انجانی راہوں کا مسافر

تبصرہ نگار: ثناء ادریس چغتائی(کراچی)

کتاب کا نام : انجانی راہوں کا مسافر
مصنف: امانت علی
صنف: سفر نامہ
ناشر: پریس فار پیس فاؤنڈیشن ( برطانیہ)
قیمت : 600 روپے ( پاکستانی قارئین کے لئے)
پانچ پاؤنڈ ( انٹرنیشنل قارئین کے لئے)

تعارفِ مصنف :

امانت علی صاحب کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے ایک خوبصورت گاؤں سے ہے۔ جامعہ کشمیر سے انگریزی میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور پھر 2012 میں قسمت انہیں سرزمینِ حجاز لے آئی۔ جہاں وہ المجمعہ یونیورسٹی ریاض میں بطور انگریزی لیکچرار تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس شعبے سے بارہ سال سے وابستہ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ قلم قرطاس سے ان کی گہری وابستگی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

امانت علی صاحب ان لوگوں میں سے ہے جنہیں کچھ پانے، کھوجنے اور نئی منزلیں تلاشنے کی جستجو ہے۔ ان کا یہی وصف انہیں نئی راہوں کا مسافر بناتا ہے۔ علاؤہ ازیں وہ ایک بہترین کالم نگار بھی ہیں۔ جن کی تحاریر کا محور بچوں کی تربیت، معاشرے میں شعور و آگہی، تعلیم کے فروغ اور دیگر موجودہ معاشرتی اور سماجی مسائل کے گرد گھومتا ہے۔

امانت صاحب کا دیرینہ خواب  پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کے لئے جدید تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ وسائل تک رسائی ممکن بنانا ہے۔ انہوں نے اپنے اس مقصد کی تکمیل کی شروعات شائننگ سٹار سکول سسٹم کے نام سے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ کر کی۔ جہاں کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کے لئے معیاری اور جدید تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔ اس کے علاؤہ اپنے گاؤں کی سطح پر تعلیمی فاؤنڈیشن کی صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جس کا مقصد مستحق طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے مالی معاونت دینا ہے۔ تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کے ملک کا ایک کار آمد شہری بنیں اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

تعارفِ کتاب :

انجانی راہوں کا مسافر، سفرنگاری کی صنف میں ایک بہترین اضافہ ہے۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ اس بات سے متفق ہوئے بنا رہنا ناممکن ہے۔ وہ انسان جسے کچھپانے کی جستجو ہو، سفر اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ لیکن تب تک، جب سفرsuffer نہ بن جائے-

کتاب کے مصنف امانت علی صاحب نے قلم سے  انصاف کرتے ہوئے اس سفر نامے میں منظر نگاری کے جوہر دکھائے ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔ گو کہ یہ ان کی پہلی تصنیف ہے۔ مگر  تحریر کی  روانی ان کے روشن مستقبل کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اردو زبان کے فروغ  میں اپنا حصہ ڈالنے کی اس کوشش میں ان کی یہ کتاب ایک بہترین تحفہ ہے۔ جو قارئین کے ذوقِ مطالعہ کو تسکین دینے میں کامیاب رہے گی۔

یہ کتاب ان لوگوں کے لئے کار آمد ثابت ہوگی جو سیر و سیاحت کے شوقین ہیں۔ جو سرحدوں کی قیود سے آزاد ہیں۔ جو رنگ و نسل، زبان، رسم و رواج، ثقافت اور تہذیب کی تفریق سے بالاتر ہو کر دنیا کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں کے ذریعے ذہن کے کینوس پر اتارنا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ کتاب اردو ادب میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے گی۔ جس کے لئے ہم دعاگو ہیں۔

تبصرہ :

ترکی :

کتاب "انجانی راہوں کا مسافر "، کا آغاز خلافت عثمانیہ کے آخری پاسبان اور مستحکم حوالے ” ترکی ” سے ہوتا ہے۔ یہ ملک اسلامی ثقافت اور تہذیب کی پہچان ہے۔ جو تاریخ کی عظیم تہذیبوں کی آماج گاہ رہا۔ جن کی باقیات اب بھی وہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مصنف کا یہ سفر "قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن” کی توسط سے ممکن ہوا۔ جہاں وہ ایک ٹیم کی صورت پہنچے۔ اس سفر میں انہوں نے اپنے ملے جلے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ نئی جگہ، نئی ثقافت اور زبان کسی بھی انسان کے لئے چیلنجنگ ہوتی ہے۔ خاص کر تب، جب وہاں کے مقامی لوگ اپنی مادری زبان کو ترجیح دیتے ہوئے روز مرہ کی بول چال کا حصہ بنائیں۔ اس موقع پر آپ کا اس جگہ کی مقامی زبان سے آشنا ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے یہ بات مصنف کو وہاں پہنچ کر معلوم ہوئی۔ اس ایک وجہ نے مصنف کے دل میں اپنی  قومی زبان کا وقار مزید بڑھا  دیا۔ کیونکہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں۔ جو اپنے قومی تشخص کی حفاظت کرتی ہیں۔

ترکی، دو تہذیبوں کے ملاپ کی بہترین مثال ہے۔ یہ ملک دو براعظموں کو جوڑتا ہے۔ سو یہاں کی ثقافت اور رہن سہن میں آپ کو ایشیا اور یورپ کا رنگ دکھائی دے گا۔ یہی بات مصنف نے اپنی کتاب میں عمدہ پیرائے میں بیان کی ہے۔ دورہ پر آئی ٹیم نے یہاں کی تمام سینٹر آف اٹریکشن مقامات کی سیر کی جن میں سے کچھ قابلِ ذکر ہیں۔
نیلی مسجد استنبول، آیا صوفیہ، توپ کاپی محل، توپی محل میں اسلامی تبرکات، جلال الدین رومی کا شہر، رومی کا مزار، فیری لینڈ، تاریخی تقسیم اسکوائر، مزار حضرت ایوب انصاری اور عجائب گھر۔ اس کتاب میں صرف ان جگہوں کی معلومات ہی نہیں بلکہ تصاویر بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہیں۔

کینیا ( براعظم افریقہ):

مصنف اپنی ملازمت کی وجہ سے بین الاقوامی سفر کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔ لیکن اس بار انہیں مختلف نوعیت کا تجربہ ہوا۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے سفر نامے میں کیا۔ اس سفر سے پہلے بھی مصنف تدریسی کورس کے لئے ڈربن ( جنوبی افریقہ ) سے کیمبرج یونیورسٹی جا چکے تھے۔ ملازمت کی وجہ سے ان کے والد صاحب کی بھی افریقی ممالک سے گہری وابستگی رہی۔ جس کا فائدہ مصنف کو وہاں کی معلومات کے حصول کی صورت ہوا۔

اس سفر کے دوران اسلام آباد سے کراچی، کراچی سے دبئی اور پھر دبئی سے جومو کینیاٹا ہوائی اڈہ۔ ۔ مختلف تجربات و مشاہدات کا منبع رہا۔ جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اور سفر کے شروع سے آخر تک پڑھنے والا خود کو شاملِ سفر محسوس کرے گا۔ دنیا کا مشہور سفاری پارک کینیا میں ہے۔ نیروبی نیشنل پارک کے نام سے یہ جگہ ٹورسٹ کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس پارک کی سیر کا احوال بمعہ تصاویر پڑھنے والے کی دلچسپی کا سامان ہے۔ بو ماس آف

کینیا : موسیقی کا ثقافتی مرکز ۔ جہاں آپ کو براعظم افریقہ کی ثقافت، تاریخ، موسیقی ہر طرح کی معلومات میسر ہیں۔

جن سے سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں تو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ لو گاؤں کی سیر، اندرون شہر کا تجربہ سب ہی اس سفر نامے کو پر اثر بناتے ہیں۔
وقت کا کام ہے گزر جانا سو وہ گزر ہی جاتا ہے۔ خاص کر تب جب آپ اپنے پسندیدہ کام میں محو ہوں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اسی طرح اگر آپ سفر کے شوقین ہیں تو یقیناً آپ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ جگہیں دیکھنے کی جستجو کریں گے۔ لیکن وقت یوں پر لگا کر اڑتا ہے کہ مہینے دن اور دن گھنٹے معلوم ہوتے ہیں۔ سفر شروع ہو تو اختتام پذیر ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اگر سفر کی یاداشتیں خوشگوار ہوں تو برسوں تک ان کے اثرات انسان کی ذہنی، قلبی اور جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جس کا اظہار مصنف نے سفر نامے کے اختتام پر جذباتی انداز میں کیا۔

اختتامیہ:

ممکن ہو تو کتاب خرید کر پڑھیں کیونکہ اس سے لکھنے والے کی محنت سفل ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کسی اچھے سفر نامے کے متلاشی ہیں۔ تو ” انجانی راہوں کا مسافر ” جلد از جلد منگوائیں۔ کیا پتہ آپ بھی انہی راہوں کے مسافر بن جائیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی کو بھر پور انداز سے جئیں تو سفر بہترین آپشن ہے۔ لیکن سفر کا مزہ تب دوبالا ہوتا ہے جب ہمسفر ساتھ ہو۔

کتاب کے مصنف امانت علی صاحب کے لئے دعاگو ہیں کہ رب العزت انہیں عزت و شہرت کی بلندیوں پر پہنچائے۔ نیک مقاصد کے حصول میں آسانیاں پیدا ہوں۔ اور اردو ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔ ( آمین)

تبصرے بند ہیں۔