عمران خان کس کے اشاروں پر چل رہے ہیں؟

حفیظ نعمانی

ہندوستان کے گھر میں گھس کر سی آر پی ایف کے جوانوں کی گاڑی کو جس طرح اُڑایا گیا وہ اتنا دردناک حادثہ ہے جس نے پوری ہندوستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہندوستان کی حکومت کا شوق نہیں ہے کہ وہ ہر حادثہ کی ذمہ داری اظہر مسعود یا حافظ سعید پر ڈالے حکومت کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اس حادثہ کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی ہے۔ ملک میں حادثہ کا ہونا اور ذمہ داری قبول کرنا یا یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ابھی تک کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے یہ بار بار کی سنی ہوئی کہانی ہے۔

ہم نے اور ہمارا خیال ہے کہ ہم جیسے کسی نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی ہوگی کہ جرم کا اعتراف رجسٹرڈ طریقہ سے اور حلفیہ بیان کے ساتھ آیا ہے یا کسی نے اپنی شان دکھانے کیلئے اپنے گلے میں ہار ڈال لیا ہے؟ ہوا جو بھی ہو ایک پڑوسی کی حیثیت سے پاکستان کے وزیراعظم کو اتنے دردناک حادثہ پر ہندوستان سے تعزیت کرنا چاہئے تھی۔ پڑوسی تو ہندوستان کے لنکا اور نیپال بھی ہیں لیکن ہندوستان اور پاکستان قریبی رشتہ دار ہیں اور یہ رشتہ داری یہ ہے کہ پاکستان کے حق میں جتنے ووٹ انہوں نے دیئے تھے جو ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے اتنے ان کے نہیں تھے جنہوں نے ہندوستان چھوڑ دیا اور نہ انہوں نے دیئے جو پہلے سے ان علاقوں میں رہتے تھے۔ اگر یقین نہ ہو تو ہر جگہ ریکارڈ رکھا ہوگا 1946 ء کے الیکشن کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیا جائے۔

ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ جب ہندوستان کہہ رہا ہے کہ ہم کو جیش محمد کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یہ کام ہم نے کیا ہے تو عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے خفیہ ذرائع سے یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اس حادثہ کا ذمہ دار کون ہے۔ اور یہ تو ان کو یاد ہوگا اظہر مسعود پرانا دہشت گرد ہے جو ہندوستان کی جیل میں بند تھا اور جسے آزاد کرانے کیلئے اس کے ساتھیوں نے ایئرانڈیا کے ایک ہوائی جہاز کا اغوا کیا تھا جس میں 82  مسافر تھے۔ اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ یا تو اظہر مسعود کو ہمارے حوالے کرو ورنہ ہر ایک گھنٹہ کے بعد ایک مسافر کو لاش میں تبدیل کردیا جائے گا اور آخری کام یہ ہوگا کہ ہوائی جہاز کو جلا دیا جائے گا۔ اتفاق سے اس وقت اٹل بہاری باجپئی وزیراعظم تھے اور اس وقت بھی ہر پارٹی اور ہر ہندوستانی نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ معصوم مسافروں کی جان بچانے کیلئے اس پاپی کو رہا کردیا جائے۔

جس کسی نے 2012 ء کی لکھی ہوئی عمران خان کی کتاب میں اور میرا پاکستان پڑھی ہے وہ برسراقتدار عمران خان کو دیکھ کر ہماری طرح ہی حیران ہورہا ہوگا جس نے شوکت خانم کینسر اسپتال بنانے کے وقت ہر کسی سے مورچہ لیا اور گھٹنے نہیں ٹیکے آج ان کی سابق بیگم ریحام خان ان کے بارے میں کہہ رہی ہیں کہ وہ ہندوستان کو جواب دینے کے لئے ہدایات کا انتظار کررہے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ منگل کے دن کا ان کا بیان بہت ہی نپا تلا تھا وہ وہی بولے جو اُن سے بولنے کے لئے کہا گیا تھا۔ مسز ریحام خان نے کہا کہ- میں دیکھ رہی ہوں کہ عمران خان موضوعات سے بچ رہے ہیں۔ ہم اتنے اندر کی بات تو نہیں جانتے لیکن وہ یہ کہہ کر آئے ہیں کہ وہ چاہے چار لڑکوں کے ساتھ کھیلیں لیکن اپنی خصوصیات کے ساتھ کھیلیں گے۔ لیکن کل ہم حیران رہ گئے جب وہ کہہ رہے تھے کہ اگر وقت پڑا تو جواب تو بہرحال دیا جائے گا ان کی بغل میں ایک جمورے ٹائپ کے وزیر بیٹھے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر کسی نے پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو آنکھ نکال لی جائے گی۔

ہر بڑے آدمی کے ساتھ ابوالخیر لگے ہوتے ہیں عمران خان کی اس زندگی میں جو معرکوں سے بھری ہوئی تھی ایک بشیر میاں تھے جو اُن کو صحیح مشورہ دیتے تھے اور وہ آنکھ بند کرکے عمل کرتے تھے اور کامیاب ہوتے تھے ہم نہیں جانتے کہ آج بھی بشیر میاں ہی ہیں یا اس منصب پر کوئی اور آگیا لیکن جس پاکستان نے ایوب خان کا انجام دیکھا ہو ذوالفقار علی بھٹو کو شملہ میں مسز اندرا گاندھی سے اپنے بہادر بندوں کو واپس کرنے کی بھیک مانگتا دیکھا ہو اور جس نے 1971 ء میں جنرل نیازی کو جگ جیت سنگھ اروڑا کے سامنے ریوالور نکال کر غلاموں کی طرح پیش کرتا دیکھا ہو کیا وہ کسی کی آنکھیں نکالنے کی بات کرسکتا ہے؟

ہندوستان اگر پاکستان پر بم برسائے تو مرنے والوں کے غم میں دو چار ہندو ہوں تو ہوں لیکن ہندوستان میں رہنے والے مسلمان اتنے آنسو بہائیں گے کہ تالاب بن جائے گا اور اگر پاکستان ہندوستان پر بم برسائے گا تب بھی رونے والے پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ مسلمان ہوں گے۔ ہم نے یہ بات نہ ایوب خاں سے کہی نہ بھٹو سے نہ ضیاء الحق سے اور نہ بے نظیر سے لیکن عمران خان سے کہنے کو جی چاہ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے کھیل کے زمانہ میں بار بار ہندوستان آئے ہیں اور جتنا اُن کو ہندوستانی مسلمانوں نے پیار دیا ہے اتنا سندھ اور بلوچستان کے مسلمانوں نے بھی نہیں دیا ہوگا۔ ان کو اگر آنکھ نیچی کرکے بات کرنا پڑے تو ہندوستانی مسلمانوں کا پاکستان پر اتنا ہی حق ہے کہ ان کی خاطر اپنی آنکھ نیچی کرلی جائے۔ وہ جو آنکھ نکلوا رہے تھے وہی بکواس کررہے تھے کہ ہندوستان کے مندروں میں گھنٹی بجنا بند کرادیں گے۔ ان سے کہہ دیا جائے کہ پاکستان کے بانیوں میں سے ایک سردار عبدالرب نشر نے کہہ دیا تھا کہ اگر تین کروڑ مسلمان مندر میں گھنٹہ بجائیں گے تو کیا ہوا ہم نے چھ کروڑ کا ایمان بچا لیا۔ یہ بات جو آج سامنے آئی ہے اس کا پاکستان بناتے وقت تصور بھی نہیں تھا کہ تقسیم کے بعد بھی پاکستان کی گردن ہندوستان کے ہاتھ میں رہے گی۔ ہندوستان نے پاکستان کے سامان کی ڈیوٹی میں دو سو روپئے کا اضافہ کردیا ہے پاکستان کے ٹرک رُکے کھڑے ہیں اور اندر سب رو رہے ہیں۔ اور اگر وہ کردیا کہ پانی روک دیا تو کیا ایک اور کربلا نہیں ہوجائے گی؟ جب اپنی گردن اتنی کمزور ہو تو گھر میں غنڈے نہیں پالنے چاہئیں اور جو مسئلے پیدا کریں ان کو بند کردینا چاہئے بکرے کو ہاتھی سے لڑانا اپنا مذاق بنوانا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔