بھوپال انکاؤنٹر: قانون و انصاف کی عصمت دری

 ڈاکٹر عابد الرحمٰن

بھوپال انکاؤنٹر؛ قانون و انصاف کی عصمت دری ڈاکٹر عابد الرحمن(چاندور بسوہ) بھوپال میں پولس نے 8، مسلم نوجوانوں کو ہلاک کردیا۔ انکاؤنٹر میں، انکاؤنٹرس کے متعلق فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کتنا حقیقت ہیں اور کتنا فسانہ ، کیونکہ ان میں سب کچھ پولس ہوتی ہے ، ان کا نشانہ پولس ہوتی ہے مظلوم بھی پولس ہوتی ہے فاتح بھی پولس ،ملزم بھی پولس ، انکاؤنٹرس کی تحقیق و تفتیش کی ذمہ دار بھی پولس اور گواہ بھی پولس ۔ اس طرح کے معاملات بھی اکثر و بیشتر رات کی تاریکی میں یا پھر سنسان علاقوں یا جنگلوں میںہی ہوتے ہیں جہاں دور تک کوئی سننے اور دیکھنے والا نہ ہو یا پھر اس طرح ہوتے ہیں کہ اگر دیکھنے والے موجود ہوں تو کچھ سمجھ نہ سکیں اسی لئے ان واقعات کے آزاد ( غیر پولس یا غیر سرکاری)گواہ عموماََ نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو وہ فوری طور پر یا سر عام اپنی زبان نہیں کھولتے ۔ انکاؤنٹرس کے حقائق اس وقت منظر عام پر آ تے ہیںجب’ تفتیشی صحافت‘ اس پر سوالات اٹھاتی ہے یا پھر کوئی آئینہ تمثال افسر پوری دیانتداری ، ایمانداری اور ذمہ داری سے غیر جانبدار تفتیش کر کے اس کی حقانیت کا پتہ لگا تا ہے ۔ مذکورہ انکاؤنٹرمیںہلاک ہوئے ان نوجوانوں پر سیمی کے ممبران ہونے اور دہشت گردی و غیر قانونی حرکات میں ملوث کا الزام تھا ،صرف الزام تھا جو ابھی تک کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا تھا، ان کا مقدمہ جاری تھا اور یہ لوگ کافی عرصہ سے جیل میں تھے اور وہ بھی کسی ایسی ویسی نہیں بلکہ بھوپال کی ہائی سیکیوریٹی جیل میں۔کہا جارہا ہے کہ ان کے معاملہ میں اتنی رازداری برتی جاتی تھی کہ انہیں پیشی کے لئے عدالت بھی نہیں لے جایا جاتا تھا بلکہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ان کی پیشی کروادی جاتی تھی لیکن اچانک یوں ہوا کہ گذشتہ پیر کو دو پہر ان کے انکاؤنٹر کی خبر آئی یہ لوگ اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں جیل سے فرار ہو گئے تھے جنہیں پولس نے دو پہر تک ڈھونڈ نکالا اور ان کی گولی باری کے جواب میں یہ لوگ مارے گئے ۔ بھوپال جیل سے فرار کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے اور اس معاملہ میں تو یہ لوگ ایک گارڈ کو قتل کر کے بھاگے تھے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اسٹیل پلیٹ کے ذریعہ بنائے گئے دھار دار ہتھیار سے اس سپاہی کا گلا ریت کر قتل کیا تھا اور گارڈ بھی بڑی خاموشی سے مر گیا کہ کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوئی اس کے بعد جیل سے نکلنے کے لئے وہ لوگ 30سے32 فٹ اونچی دیوار پھلانگ گئے یہ بھی کسی عجوبہ سے کم نہیں لیکن اس سے بھی بڑا عجوبہ یہ ہے کہ اس وقت جیل کے سی سی ٹی وی کیمرے بند ہوگئے تھے ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھوپال جیل کی دیواروں پر بجلی کے زندہ تار لگے ہوئے ہیں لیکن یہاں ایک اور عجوبہ یہ ہوا کہ فرار کی گڑ بڑ میں بھی ان میں سے کوئی ایک بھی بجلی کے ان تاروں سے نہیں ٹکرایا ۔ یعنی انہوں نے جیل سے جو فرار کیا وہ کسی عجلت اور جلد بازی میں نہیں کیا اور نہ ہی انہیں دیکھ لئے جانے کا کوئی خوف تھا ،یعنی انہوں نے بالکل بے خوف ہوکر فرصت اور بہت آرام کے ساتھ جیل سے فرار کیا اور یہ کسی ہائی سیکیوریٹی جیل میں اور وہ بھی مشہور کر دئے گئے ’خونخوار دہشت گردوں‘ کے لئے کسی طرح ممکن نہیں۔اسی طرح انکاؤنٹر کی جگہ ،حالات ویڈیو اور اس کے متعلق پولس اور ریاست کے وزیر داخلہ کی متضاد بیانی نے بھی اس پر بہت سارے ایسے سوال کھڑے دئے ہیں جو اسے حقیقت سے بہت دور بتاتے ہیںاس معاملہ میں جیل بریک ہی بجائے خود مشکوک ہے اور اسی سے انکاؤنٹر بھی آپ ہی آپ مشکوک ہو جاتا ہے ۔ سارے حالات سے ایسا لگتا ہے کہ پولس نے خودہی ان کو جیل سے باہر نکالا اور ہلاک کردیا اور اسے انکاؤنٹر کا روپ دے دیا ۔ اس کی وجہ کیا ہو گی یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ان مقتولین کی پیروی کر نے والے وکیل صاحب کا کہنا ہے کہ ان کا مقدمہ آخری مراحل میں تھااور جلد ہی ان کے حق میں فیصل ہونے والا تھا کیونکہ ان کے خلاف کوئی خاص ثبوت نہیں تھا اور شاید اسی وجہ سے ان بے چاروں کو مار دیا گیا ۔ مدھیہ پردیش میں جیل بریک کا ایک اور واقعہ 2013 میں ہوا تھا کھنڈوا جیل میں۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ جو لوگ کھنڈوا جیل توڑ کر بھاگے تھے ان کے خلاف کیس کمزور تھا لیکن جیل توڑ نے کی وجہ سے انکے خلاف پولس کا کیس مضبوط ہوگیا۔تو کیا یہ جیل بریک اپنے کیسس مضبوط کر نے کا بہانہ تو نہیںہیں؟ اس کی مکمل جانچ ہونی چاہئے ۔ مذکورہ کیس میںبھوپال جیل بریک کی تحقیقات این آئی اے کے سپرد کی گئی ہے لیکن صاحب کیا این آئی اے قابل بھروسہ رہ گئی ہے؟ مودی سرکار آنے کے بعد سے اس نے مالیگاؤں کے2006 اور 2008 بلاسٹ کیسس میں جس طرح متضاد بیانی کی اور یو ٹرن لیا تھا اس نے اس کی غیر جانبداری کو مشکوک کردیا ہے ایسے میں جیل بریک میں وہ حقائق کو پوری ذمہ داری ،دیانتداری اور غیر جانبداری سے منظر عام پر لائے گی اس کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح انکاؤنٹر کی جانچ کے لئے عدالتی انکوائری کا اعلان کیا گیا ہے ۔ان دونوں معاملات کی جانچ سپریم کورٹ کے ذریعہ کی جانی چاہئے ۔ اس سے پہلے تلنگانہ میں بھی اسی طرح کا انکاؤنٹر ہوا تھا جس میںپولس نے پانچ ملزمین کو ہلاک کردیا تھا جنہیں خود پولس اپنی ہی وین میں عدالت لے جارہی تھی اس وقت بھی یہ بات میڈیا میں آئی تھی کہ ان کے خلاف کیس کمزور تھا اور عین ممکن تھا کہ وہ عدالت سے بری ہوجاتے اور اسی کیس میں ملزم بنائے گئے ان کے دیگر تین ساتھی واقع بری ہوئے بھی جنہیں حیدرآباد کی ایک عدالت نے باعزت بری کردیا( انڈین ایکسپریس آن لائن 15،ستمبر 2016 ) یعنی اگران کا انکاؤنٹر نہیں ہوتا تو وہ بھی بری کردئے جاتے ۔ ویسے بھی ملک میں اب تک دہشت گردی کے نام مسلمانوں کے خلاف جتنی بھی گرما گرم اور سنسنی خیز کارروائیاں ہوئیں وہ زیادہ تر جعلی ثابت ہوئیںچاہے وہ گرفتاریاں ہوں یا انکاؤنٹر س۔جتنے بھی مسلمان عام و خاص اور’ خطرناک دہشت گرد‘ کہہ کر گرفتار کئے گئے ان میں سے زیادہ تر عدلیہ کے ذریعہ بری ہو گئے ۔ہو سکتا ہے ان قیدیوں کا مقدمہ بھی کمزور ہو اور پولس سمجھ گئی ہو کہ یہ بھی عدلیہ کے ذریعہ بری کر دئے جائیں گے ہو سکتا ہے پولس نے اس معاملہ میں بھی اپنی غیر پیشہ وارانہ من مانی کار کردگی اور تعصب کی پول کھلنے کی شر مندگی سے بچنے کے لئے ان لوگوں کو قتل کردیا ہو ۔ جو کچھ بھی ہو سپریم کورٹ کی نگرانی میں کسی خصوصی ٹیم کے ذریعہ اس معاملہ کی غیر جانبدارانہ اور ذمہ دارانہ جانچ کروائی جانی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیا جا سکے ۔ انکاؤنٹرس کے متعلق ہم ہندوستانیوں کی اکثریت بہت جذباتی واقع ہوئی ہے جو فوراََ پولس کے دفاع میں آ جاتی ہے خاص طور سے اگر انکاؤنٹر میں مسلمانوں کا قتل کیا جائے تو ایسی صورت میں عوام تو اسے جعلی سمجھتی ہی نہیں اور اس کے لئے انصاف کے لئے بہت کم آواز اٹھائی جاتی ہے ، اس کے علاوہ اب سلامتی اہلکاروں کے کئے پر سوال اٹھانے کو’ دیش دروہ‘ کہہ کر حالات ہمارے لئے مزید پیچیدہ کردئے گئے ہیں اور اگر اس طرح کے معاملات میں کوئی سلامتی اہلکار ’شہید‘ ہوجائے تو پھر تو بات ہی ختم۔ مذکورہ واقعہ میں بھی مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے سوال اٹھانے والوں کو جیل گارڈ کی ’شہادت‘ یاددلائی اور سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انکاؤنٹر میں مارے گئے افراد جو ملزمین تھے کو ’خطرناک دہشت گرد‘ کہہ ڈالا جبکہ ابھی انکا جرم ثابت نہیں ہوا تھا اور قانونی طور پر انہیں ان کے جرم کے حوالے سے نہیں پکارا جاسکتا۔ دراصل ان معاملات کے ذریعہ سرکاریںاور سیاسی پارٹیاںہندو مسلم پولرائزیشن کی سیاست کرتی ہیں اور یہی کچھ پارٹیوں کی کامیابی کا راز بھی ہے اور اسی نے یہ معاملہ ہمارے لئے مزید پیچیدہ کردیا ہے اس طرح کے معاملات میں مسلمانوں میں جتنا غصہ اور جوش نظر آ ئیگا جتنے جذباتی بیانات آئیں گے ان پارٹیوں کو اتنا ہی فائدہ ہوگا لہٰذا اس طرح کے معاملات میں ہمیں ان سب چیزوں سے بچتے ہوئے قانونی طریقہ کے ذریعہ اس کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھنا چاہئے ویسے بھی وطن عزیز میں عدلیہ کے سوا کوئی بھی ہمارے لئے قابل بھروسہ نہیں رہا اور عدلیہ میں بھی اعلی عدالتوں سے ہی ہمیں انصاف ملا ہے وطن عزیز میں پولس انکاؤنٹرس نئے نہیں ہیں بلکہ جعلی انکاؤنٹرس کے معاملہ میں تو ہم کافی ترقی یافتہ ہیں۔ جولائی2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 سے2013 کے دوران ملک میں کل پانچ سو پچپن (555)جعلی انکاؤنٹرس کے مقدمات درج ہوئے ، اور یہ مقدمات بھی پولس نے خود درج نہیں کئے بلکہ انفرادی قانونی چارہ جوئی اورقومی حقوق انسانی کمیشن کی مداخلت سے درج ہو پا ئے وگرنہ پولس تو ہر معاملہ میں بہادری کے طمغہ کی خواہاں ہو تی ہے اور اس طرح کے معاملات پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔جن معاملات میں قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے انہی میں عدلیہ کی مداخلت سے بات تحقیق اور تفتیش تک پہنچتی ہے اور کئی سالوں کے لمبے عرصہ بعد انکاؤنٹر کی سچائی منظر عام پر آ پاتی ہے اس معاملہ میں بھی ہمیںشور شرابہ کرنے ریلیاں اور احتجاجی جلوس نکالنے اور کانفرنسیں کرنے اور حکومت اور پولس یا قانون نافذ کر نے والے اداروں پر بھروسہ کر نے کی بجائے متحد ہوکر سپریم کورٹ تک قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے تاکہ انصاف کی عصمت دری پر روک لگائی جاسکے۔ (جمعہ 4،نومبر2016)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔