آہ! مولانا جلال الدین انصر عمری رحمہ اللہ علیہ

پروفیسرعبد اللہ مشتاق

(سعودی عرب)

ہندوستان کی مشہور علمی اور تنظیمی شخصیت، جامعہ دارالسلام عمرآباد کے قابل فخر اور مایہ ناز فرزند، جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر ونائب امیر، اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے، إنا لله وإنا إليه راجعون.

جامعہ دارالسلام عمرآباد سے ایک صدی کے عرصہ میں ہندو و پاک کے بہت سارے علماء نے اپنی علمی تشنگی بجھائی، ان میں ایک نمایاں نام مولانا جلال الدین انصر عمری رحمہ اللہ کا ہے، آپ جامعہ دار السلام عمرآباد کے کامیاب ترین اور لائق صد افتخار فرزند تھے، آپ بہترین مصنف، سحر انگیز ادیب، رقت آمیز خطیب، پختہ عالم دین، اور تجربہ کار ومحنک منتظم تھے۔

آپ کا تعلق جنوبی ہندوستان کے صوبہ تامل ناڈو کے ایک غیر ترقی یافتہ گاوں پتہ گرم سے تھا، جس علاقے کے لوگ اردو کا نام بھی بہت کم جانتے ہیں، ایسے دیہات سے نکل کر جامعہ دار السلام عمرآباد کی تربیت کی بنیاد پر آپ نے اردو دنیا کو بہت ساری علمی اور دینی کتابوں کا تحفہ دیا۔ آپ کی زندگی سے ایک درس یہ بھی ملتا ہے کی حالات کچھ بھی ہوں مثبت رویہ سے آدمی ساری مشکل حل کر سکتا ہے۔

مجھے بھی مولانا سے ملاقات کا شرف حاصل ہے،جنوری سن 1997 کی بات ہے، ابھی میں جامعہ دارالسلام سے فارغ ہو کر آیا تھا، سوچا دہلی گھوم آوں، اور مستقبل کے لئے کچھ راہیں بھی تلاش کر لوں، دہلی آیا تو کچھ لوگوں نے رائے دی کہ ادراہ تحقیقات اسلامی سے وابستہ ہو جاو، تحقیق وتصنیف کی ٹریننگ ہو جائے گی، اس وقت ادارہ کے ذمہ دار مولانا رحمہ اللہ ہی تھے، اور آپ جماعت اسلامی کے نائب امیر بھی تھے، میں ان سے ملاقات کے لئے ابو الفضل میں واقع جماعت کے دفتر گیا، اندر جانے کے بعد سکریٹری نے آنے کا مقصد پوچھا، میں نے کہا میں عمری ہوں اور مجھے مولانا جلال الدین انصر عمری صاحب سے ملنا ہے، انہوں نے فورا مولانا کی آفس کی طرف اشارہ کیا، میں داخل ہوا، مولانا اس وقت تفسیر قرطبی کھولے اپنے علمی کام میں مشغول تھے، بڑے خلوص اور تپاک سے ملے، میں کافی متاثر ہوا، ایک بیس سال کا لڑکا، جو ابھی مدرسہ سے فارغ ہو کر آیا ہے، جس کی حیثیت کروڑوں ذرات میں سے ایک ذرہ کی ہے، ایک علم کے پہاڑ کے سامنے بیٹھا ہے، جو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں علمی منارہ ہے، آپ کے اسلوب نے مجھے مسحور کر دیا، زیادہ دیر تک مدرسہ کے احوال وکوائف ہی پوچھتے رہے، میرے ایک مخلص اور بزرگ استاد شیخ التفسیر مولانا سید عبد الکبیر صاحب رحمہ اللہ جو آپ کے بھی استاد تھے، اور تعلق بھی آپ کے آبائی گاوں سے ہی تھا، ان کے بارے میں بڑی دلچسپی سے گفتگو کر بھی رہے تھے، اور سن بھی رہے تھے، جس سے اندازہ ہوا کہ آپ مولانا رحمہ اللہ سے کافی متاثر تھے، اس گفتگو کے بعد مجھ سے آنے کا مقصد پوچھا، میں نے کہا کہ میں آپ کے ماتحت چلنے والا ادارہ تحقیقات اسلامی سے منسلک ہونا چاہتا ہوں، آپ نے خوشی کا اظہار کیا، پھر میرے کاغذات دیکھے، پولے آپ کے رزلٹ سے تو لگتا ہے کہ آپ کو مکہ مدینہ جانے کا بھی ارادہ ہوگا، میں نے کہا کہ اگر موقع ملے گا تو ضرور جاوں گا، پھر انہوں نے کچھ مشورے دئیے، بولے مجھے خود ایک لڑکے کی ضرورت ہے جو میرے ساتھ رہ کر کام کرے، اگر آپ مستقل رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو میں اپنے ساتھ رکھ لیتا ہوں، میں نے کہا: مولانا آپ کے ساتھ کام کرنا میری خوش نصیبی ہوگی، لیکن مدینہ کا موقع ملے گا تو ضرور جاوں گا، پھر میں نے کہا: مولانا آپ بھی عمری ہیں، اور جس مرحلہ میں میں ہوں اس سے آپ گزر چکے ہیں، تو آپ مجھے مناسب مشورہ دیں کہ کہیں تدریس کا کام کروں یا ادارہ تحقیقات سے منسلک ہو جاوں، مولانا نے کہا کہ اگر مدینہ جانا ہے تو مناسب ہے کہ آپ ابھی تدریس سے جڑ جائیں، اس لئے کہ یہ آپ کو تعلیمی ایام میں زیادہ معاون ہوگا، ویسے آپ ایک درخواست میرے نام لکھ دیں، جب ادارہ تحقیقات کے لئے انٹرویو ہوگا تو میں آپ کو بلا لوں گا، اور اگر آپ مدینہ نہیں جا سکے تو ہمارے ساتھ آجائیے گا، میں نے درخواست دے دی، اور واپس آگیا، پھر میں مولانا رحمہ اللہ کے مشورہ کے مطابق بنگلور کے ایک مدرسہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگا۔

آپ مولانا رحمہ اللہ کے اخلاق کا اندازہ لگائیں اس شہرت کی بلندی پر پہنچنے کے باوجود ایک طالب علم سے کس خندہ پیشانی سے مل رہے ہیں، اور کتنا بہترین مشورہ دے رہے ہیں، عام طور پر لوگ تصنیف کا کام تو کرتے ہیں، لیکن ان کی زندگی اپنے ہی آراء کا آئینہ نہیں ہوتا ہے، لیکن مولانا نے جہاں قرآنی اخلاقیات پر بہت ساری کتابیں تصنیف کی ہیں، وہیں اس اخلاق کو ان کی زندگی میں بھی آپ محسوس کر سکتے تھے، بڑی خوبیاں تھیں مولانا کے اندر، متواضع، عالم با عمل، محنتی، جہد مسلسل، عمل پیہم کے پیکر، اور ہر وقت علمی کاموں میں مشغول رہنا آپ کا خاص شیوہ تھا۔

آپ نے کامیاب ترین زندگی گزاری، لیکن آپ کے پاس مدرسہ کے علاوہ کوئی ڈگری نہیں تھی، بے شمار تعلیمی ادارے کے ذمہ دار تھے لیکن آپ کے پاس ٹین پلس ٹو کی ڈگری نہیں تھی۔

مولانا کی وفات علمی اور تنظیمی دنیا کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ اللہ تعالی مولانا کی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے، آپ کی لغزشوں کو درگزر فرمائے، سیئات کو حسنات میں تبدیل کر دے، قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے، اور امت مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا کرے آمین۔

تبصرے بند ہیں۔