طوفان سے التماس کی عادت نہیں مجھے
جمال کاکویؔ
ہر گز غمیںحیات سے وحشت نہیں مجھے
ساقی تیرے شراب کی حاجت نہیں مجھے
…
مالک کا لاکھ شکر ہے گدڑی میں مست ہوں
مال ومتاع کی کوئی ضرورت نہیں مجھے
…
دو دن کی زند گی تو کوئی زندگی نہیں
دنیائے بے ثبات کی چاہت نہیں مجھے
…
بے زار بار جو دکھا میں نے بھی کہ دیا
مرتا نہیں ہوں تجھ سے محبت نہیں مجھے
…
شمع کا اشک شمع بھی ہے لمحئے حیات
پر نور زندگی سے شکایت نہیں مجھے
…
موجوں سے کھیلتا رہا ساحل سے دور دور
طوفان سے التماس کی عادت نہیں مجھے
…
غربت میں بھی وطن میں ہوں فرقت میں بھی وصال
تنہا ئیاں تو و جہ اذیت نہیں مجھے
…
لگتا ہے چار چاند بنائو سنگار سے
آئینے جمال سے قربت نہیں مجھے
تبصرے بند ہیں۔