عدلیہ پر اعتماد کھونا جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ

 جاویدجمال الدین

ملک میں عام طور پر کسی معاملے میں قانونی تنازع پر دونوں فریقین ایک دوسرے سے کہتے ہیں، عدالت میں دیکھ لیں گے،یعنی عدلیہ پرایک بھروسہ اور یقین رہتاہے، مذکورہ اعتماد کو ٹھیس گزشتہ سات سال میں ہیں چکی ہے،کیونکہ اس عرصے میں عدالتوں کے ذریعے متعدد فیصلے اس قسم کے آئے ہیں کہ ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے،کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تشویش صرف ایک عام آدمی کانہیں ہے بلکہ عدلیہ کی کسمپرسی اور زبوں حالی کااحساس سبھی کوہے اور دردعدلیہ کے عہدیداران کوبھی ہے۔

کیونکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے اپنی سبکدوشی کے موقعہ پر منعقدہ الوداعی تقریب میں جوخطبہ دیا ہےاُس  سے اُن کا  دردچھلکتا نظرآتا ہے، ہندوستانی عدلیہ کی تعریف یا فیصلہ کسی ایک حکم یافیصلے سے نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے فرمایا کہ ہندوستانی عدلیہ جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاپذیر ہے، بہت سے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ زیر التواء مقدمات کو مٹانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوۓ نظام کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔جسٹس رمناکاخیال ہے کہ عدالتی نظام کے سربراہ بھی عام آدمی کو فوری اور کم خرچ والا انصاف دینے کے عمل میں بحث اور تبادلہ خیال کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور وہ ادارہ کی ترقی میں تعاون دینے والے پہلے یا آخری نہیں ہوں گے۔  لوگ آئیں گے اور جائیں گے لیکن ادارہ ہمیشہ کے لیے بنارہتا ہے۔

 جسٹس رمنانے یہ باتیں اپنی سبکدوشی والے دن کہیں اور ادارے کے بھروسہ کی حفاظت کرنے پر زوردیا ، جولوگوں اور سماج سے احترام پانے کے لیے کافی اہم ہے۔ کوڈ -19 وبا کے درمیان عدالتوں کی کارروائیوں پر انھوں نے کہا کہ عدالتوں کو چلانا ترجیح ہے۔

 جسٹس رمنا نے ایک عجیب وانوکھی بات کہی کہ  ہندوستانی عدلیہ نے وقت کے ساتھ ترقی پائی ہے اور اسے ایک ہی حکم یا فیصلہ کے ذریعہ متعارف نہیں کرایا جاسکتا ، یا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرناہوگا۔

 ویسے یقینی طورپر عدلیہ میں  جدید تکنیک کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح کوویڈ-19 اور لاک ڈاؤن میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔

اس سے قبل بھی  جسٹس این وی رمنا نے اسی طرح کی باتیں عدالت کے باہر کہیں ہیں،حال میں جنوبی ہندمیں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ”  عدلیہ پر اعتماد کھونا جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔”اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ عوام کا بھروسہ عدلیہ پر سے نہ اٹھے۔ ان کی یہ خواہش بھی رہی اور اُس کااظہارکیا کہ جج اور وکلاء زیر التوا مقدمات میں جلد انصاف فراہم کرنے کی کوشش کریں اور وکلاء کو معاشرہ میں تبدیلی کے لئے کام کرنا چاہئے ، ان کا سینئر وکلاء  کو مشورہ تھا کہ جونیئرز کی حوصلہ افزائی کر یں، معاشرہ پرامن اور متحد ہوگا تو ترقی بہت آسان ہوگی۔

 جسٹس رمنا اور اُن کے پیشرو ججوں نے ہمیشہ عدل وانصاف کے بارے میں جو باتیں کی ہیں ،وہ وفات کے کمرے کے باہر ہی کہی باتیں ہیں۔اگر گزشتہ چند سال کا جائزہ لیں تو اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں احتجاج کرنے والوں اور مبینہ پتھراؤ کرنے والوں کو ملک مخالف  قانون کے تحت جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ ایک طویل فہرست ہے،سی اے اے پر احتجاج کرنے والے زرگری نامی طالبہ کا جامعہ میں داخلہ منسوخ کر دیا گیا ہے،صحافی کپن کوکوئی پُر سن حال نہیں ہے،معاشرے میں تفرقہ پیدا کرنے والے  تلنگانہ کے بی جے پی لیڈر کو چند گھنٹوں میں ضمانت دے دی جاتی ہے، اور تو اور نوپورشرما کے بارے میں عدالت عالیہ کے سخت ترین تبصرہ کرنے بعد بھی دہلی پولیس نوپورشرما کی حفاظت کررہی ہے اور دوسری ریاستوں کی پولیس سے زرا بھی تعاون نہیں کیا بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کے دوہفتے ہی نوپور کی دوسری عرضی پرگرفتاری پر اسٹے دینے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی جانے والی ایف آئی آر کو دہلی منتقل کرنے کاحکم دے دیا گیا، جس نے نوپورشرما کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے والوں اور اُن کے لیے آواز اٹھانے والوں کوجن میں تیستا سیتلواڑ بھی شامل ہیں،ضمانت کی کوئی گنجائش نہیں نظرآتی ہے اور غازی آباد کے ایک سوامی کی زہرافشانی اور راجستھان کے بی جے پی کے ذریعے پانچ مسلم نوجوانوں کو قتل کا اعتراف کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ یہ چند واقعات ہیں اور جسٹس رمنا کو اس کا احساس رہا ،لیکن ہم اس بات سے لاعلم ہیں کہ ہندوستانی معاشرے کی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کے لیے عدل وانصاف کے پلیٹ کا استعمال نہیں کیا۔قابل ستائش بات یہ ہے کہ جسٹس رمنا نے کم ازکم ایک حقیقت کے بارے میں کھل کراظہارکیا۔ اور واضح کیاکہ عدلیہ پر اعتماد کھونا جمہوریت کی بقا کیلئے خطرہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔