کون جانے کہاں، کب، کدھر جائیں گے

عمران عالم

کون جانے کہاں کب کدھر جائیں گے

ہم بھی دریا میں اک دن اتر جائیں گے

پھول رکھے ہیں میں نے ہر اک موڑ پر

جس طرف سے بھی آؤ بکھر جائیں گے

چیختے ہیں جو راگِ وطن پر یہاں

سرحدوں پر بھی کیا وہ نڈر جائیں گے؟

زیر سایہ درختوں کے کب تک رہیں

دھوپ سہتے ہوئے یہ تو مر جائیں گے

خوں کی سرخی سفیدی پہ مائل ہوئی

سرخ آنکھوں سے دل سب سنور جائیں گے؟

کچھ صلہ بھی تو مشق سخن کا ملے

شعر یونہی مرے کیا نکھر جائیں گے

رات گہری ہوئی بات سمٹی نہیں

اب تو عالم چلو ہم بھی گھر جائیں گے

تبصرے بند ہیں۔