شاہ نور محمد بہرائچی قسط 1

مولانا شاہ نور محمد نقشبندی ؒ کی پیدائش 1286ھ مطابق 1869ء میں رسڑا ضلع بلیا میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام شیخ کریم اللہ تھا۔ آپ حضرت شیخ الدّلائل علامہ محمد عبد الحق مہاجر مکیؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ آپ ضلع بہرائچ میں ایک روحانی بزرگ تھے اور آج بہرائچ میں آپ کی یادگار کے طور پر ایک بہت بڑا مدرسہ قائم ہے جسکا نام جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم ہے۔ جسے آپ کے فرزند مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ نے قائم کیا تھا۔

تعلیم

آپ کی ابتدائی اردو فارسی کی تعلیم بلیا میں ہی ہوئی۔ تعلیم کا شوق آپ کوبچپن سے تھا۔ اور اسی شوق نے آپ کو ترک وطن پر مجبور کیا اور گھر سے پیدل غازی پور پہنچے، اور وہیں کئی سال تک تحصیل علم میں مصروف رہے۔ ٖغالباََآپ نے عربی کی کتابیں وہیں پڑھی تھی۔ ان دنوں مولانا احمد حسن کانپوری کا حلقہ درس پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔ مولانا نور محمد کے علمی شوق نے غازی پور کو بھی خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا اور وہاں سے کچھ دور پیدل کچھ دور اونٹ گاڑی پر سفر کرتے ہوئے کانپور پہنچے اور عربی کی مکمل تعلیم حاصل کی اور سند فراغت لی۔

ابتدائی حالات

مولانا نور محمد نے اپنے زمانہ تعلیم میں اپنے والد سے ایک پیسہ کی بھی مدد نہ لی۔ چونکہ تبلغ و ہدایت کا ذوق شروع سے تھا۔ وعظ وغیرہ کہنے جاتے جو کوئی حسبتہ للہ امداد کرتا اس سے ضروریات زندگی پوری فرماتے، کتابیں خریدتے تھے بلکہ والدین کی خدمت میں بھی کچھ بھیج دیتے تھے۔ اور کبھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرا لیتے اور اسی میں گذر کرتے۔ ایک زمانہ وہ بھی گزرا کہ محض ایک سیر ستو میں آپ نے دو ماہ تک گزر کیا۔ تعلیم کے حاصل کرنے کے آخری سالوں میں ایک صاحب کے یہاں اس صورت میں ان کے صاحب زادگان کو تعلیم دیتے تھے مستقل طور پر کھانے کا انتظام ہوگیا تھا مگر جو خادمہ کھانا دینے آتی اسمیں سے تقریباََنصف کھانا خود کھا لیتی تھی۔ مولانا نے باوجود اسکا علم رکھتے ہوئے صاحب خانہ سے اسکی شکایت نہ فرمائی۔ اور جب گھر والوں کو اسکی خبر معلوم ہوئی تو مولانا کی اس سیرت سے متاثر ہوئے۔ اسی زمانہ میں مولانا کی عبادت کا یہ حال تھا کہ تہجد کی نماز بہت کم قضا ہوتی تھی۔

تبلیغی خدمات

عربی کی تکمیل کے بعد آپ نے اپنی زندگی مسلمانوں کی تبلغ و ہدایت کے لئے وقف کر دی اور آخری عمر تک آپکا یہی مشغلہ رہا۔ روہانی مدارج طے کرنے کیلئے آپ حضرت مولانا کریم بخش مؤی نقشبندی کے مرید ہوئے۔ کچھ دنوں آپ کی خدمت میں رہ کر فیوض و برکات حاصل کرتے رہے۔ پھر حضرت شیخ الدلائل مولانا عبد الحق مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی، شیخ نے فرمایا کہ ایک بڑے بزرگ کی بیعت کے بعد مجھ سے بیعت کی ضرورت نہیں۔ آپ تعلیم حاصل کریں مولانا متعد سال تک مکہ معظمہ میں حضرت شیخ الدلائل کی خدمت میں رہ کر تصوف کے بلند ترین منازل طے کئے۔ پھر شیخ نے خلافت دیکر ہندوستان آنے کی اجازت فرمائی۔ پھر حضرت شیخ کی حیات میں کئی بار مکہ معظمہ تشریف لے گئے بعض دفعہ خود آپ کی طبیعت اس کے لئے محرک ہوئی اور بعض دفعہ حضرت شیخ نے ایما فرمایا۔ مولانا شاہ نور محمد پر آپ کے شیخ کی خاص طور سے نظر تھی۔ جو لوگ وہاں حاضر ہوتے تھے انہیں معلوم ہوتا تھا کہ شیخ جتنااہتمام مولانا کیلئے کرتے تھے اور کسی کے لئے نہ فرماتے۔ حضرت شیخ نے اپنی جگہ مولانا کیلئے چھوڑی تھی۔ مولانا کا ارادہ تھا کہ بقیہ حیات وہیں رہ کر بسر کرے مگر ماوی دنیا پر روحانی دنیا کی کشش غالب آئی اور مکان کی زیارت کے بجائے عالم ارواح میں خود صاحب مکان سے ملاقات کرنے کیلئے تشریف لیگئے مولانا نے شیخ الدلائل کی ضمیم کتاب تفسیر اکلیل جو 12سال کے عرصہ میں تیار ہوئی تھی اور سات جلد وں میں ہے اسے طبع کرنے کا اہتمام فرمایا اور محض خدا پر توکل کر کے اکلیل (موجودہ وقت میں تاج پریس کے نام سے ہے)کے نام سے ایک پریس قائم کر کے اس کتاب کو طبع کرایا، اسکے بعد مولا نا کی دیگر تصانیف۔ ارشادالحق، تعلیم حقانی، انیس المسافرین، النورالمبین طبع کرائی۔ اور خود اپنے قلم سے شیخ الدلائل کی ایک مختصر سوانح عمری لکھی۔ خلافت ملنے کے بعد مولانا نور محمد ؒ کا اکثر حصہ عمر بہرائچاور اسکے اطراف و جوانب میں بسر ہوا۔ اور جب تک اکلیل نہ طبع ہوئی تھی اس وقت تک تبلغ و ہدایت کے ساتھ ساتھ مطبع کی نگرانی بھی فرماتے تھے۔ اکلیل چھپ جانے کے بعد آپ کی زندگی خدمت دین کے لئے وقف تھی۔ مولانا شہر میں تبلغ کرنے کے ساتھ ساتھ دہات میں بھی تبلغ کرتے تھے اور آپ کی اکثر زندگی غربا اور مساکین کے ساتھ گذری۔ بہرائچ اور اسکے اطراف میں تقریباََ 38سال آپ نے گزارے۔ آپ کی زندگی جس نوع سے بسر ہوئی اس سے آپ کے لئے اہل بہرائچکے دلوں میں آپ کی محبت دن بہ دن بڑھتی گئی۔

تبصرے بند ہیں۔