شکر کیجیے!

 مولانا محمد الیاس گھمن

انسانی زندگی دومختلف حالات سے مر کب ہے۔ خوشی او رغمی۔اسلام دونوںحالات سے متعلق ہماری مکمل راہنمائی کرتاہے۔اگر خوشی ،سکھ اور فراوانی کی نعمت مل جائے توہمارارویَہ کیا ہونا چاہیے؟ اور اگر کبھی بطور آزمائش حالات ناموافق اور ناسازگار ہو جائیں،کسی تکلیف ،دکھ،بیماری اور تنگی کاسامناکرناپڑ جائے تو ہمیں کیاکر ناچاہیے ؟
چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مومن کاحال بھی بہت عجیب ہے اس کی ہر حالت میں بھلائی ہی بھلائی ہے، مزید یہ کہ مومن کے علاوہ یہ بات کسی اور مذہب کے ماننے والے کو نصیب نہیں۔ اگر اسے سہولت،آسانی اور خوشی حاصل ہوتی ہے تو یہ اللہ کاشکر گزار بندہ بن جاتا ہے جو اس کے لیے اجر کے اور فراوانی ِنعمت کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے اور اگر کبھی ناساز گار حالات سے واسطہ پڑجائے تو امر الٰہی پرصابر برضا رہتا ہے جو اس کے لیے اجر اور معیت ِخداوندی کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے۔‘‘
کیاہم نے کبھی اس بات پرغور کیا ہے کہ ہم ہر وقت خدائی نعمتوں کے بار تلے دبے ہوئے ہیں۔ اْس نے اپنی مخلوقات میں سے ہمیں سب کاسردار انسان بنایا، انسانو ں میں سے ہمیں مسلمان بنایا ، اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاامتی بنایا، ہمیں زندگی گزارنے اور آخرت سنو ارنے کیلیے کتاب ِہدایت دی۔ کتاب ِ ہدایت سمجھانے کے لیے ہمارے اندر ہادی ِبرحق صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ،ہمیں صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے مقدس شخصیات نصیب فرمائیں۔ کفر وشر ک سے بچاکر دولتِ اسلام عطاء فرمائی ،رسوم ورواج اور بدعات و خرافات سے ہٹا کرسنت نصیب فرمائی۔عقل پر ستی اور گمراہیو ں سے دور رکھنے کے لیے اولیاء اور مجتہدین نصیب فرمائے۔
کھیتی باڑی ، کاروبار زندگی اور رہائش کے لیے زمین عطاء کی۔ خوراک کے لیے سبزیاں ،پھل فروٹ ،گوشت اورمختلف کھانے پینے کی مختلف انواع و اقسام کی بے شمار چیزیں مہیاکیں۔جسم ڈھانپنے کے لیے اچھا اور عمدہ لباس،سفری ضروریات کے لیے سواریاں،معاشرے میں رہنے کیلیے عزت ،جسمانی اعضاء میں تناسب اور نعمت ِحسن، خوشحال زندگی کیلیے اچھے رفیق اور شریک حیات،آل واولادعطا فرمائے۔آنکھ جیسی نعمت جس سے سارا جہاں حقیقی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے ،دماغ جسے صحیح طور پر کام میں لا کر بڑی سے بڑی کامیابیوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے، زبان جس سے دلی جذبات اور خواہشات کو ادا کیا جا سکتاہے، ہاتھ پاؤں کی سلامتی سے دوسری کی محتاجی ختم فرمائی اور سانس وغیرہ۔
الغرض کثیر اور عظیم نعمتوں میں ہم ہر رو زاپنی صبح و شام کرتے ہیں۔ان کے استعمال کاطریقہ بھی بتلادیاکہ ان عظیم نعمتوں کو غلط طریقے سے استعمال نہ کرنابلکہ صحیح طور پر استعمال کرکے شکر ادا کرو گے تو تمہیں یہ بھی اور دیگر نعمتوں سے مالا مال کردوں گا۔میر ے احسانات ،انعامات اور اعزازات وصول کرکے میری ناشکری اور ناقدری نہ کرنا ورنہ تمہیں اس جرم کی سزا میرے عذاب کی صورت میں اٹھانا پڑے گی۔معاشرے کاالمیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ہر وقت پریشانی کااظہار کر تے ہیں اپنی کم نصیبی ،لاچاری ، محرومئیِ قسمت کا رونا روتے ہیں بلکہ کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کی زبان سے ناشکری کے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جو انتہا ئی مایوس کن ہوتے ہیں۔
جامع التر مذی اور دیگر معتبرکتب ِاحادیث میں اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیمتی اصو ل ارشاد فرمایا ہے :دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں اللہ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیا ر کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کو شش کرے۔دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیا وی امو ر میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر اللہ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر اللہ کا شکر اداکرے تو ایسے شخص کواللہ پاک صابر وشاکر لکھ دیں گے ۔
افسو س صد افسو س کہ ہم اس کے بر عکس زند گی گزار رہے ہیں۔ دنیاوی امور میں اتنے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں مسلسل مصروف عمل ہیں کہ حلال و حرام کافرق بھی ختم کربیٹھے ہیں۔ دولت ،دولت اور دولت کے حصول میں انسانی رشتوں کو بھی یکسر نظرانداز کر بیٹھتے ہیں۔ہماری نظریں کبھی بھی اپنے سے چھو ٹے اور کم درجے کے لو گو ں پر نہیں پڑتیں۔چھوٹے کاروبا ر، چھو ٹے مکانات ، معمو لی غذاؤں سے پیٹ کی دوزخ جلانے والوں کی حالت ِزار ہمیں دیکھنی پڑ بھی جائے تو ہم اسے عبرت کی بجائے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس لیے ہمیں اس انداز سے سو چنے اور غور کرنے کامو قع ہی نہیں مل پاتا کہ ہم خداکاشکر ادا کرسکیں۔خداکے وعدہ پر یقین کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے شکر کرنے کے خوگر بنیں اللہ ظاہری نعمتیں بھی بڑھاویں گے او ر قلبی سکون و راحت بھی نصیب فرمائیں گے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔