صارفیت، کاروباریت، منقلب اخلاقی اقدار اور بے سمت انسانی معاشرہ

اے رحمان

بہت کم لوگ اس بات کا ادراک اور سمجھ رکھتے ہیں کہ اخلاقیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جس نے انسانی معاشرے اور طرزِ زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کاروبارِ دنیا چلانے والی دو اہم ترین قوتیں، قانون اور مذہب، اخلاقیات سے ہی مشتق اور ماخوذ ہیں۔ نیکی، بھلائی، انفرادی اور معاشرتی فرائض اور انصاف کا تصوّر  ان اخلاقی اقدار کی دین ہیں جنہیں قوانین ِ قدرت (Law of nature )  کی روشنی اور رہنمائی میں وضع کیا گیا۔ ذی شعور ہوتے ہی انسان نے بعض چیزوں کو اچھا اور بعض کو برا سمجھنا شروع کیا اور اس اچھے اور برے کے تصور نے اخلاقیات کو جنم دیا۔ جن چیزوں کو برا سمجھا گیا ان کے تدارک کے لیے قوانین وضع کیے گئے او رمذاہب نے ان کو ممنوع یا حرام قرار دیا۔ اسی طرح اچھی چیزوں اور اچھے اعمال کی جانب رغبت دلانے کے لیے طرح طرح کے طریقے اختیار کیے گئے۔ مذہب سے قطع نظر انسانی معاشرے کے کچھ ایسے اصول و ضوابط ہیں جن کو آفاقی قبولیت  اور حمایت حاصل ہے۔

 مذہب اور قانون کے مابین جو بنیادی فرق ہے اس کا تعین اخلاقی اقدار ہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ جو فعل قانونی اعتبار سے قابل ِ قبول ہو یعنی غیر قانونی نہ ہو اخلاقیات بھی اسے جائز سمجھے، اسی طرح ہر اخلاقی تقاضے کو قانون کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ چوری ہر مذہب میں ممنوع اور حرام ہے، نیز دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں جو چوری کو جرم قرار دے کر چور کو سزا نہ دیتا ہو۔ معاشرتی رویوں اور تعلقات کے کچھ ایسے پہلو ہیں جن کی اچھائی اور برائی آفاقی طو رپر مسلم ہے۔ پوری دنیا اس بات پر اتفاق رکھتی ہے کہ گالی دینا بری بات او رمعاشرتی طو رپر ناپسندیدہ فعل ہے لیکن گالی دینا قانوناً جرم نہیں۔

اسی طرح مہمان نوازی کو ایک اچھا معاشرتی رویہ تسلیم کیا جاتا ہے حالانکہ کوئی قانون آپ کو مجبور نہیں کر سکتا کہ آپ اپنے گھر آنے والے تعلیم کی تعظیم و تکریم کریں اور اس کی خاطر و مدارات پر اپنا وقت اور پیسہ خرچ کریں۔ لیکن جن چیزوں اور افعال کو ایک صحت مند معاشرے اور انسانو ں کے باہمی تعلقات کے لیے ضروری  یا ضرر رساں سمجھا گیا  ان کے اطلاق یا تدارک  کے لیے قانون بنائے گئے حالانکہ وہاں بھی مذہب اور قانون کا تصادم نظر آیا۔ اسلام شراب کو حرام اور امّ الخبایث قرار دیتا ہے لیکن قانون بنا کر اسے ممنوع قرار دینے کی کوشش دنیا بھر میں پوری طرح ناکام رہی سوائے دو چار اسلامی ممالک کے، اور وہاں بھی لوگ چھپ  چھپا کرشراب پی ہی لیتے ہیں، اور اس سے مذہب اور قانون کا ہی نہیں انفرادی اور اجتماعی یعنی معاشرتی اخلاقیات کا فرق سامنے آتا ہے۔ کیونکہ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو کسی مذہب کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی رائے میں شراب کو ضرر رساں سمجھ کر اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا تہذیبِ انسانی کی تاریخ مظہر ہے کہ اخلاقیات کا ارتقا سب سے پہلے ہوا اور اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ علم الانسان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تہذیب کے اس دور میں جب انسان قوتِ لایموت کے لیے خود رو پودے اور گرے پڑے پھل جمع کرتا تھا اور چھوٹے موٹے جانور اور پرندے شکار کرنا سیکھ گیا تھا (انگریزی میں اسےHunter Gatherer Stage کہتے ہیں ) تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی زیادہ طاقتور شخص دوسرے کمزور شخص کا مارا ہوا شکار جھپٹ لیتا تھا یا اس کے ذریعے جمع کیے گئے پھل پھول وغیرہ زبردستی ناجائز طریقے سے ہتھیا لیتا تھا۔ اس چیز کو نا مناسب سمجھتے ہوئے گروہ کے چند افراد نے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کی جس کے نتیجے کے طور پر آہستہ آہستہ ایک ’ گروہی اخلاقیات‘ وجود میں آئی اور کسی دوسرے کا محنت سے جمع یا شکار کیا ہوا کھانا اسی شخص کی ملکیت سمجھا جانے لگا اور محض قوت کے زور پر اس سے اس کی ملکیت کو چھیننے کا فعل ’برا ‘کہا اور سمجھا گیا۔

 اچھائی برائی یا اچھے برے فعل کا یہ بنیادی تصور تھا جس سے انسان آشنا ہوا۔ جیسے جیسے تہذیب کا ارتقا ہوا مختلف افعال و اعمال پر اس تصور کا اطلاق ہونے لگا اور ’ اچھے ‘ فعل سے خوشی اور فائدہ اور’ برے‘ یا ناپسندیدہ فعل سے ’ نقصان‘ کا تصو رآیا۔ اسی تصوّر نے انسان کو  اس اعلیٰ جذبے اور احساس سے متصّف کیا جسے ’’ضمیر‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے معاشرتی احساس کو اجتماعی ضمیر۔ علم و فن کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوا اور ہر شعبے اور میدان میں اس کی کارگزاریوں پر اچھے برے کی مہر لگتی رہی۔ یہاں تک کہ قوانین کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔

قانون دراصل ایسے اوامر و نواہی کے مجموعے کا نام ہے جس کے نفاذ کے پس پشت پورے معاشرے کی اجتماعی مرضی اور قوت کا ر فرما ہو۔ دنیا وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور الگ الگ مقامات پر الگ الگ معاشرے قائم ہوتے چلے گئے جہاں اچھائی اور برائی کے اصول اور پیمانے بھی جداجدا تھے۔ ایک فعل جو ایک معاشرے میں اچھا اور قابل تعریف تھا وہ دوسرے کسی معاشرے میں نہایت قبیح اور ملعون ہونے لگا اور یہیں سے اخلاقیات بعض سنگین مسائل سے دو چار ہوئی۔ مذاہب نے نمودار ہو کر اختلافات کی اس پیچیدگی کو اور زیادہ پیچیدہ کر دیا۔ مذہب کی بنیاد کیونکہ ذاتی عقیدے پر ہے جس کے مقابلے میں انسان دنیا بھر کے قوانین کو ہیچ گردانتا ہے اس لیے اب مذہب اور اخلاقیات کے تصادم سے نئے مسائل پیدا ہو گئے۔ لیکن سب سے زیادہ مشکل پیش آئی قانون سازی میں۔ ایک مخصوص مذہب کی پیروی کرنے والوں پر ایسے کسی قانون کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا جو ان کے مذہب کے کسی اصول یا اصولوں کی نفی کرتا ہو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کے نام پر انسانی معاشرے میں جتنا افتراق ہوا اتنا کسی اور وجہ سے نہیں ہوا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ رہی کہ سائنس کی ترقّی کے ساتھ ساتھ انسانی فکر میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں لیکن سائنس نے کائنات اور مظاہر قدرت کی جو تشریح کی وہ مذہب سے متصادم ہوئی۔ کوئی بھی مذہب اپنے بنیادی عقائد کی نفی برداشت نہیں کرتا لہذٰا اس تصادم نے کئی سو سال تک یوروپ میں خصوصاً ایسی شورش بپا رکھی جو کئی جنگوں اور شدید معاشرتی بحران کا سبب بنی۔ اس پورے عرصے کو خود یوروپین مورّخ ’’دور ِ تاریک‘  (Dark ages ) کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے مشہور سائنسداں جان ولیم ڈریپر نے اسی صورت ِ حال پر اپنا’ نظریۂ تصادم ‘ قائم کیا اور 1874  میں شائع ہوئی اس کی کتاب ’’ تاریخ ِ تصادم بین مذہب و سائنس ‘‘ (History of The Conflict between Religion & Science ) نے تہلکہ مچا دیا اور ایک ایسے دانشورانہ انقلاب کی داغ بیل ڈالی جس نے آخرش کٹّر اور متعصّب کیتھولک عیسایٔت کے معاشرتی تفوّق اور گرفت کی بیخ کنی کی۔

بیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے مثال اور تیز رفتار ترقّی کی چکا چوندھ نے کچھ عرصے کے واسطے تو پورے عالمی معاشرے کو ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیا۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ نے تمام حدود و  فاصلے  مٹا دیئے اور عالمیت (Globalization ) کا ڈھول پیٹا جانے لگا۔ جغرافیائی، قومی اور ثقافتی شناختیں ختم ہونے لگیں  اور اب ہر دن ایک معاشرتی انقلاب تھا۔ سامان ِ تعّیش کی افراط نے صارفیت کو جنم دیا جس نے عوام الناس کو ایسی ہوس ِ زر میں مبتلا کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ بڑے چھوٹے صنعت کاروں اور تاجروں نے صارفیت کی وبا کو خوب پروان چڑھایا  اور ’’کارو باریت ‘‘ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہو گئی۔ ہوس کوئی اور کیسی بھی ہو قابو سے باہر ہو جائے تو اخلاقیات اور مذہب کی تمام حدود سے نکل کر جرم و گناہ کی مملکت میں داخل ہو جاتی ہے۔ لہذٰا وہی ہوا۔ نئے نئے جرائم، سکینڈل اور اکتساب ِ زر کے غیر فطری طریقے ایجاد ہو گئے۔ روایتی اخلاقیات کو پرانا اور ’فرسودہ‘ کہہ کر متروک قرار د ے دیا گیا اور ایک نئی اخلاقیات ظہور میں آئی جو پورے طور پر ’لے اور دے‘ کے اصول پر مبنی تھی اور جس نے انسانی رشتوں پربھی کاروباری ملمّع چڑھا دیا۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ قوانین معاشرے کے کردار اور رجحانات کے تابع ہوتے ہیں۔ کیونکہ آزادیٔ نسواں اور آزادیٔ فلاں کے ناقوس تو عرصے سے پھونکے جا ہی رہے تھے اب آزادیٔ طرز ِ حیات کی دہائی دے کر ’پرانی‘ اور متروک اخلاقیات پر مبنی قوانین کے خلاف باقاعدہ بغاوت کا اعلان ہو گیا۔ دنیا میں تو ہزاروں مثالیں ہیں، وطن ِ عزیز کی بات کی جائے تو یہاں بھی ’’خلاف ِ وضع ِ فطری‘‘ جنسی اختلاط کے خلاف تعزیری قانون کو کالعدم قرار دے کر ہم جنسیت کی اس طور حمایت اور تشہیر کی گئی گویا وہ کوئی قابل ِ فخر انسانی وصف یا عمل ہو۔ Adultery  ( کسی شادی شدہ عورت سے اس کے خاوند کی لاعلمی میں جسمانی تعلقّات) اب جرم نہیں رہا بلکہ عدالت ِ عظمیٰ نے اسے یہ کہہ کر روا قرار دیا کہ ’’عورت خاوند کی جائداد نہیں ہے۔ اپنی زندگی کے ساتھ جو چاہے کرے‘‘۔ لیجیئے ہو گیا ’صنفی انصاف‘۔ ( پرانی اخلاقیات نہ جانے کہاں سر پھوڑ رہی ہو گی) مرد و زن اب مادر پدر آزاد ہیں لہذٰا شادی جیسے احمقانہ رواج اور ’بندھن‘ کی ضرورت کیا ہے۔ ’live in relationship ‘ کو راہ دے کر اس کے تحفظ کے لئے قوانین اور اصول مرتّب کر دئے گئے۔ قصّہ مختصر یہ کہ ’ضمیر‘ اور اخلاقی اقدار اب قطعی بے معنی الفاظ ہیں۔

البرٹ کامو نے کہا تھا ’’ اخلاقیات سے عاری شخص ایک ایسے وحشی جانور کی مانند ہے جسے ہشکار کر متمدّن دنیا پہ چھوڑ دیا گیا ہو‘‘۔  کتنے وحشی جانور چاروں طرف کھلے پھر رہے ہیں اندازہ کرنا مشکل ہے، یہ اندازہ کرنا اور بھی مشکل ہے کہ اخلاقی اقدار (روایتی  یا جدید) سے عاری معاشرتی آزادی اور آزاد روی کا یہ گھوڑا کس سمت میں دوڑ رہا ہے اور کہاں جا کر تھمے گا کیونکہ نہ تو اس کی رکاب میں کسی کا پیر ہے نہ کسی کے ہاتھ میں اس کی باگ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔