کشمیر میں کشیدگی

رویش کمار

وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر کے حالات پر کل جماعتی اجلاس میں حصہ لیں گے. راجیہ سبھا میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ 12 اگست کی دوپہر تمام جماعتوں کی ایک میٹنگ بلائی جا رہی ہے. اپوزیشن نے وزیر اعظم پر الزام لگایا تھا کہ ایوان میں کشمیر پر کئی بار بحث ہو چکی لیکن وزیر اعظم نے بیان نہیں دیا مگر مدھیہ پردیش کے جھابوا میں جا کر بیان دیا. کانگریس کے غلام نبی آزاد نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ اور دارالحکومت دہلی سے جھابوا شفٹ ہو گئے ہیں. اس پر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ میں نے کشمیر پر ہر بار بیان دیا ہے. میرا بیان اکیلے کا بیان نہیں ہے. میں جو بھی بولتا ہوں اس میں وزیر اعظم کا بھی احساس ہوتا ہے کیونکہ کشمیر کے مسئلے پر ہم مسلسل بات چیت کرتے رہتے ہیں.

راجیہ سبھا میں کشمیر کے حالات پر کافی کھل کر بحث ہوئی. حکومت نے بھی سب کو سنا اور اپوزیشن نے بھی خوب سنایا، بعد میں حکومت نے بھی سنایا. لیکن یہ سب تکرار کے ماحول میں نہیں، بات چیت کے ماحول میں ہو رہا تھا. پارلیمنٹ نے متفقہ طور سے تجویز پاس کی کہ ایوان کشمیر کے حالات پر فکر مند ہے. قومی سلامتی سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا وہیں دوسری طرف امن بحال کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں. یہ تجویز پاس ہوئی ہے. راج ناتھ سنگھ نے دودھ، چینی، پھل، سبزی کی سپلائی کے اعداد و شمار پیش کرکے  اس نظریے کا خوب مقابلہ کیا جن پر ابھی تک پیلیٹ گن سے زخمی چہرے ہی حاوی تھے.

راج ناتھ سنگھ نے کہا، ”95٪ فوڈگرین کے ڈسٹریبیوشن کا کام ہوا ہے، 34000 کوئنٹل چینی کا ڈسٹریبوشن ہوا ہے، 3 لاکھ 10 ہزار ایل پی جی گیس سلنڈروں کی فروخت ہوئی ہے. وادی میں پھل سبزی کی بھی خرید وفروخت کرفیو میں نرمی دے کر کی جا رہی ہے. صبح ہونے سے پہلے دودھ کی بھی تقسیم ہو رہی ہے. 14 جولائی سے لے کر آج تک ضروری اشیاء لے کر 5600 ٹرک وادی میں پہنچ چکے ہیں. یہی نہیں، پانچ لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج کیا گیا ہے، 8 ہزار چھوٹی بڑی سرجری کی گئی ہے.”

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے 5600 ٹرک کی تعداد تو بتا دی لیکن موجودہ کشیدگی سے پہلے وادی میں پہنچنے والے ٹرکوں کی تعداد کتنی ہوا کرتی تھی؟ یعنی وہ، کشمیر کی بحثوں میں اسٹریٹیجک اور سفارتی پیچیدگی اتنی حاوی ہو جاتی ہے کہ ہم جیسے لوگ گھبرا جاتے ہیں. میری رائے میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے راشن سے لے کر پٹرول تک کی فہرست بنا کر اپوزیشن کے ہاہاکاری احساس کو مات دی ہے. پہلی بار لگا کہ ضروری چیزوں کی فراہمی کی معلومات ہمیں مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو لے کر یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ جب تک سپلائی ٹھیک ہے تب تک بہت چھاتی پیٹنے کی ضرورت نہیں ہے. وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کسی سوال سے پیچھے نہیں ہٹے. انہوں نے کہا کہ پیلیٹ گن کے متبادل کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو دو ماہ میں رائے دے گی. مگر پہلے بھی سیکورٹی فورسز کو اس کے عدم استعمال کی ہدایت دی گئی تھی. یہی وجہ ہے کہ زخمیوں میں سیکورٹی فورسز کی تعداد شہریوں سے زیادہ ہے. 4515 سیکورٹی فورس زخمی ہوئے ہیں اور 3356 شہری زخمی ہوئے ہیں. یہ اعداد و شمار سیکورٹی فورسز کے تحمل کی گواہ ہیں.

اپوزیشن کے رکن پارلیمنٹ کشمیر کشمیر کر رہے تھے، بی جے پی کے رہنما اور وزیر داخلہ نے جموں کشمیر اور لداخ پر خاص طور سے زور دیا. شاید علاقے کی جغرافیائی وسعت کے تناظر میں اس مسئلہ کو پیش کرنے کے پیچھے کوئی خوبصورت اور نئی اسٹریٹیجک سمجھ ہو. کئی دنوں سے وہاٹس ایپ پر بھی اس طرح کے کچھ میسج چل رہے تھے کہ لداخ اور جموں کو شامل کر لیں تو اس وقت جو متاثرہ علاقہ ہے وہ کافی کم ہے. سوشل میڈیا خود کو کافی سنجیدگی سے لیتا ہے مگر وزیر داخلہ کی باتوں سے بھی لگا کہ کشمیر کو لے کر سوشل میڈیا میں چل رہی باتوں کو وہ بہت سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں. سماج وادی پارٹی کے لیڈر رام گوپال یادو نے حکومت سے پوچھا تھا کہ پاکستان کشمیر کشمیر کرتا رہتا ہے، ہم کیوں نہیں پاک مقبوضہ کشمیر کرتے رہتے ہیں. وزیر داخلہ نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان سے کوئی بات نہیں ہوگی. اب جب بھی بات ہوگی پاک مقبوضہ کشمیر پر بات ہوگی. کشمیر پر موٹی موٹی کتابیں لکھنے والے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ حکومت کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے یا ایسا کہا ہی جاتا رہا ہے. کہا جاتا رہا ہے تو آپ نے کب سنا ہے؟

کشمیر پر بحث ہی بحث ہو رہی ہے. موجودہ مسئلہ کے تناظر میں کہا گیا کہ بحث نہیں ہو رہی ہے. اس بحث کا حاصل کیا ہوا ہے؟ جموں اور کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے منگل کو وزیر داخلہ سے ملاقات کی تھی. انہوں نے کہا تھا کہ جیسے واجپئی کے وقت میں بات چیت کا دور چلا تھا، اپنا پن بڑھانے کا، مجھے لگتا ہے کہ ایک بار پھر ویسا ہی کرنے کی ضرورت ہے. ہمیں لوگوں کے زخم بھرنے کی ضرورت ہے. بات چیت کی ضرورت ہے. جموں کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان پل کا کام کر سکتا ہے اگر صحیح طریقے سے بات چیت شروع کی جائے. یہ محبوبہ کا کہنا تھا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔