹ تک آپس میں ایسی باتیں ہوئی کہ سوائے آپ دونوں حضرات کے حاضرین میں کوئی نہ سمجھ سکا 1بجے ظہر کی نماز پڑھ کر اسٹیشن کی جانب روانگی ہوئی روانگی کا منظر عجیب منظر تھا ۔ یوتوں بہرائچ میں بیسوں جلوس نکلے ہونگے مگر یہ جلوس جس نوعیت کا تھا اسکی کیفیت ہی الگ تھی۔ہزاروں کا مجمعہ تھا جلوس سادہ تھا حسن عقیدت کے پھول نچھاور کئے جا رہے تھے ۔جلوس میں شامل لوگوں کی آنکھیں اشک با رتھی۔مولانا نور محمد بہرائچ کی تنظیم کمیٹی کے صدربھی تھے۔ کمیٹی نے اپنے صدر نے اپنے صدر کے الوداعی جلوس کیلئے تمام رضاکاروں کو جمع کر لیا تھا ۔رضا کار الودعی نظمیں پڑھ رہے تھے بیک لمحہ ہزاروں زبانوں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوکر فضا میں گونج رہی تھی۔مولا نا جلوس کے حلقہ میں تھے آپ پر استغراق کی کیفیت طاری تھی اور سر جھکا ہواتھا۔جلوس جب مولانا نعیم اللہ شاہؒ بہرائچی کے مزار کے سامنے پہنچا تو وہاں رک کر آپ نے فاتحہ پڑھا اسٹیشن تک مجمع بہت بڑھ گیا تھا ۔پلیٹ فارم پر انسانی سروں کا ایک جنگل نظر آرہا تھا ،مولانا کو ایک کرسی پر بیٹھا دیا گیا ۔تما م لوگ اپنی اپنی جگہ پر زمین پر بیٹھ گئے تھے۔اہل شہر بہرائچ کی طرف سے ایک الودعی نظم پڑھی گئی نظم پڑھنے کے دوران میں مولانا خود بھی رو رہے تھے اور اکثر حاضرین بھی رو ہے تھے۔الوداعی نظم اس طرح تھی۔الوداعی نظم ہونے کے بعد مولانا نور محمد صاحب کی طرف سے ایک تحریر پڑھ کر سنائی گئی جس میں آپ نے آخری بار اوام سے خطاب کیا تھا۔جس میں آپ نے اسلامی طور طریقہ سے زندگی گزارنے کی تلقین کی تھی اور نصیحتے فرمائی تھی۔تحریر سنانے کے بعد آپ نے الوداعی مصافحہ کیا ۔ہر شخص آپ سے مصافحہ کے لئے بیتاب تھا ۔پھر ٹرین میں سوار ہوئے اور سفر حج کے لئے روانہ ہوئے مگر یہ سفر حقیقت میں خدا کی طرف روانگی کا تھا ۔

وفات

آپ سفر حج کے لئے روانہ ہوئے مگر یہ سفر حقیقت میں خدا کی طرف روانگی کا تھا ۔ٹرین میں سفر کے دوران ہی غفلت شروع ہوئی ۔اگلے اسٹیشن پر آپکو لٹادیا گیا پانی کے چھنیٹے وغیرہ دئے گئے ۔پہلے نبض بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی لیکن پھر نبض کی رفتار بھی اچھی ہوگئی تھی ،مگر گونڈہ تک طبیعت اور زیادہ بگڑ گئی ،شب میں ڈاکٹر اور طبیب نے معائنہ کیا اور بتایا کہ فالج کا اثر ہے مولانا جب سے غافل ہوئے تکلم نہ فرما سکے محض رات میں 9بجے ایک بار اللہ زبا ن سے نکلا اور کلمہ شہادت کی انگلی اٹھی ۔اسٹیشن سے بڑگائیں بازار میں لایا گیا وہاں سے صبح 8بجے موٹر لاری سے بہرائچ لانے کے لئے سوار ہوئے ،آپکا پورا خاندان اسی میں موجود تھا ۔کوڑیا کے مقام سے آگے نکل آئے تھے کہ دوبار آپکو چھینک آئی نبض دیکھی گئی تو ساقط ہو چکی تھی ،اور آپکی روح 15 مارچ 1931ءکو اس عالم فانی سے کوچ کر گئی اور آپکی وفات کی خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی تھی اور مولانا کے مکان پر امڈ پڑا تھا ۔شہر کی تمام دوکانیں بند تھی۔دوسرے دن جب جنازہ کا جلوس نکلا اس جنازہ میں دس بارہ ہزار آدمی تھے۔ہر شخص کی آرزو تھی کہ جنازہ کو کندھا دو۔مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی کے مزار کے مغربی جانب آپکو دفن کیا گیا جہاں آج آپ کی مزار ہے آپ کی وفات کے بعد ضلع اور بیرون ضلع میں ایصال ثواب کیا گیا مولانا ابراہیم بلیاوی نے آپ کے صاحب زادہ کو اپنے تعزیت نامہ میں یہ اطلاع دی تھی کہ دارالعلوم دیوبند میں بھی آپ کے لئے ایصال ثواب ہوا ۔

الوداعی نظم

الوداعی نظم مولانا نور محمد ؒ کے فرز ند محمد احسان الحق مہتم جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ نے لکھی تھی جو اس طرح تھی۔

الوداع اے زائر کوے محمد الوداع الوداع اے عاشق روئے محمد الوداع
الوداع اے ہادی دین محمد الوداع الوداع اے مولوی نور محمد الوداع
الوداع اے عازم حج و زائر ارض حرم الوداع اے پیر ودین شہ خیر الانم
کیا کلام اس میں کہ ہے ارض حرم وہ سرزمین جس جگہ پیدا ہوئے تھے رحمت للعالمین
سچ ہے دنیا میں کوئی بڑھ کر جگہ اس سے نہیں شکر رب العالمین کہ آپ جاتے ہیں وہیں
التجا یہ ہماری آپ سے سے سن لیجئے ہم غریبوں کے لئے جا کر دعایءں کیئجے
ہم گنہگاروں کے حق میں یہ دعا فرمائے از طفیل سرور عالم خدایا بخشدے
گوہر ہر مقصود سے دامن ہمارے پر کرے زندگی بھر ہم حمایت میں رہیں تنظیم کے
درد ہر دل میں ہو ہمارے ایک فقط اسلام کا مرتے دم تک ورد ہو دل سے خدا کے نام کا
ہم کو وہ قوت عطا کراے خدا ئے ذوالکرم صفحہ ہستی سے باطل کو مٹائیں یک قلم
خدمت اسلام میں ہم سب رہیں ثابت قدم سرگوں ہونے نپائے دین احمد کا علم
مشرق سے تا مغرب اب سکہ چلے اسلام کا سارے عالم میں بجے ڈنکا خدا کے نام کا
قادر مطلق نہیں کوئی بھی ہے تیرے سوا عاجز لاچار ہیں ہم سب ترے ور کے گدا
اے خدائے دو جہاں صدقہ رسول پاک کا ہم گنہگاروں کی بھی مقبول ہویہ التجا
جب تلک زندہ رہیں قائم رہیں اسلام پر ہوں عمل پیرا ہمیشہ ہم تیرے احکام پر
بعد حج ارضِ حرم سے سوئے طیبہ جایئے جایئے ہا ن شوق سے شہر مدینہ جایئے
روضۂاطہر پہ بھی جاکر دعا فریئے بینواؤں کی طرف سے التجا فرمایئے
اے حبیب کبریا اے سرور خیرالانام یہ دیا ہے شہر بہرائچ کے مسلم نے پیام
الصلوۃ والسلام اے رحمتہ للعالمین اصلواۃ والسلام اے قبلہ حاجات دین
الصلوۃ والسلام اے نور رب العالمین الصلوۃ والسلام اے شافع یوم الیقین
الصلوۃ اے سرور عالم محمدؐالسلام الصلوۃ اے رہبر عالم محمدؐالسلام
حال دل کیسے سنائیں تم سے کوسوں دور ہیں درد دل سے اپنے اے آقا بہت مجبور ہیں
شرم آتی ہے کہیں ہم آپ سے کیا اے شہا یہ دعا کیجئے کہ بس اب رحم فرمائے خدا
کیجئے للہ عنایت اے شہ ہر دوسرا ہاتھ اٹھا کر آپ کہدیجے کہ اے بار خدا
حال ابتر ہوچکا ہے امت مرحوم کا کچھ نہیں باقی رہا ہے اس حسرت کے سوا
بارش ابر ہوجائے ان پر ایک بار پہلی سی غرت انھیں دے اے مرے پروردگار
حضرت صدیقؓسا صدق وصفا پیدا ہوا پھر حضرت فاروقؓسا عدل ووفا پیدا ہوا پھر
حضرت عثمانؓ کا علم وسخا پیدا ہوا پھر اور دنیا میں کوئی شیر خدا پیدا ہو ا پھر
تاکہ پھر شاداب ہو گلشن تیرے اسلام کا ہر مسلما ن پھر بنے شیدائی تیرے نام کا
ہے یقین ہم کو خدا سے آپ گر کہدیجئے کام بن جائیں ہمارے جتنے ہیں بگڑے ہوئے
ہم بھلے ہیں یا برے ہیں نام لیوا آپ کے کیوں تباہی میں پڑیں ہم آپ کے ہوتے ہوئے
آپ فرمادیں تو جہ گر تو بیڑا پار ہے اک سہارا آپ ہی کا بس ہمیں درکار ہے
حضرت صدر مکرم کر چکے ہم عرض حال ہم نے جو کچھ بھی کہا ہے اسکو رکھیئگا خیال
آپکی فرقت کا ہے ہر قلب بہحد ملال اب یہ آخرمیں دعا ہے اے خدا ئے ذوالجال
عا فیت سے اس سفر سے آپکی ہو واپسی جلد ہی پھر ہو قدم بوسی میسر آپ کی
قطعات تاریخ وفات
قطعہ از منشی عبدالغفار شہرتؔ بہرائچی
ستم اے فلق تونے ڈھایا یہ کیسا غبار اپنے دل سے نکالا یہ کب کا
نہ آنا تھا کچھ رحم آیا نہ تجھ کو بنایا ہمیں تیر غم کا نشانا
ہوا چاک چاک اپنا دل فرط غم سے جگر بھی الم سے ہوا پارہ پارا
ہوئی زندگی تلخ ظالم ہماری دیا تونے ہم کو وہ جانکاہ صدمہ
جدا ہوگئے ہم سے نور محمد تجھے اے ستمگر فلک مل گیا کیا
روانہ ہوئے تھے وہ بیت الحرم کو مگر اپنے پاس ان کو حق نے بلایا
الٰہی کدھر طالب دید جائیں نظر آئے گا اب کہاں انکا جلوا
یہ سال وٖفات ان کا ہے عیسوی خدا کا عاشق محمدؐ کا شیدا
1931ء

حوالہ جات

مختصرحالات حضرت مولانا الحاج شاہ نور محمد رسڑاوی ثم بہرائچی از مرتب حکیم عبدالقادیر خان اور محفوظ الرحمن نامی شائع 1931
ختم شدا

تبصرے بند ہیں۔