کون جانے کہاں، کب، کدھر جائیں گے
عمران عالم
کون جانے کہاں کب کدھر جائیں گے
ہم بھی دریا میں اک دن اتر جائیں گے
…
پھول رکھے ہیں میں نے ہر اک موڑ پر
جس طرف سے بھی آؤ بکھر جائیں گے
…
چیختے ہیں جو راگِ وطن پر یہاں
سرحدوں پر بھی کیا وہ نڈر جائیں گے؟
…
زیر سایہ درختوں کے کب تک رہیں
دھوپ سہتے ہوئے یہ تو مر جائیں گے
…
خوں کی سرخی سفیدی پہ مائل ہوئی
سرخ آنکھوں سے دل سب سنور جائیں گے؟
…
کچھ صلہ بھی تو مشق سخن کا ملے
شعر یونہی مرے کیا نکھر جائیں گے
…
رات گہری ہوئی بات سمٹی نہیں
اب تو عالم چلو ہم بھی گھر جائیں گے
تبصرے بند ہیں۔