طوفان سے التماس کی عادت نہیں مجھے

جمال کاکویؔ

ہر گز غمیںحیات سے وحشت نہیں مجھے

ساقی تیرے شراب کی حاجت نہیں مجھے

مالک کا لاکھ شکر ہے گدڑی میں مست ہوں

   مال ومتاع کی کوئی ضرورت نہیں مجھے

 دو دن کی زند گی تو کوئی زندگی نہیں

دنیائے بے ثبات کی چاہت نہیں مجھے

بے زار بار جو دکھا میں نے بھی کہ دیا

مرتا نہیں ہوں  تجھ سے محبت نہیں مجھے

شمع کا اشک شمع بھی ہے لمحئے حیات

پر نور زندگی سے شکایت نہیں مجھے

موجوں سے کھیلتا رہا ساحل سے دور دور

طوفان سے التماس کی عادت نہیں مجھے

غربت میں بھی وطن میں ہوں فرقت میں بھی وصال

تنہا ئیاں تو و جہ اذیت نہیں مجھے

لگتا ہے چار چاند بنائو سنگار سے

  آئینے جمال سے قربت نہیں مجھے

تبصرے بند ہیں۔