اسلام ایک فطری اور عقلی دین

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 جناب احمد علی اختر صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی جماعت اسلامی کے ہدف، مقصد اور منصوبوں کو بہار کی زمین پر اتارنے میں لگا دیا، وہ سابق امیر جماعت اسلامی بہاربھی رہے اور اپنی تحریکی جد وجہد اور مسلمانوں میں دینی غیرت وحمیت، ایمانی حرارت پیدا کرنے کے لیے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے، بہار میں جماعت اسلامی کی خدمات کا جب ذکر آئے گا تو جناب احمد علی اختر صاحب کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا بھی نرم دل واقع ہوئے ہیں اور دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا جذبہ رکھتے رہے ہیں، خود امارت شرعیہ نے جب کسی موضوع پر انہیں آواز دیا تو وہ امارت شرعیہ تشریف لاتے رہے ہیں۔ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ سے وہ بہت قریب تھے، تنظیمی معاملات ومسائل میں دونوں میں خاصی ہم آہنگی تھی، جس کا مشاہدہ احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے بار بار کیا ہے، اب یہ کام الحمد للہ مولانا رضوان احمد اصلاحی صاحب کر رہے ہیں اور ان کی سادگی، گفتگو کا سلیقہ تواضع اور انکساری بھی اس دور میں خوش گوار حیرت میں ڈالا کرتی ہے۔

 ’’اسلام ایک فطری اور عقلی دین‘‘ جناب احمد علی اختر صاحب کی چھیانوے صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جو بقامت کثیر اور بقیمت بہتر کی صحیح مصداق ہے، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے اس رسالہ کی اشاعت ہوئی، طباعت، کاغذ، سیٹنگ، ٹائٹل کی خوبصورتی اور دیدہ زیبی، مرکزی مکتبہ اسلامی کی طباعت کا طرۂ امتیاز رہا ہے جو اس کتاب میں بھی پورے طور پر جلوہ فگن ہے، قاری کو مطالعہ پر آمادہ کرنے میں ان چیزوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے، جو کتاب طباعت کے اعتبار سے دیدہ زیب نہیں ہوتی انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے قاری گھبراتا ہے۔

 کتاب کا موضوع اسلام ہے، جو فطری بھی ہے اور عقلی بھی، اس کتاب میں اسی چیز کو سادہ، آسان زبان اور شستہ لب ولہجہ میں دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، انداز بیان اور دلائل کے پیش کرنے کے سلیقے کی وجہ سے یہ کتاب ’’ازدل خیزد بر دل ریز‘‘ کی صحیح مصداق بن گئی ہے۔

 جناب احمد علی اختر صاحب نے اس کتاب کو جن لوگوں کے لیے لکھا ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’یہ مضمون میں نے ان لوگوں کے لیے لکھا ہے جو اسلام کے نظریۂ زندگی اور فلسفۂ حیات کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے، مبہم مبہم اور دھندھلا دھندلا ایک تصور ان کے ذہن میں ہے کہ اسلام میرا مذہب ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ آباؤ واجداد سے ملی ہوئی یہ قیمتی وراثت میرے پاس اجداد کی امانت ہے، اسے سنبھال کر رکھنا ہے۔ ‘‘

 مولانا کے سامنے ایک دوسرا طبقہ بھی ہے اور وہ ہے مغربی تہذیب سے متاثر اور مرعوب طبقہ، جن کی آنکھیں سائنسی ترقیات سے اس قدر چکا چوند ہو گئی ہیں کہ انہیں اس سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے، وہ اسلام کو قدامت پسند سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات اور تغیر پذیر زمانہ میں اسلام کی اہمیت کم ہو گئی ہے، اس احساس وخیالات کی وجہ سے وہ ایک قسم کی احساس کمتری میں مبتلا ہو گیے ہیں اور اسلام کو عقلیت سے دور ایک مذہب تصور کرتے ہیں، حالاں کہ اسلام میں عقل ونقل دونوں کی اہمیت ہے، اسی لیے ہم روایت کے ساتھ درایت کا بھی خیال رکھتے ہیں، علماء اسلام نے اسلام عقل ونقل کی روشنی میں مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں اور احکام خدا وندی کے اسرار ورموز کی طرف عقلی طور پر ہماری رہنمائی کی ہے، امام غزالی کی احیاء العلوم، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ، حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کی المصالح العقلیہ جس کا جدید ایڈیشن اسلام عقل کی روشنی میں آیا ہے مشہور ومعروف ہیں۔

 جناب احمد علی اختر صاحب کی یہ کتاب اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے، جس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، جس کی وجہ سے اس پر عمل آسان ہے اور پھر جو احکام بھی دیے گیے ہیں ان کی عقلی توجیہہ بھی ہے جو قرآن وحدیث میں غور وفکر کرنے سے اہل علم پر واضح ہوجاتی ہے، البتہ انسانی عقل کے مختلف مدارج ہیں اور ان احکامات کو سمجھنے کے لیے ایک خاص قسم کی استعداد وصلاحیت کی ضرورت ہے، ہر آدمی سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ احکام اسلام کی عقلی توجیہہ تک پہونچ جائے، اسی لیے قرآن کریم میں بار بار تدبر اور تفکر پر زور دیا گیا ہے، تاکہ اس کی تہہ تک انسانوں کی رسائی ہو سکے، اس کتاب کے بارے میں مولانا سید جلال الدین عمری صدر شریعۃ کونسل جماعت اسلامی ہند نے بجا لکھا ہے کہ ’’ اس (کتاب) میں اسلام کا وسیع اور جامع تعارف ہے، اس کی تعلیمات کے احاطہ کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے ہیں، اس سے اسلام کی حقانیت اور صداقت واضح ہوتی ہے، انداز دعوتی اور تاثراتی ہے۔

مولانا جلال الدین عمری صاحب نے جناب احمد علی اختر صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان کے اندر عمدہ تحریری صلاحیت بھی ہے، لیکن ان کی اس طرف توجہ کم رہی ہے، انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کا دینی وادبی ذوق نمایاں ہے، ان کی تحریروں میں بڑی شگفتگی اور ادبی چاشنی پائی جاتی ہے ‘‘۔

 پیش لفظ اور تعارف کوچھوڑ کر بیالیس (۴۲)عنوانات کے تحت اسلام کے فطری اور عقلی ہونے پر روشنی ڈالی ہے، جس کے ذیل میں اسلام کے بنیادی عقائد، قرآن ہدایت کی آخری کتاب، زندگی پر عقیدۂ توحید کے اثرات، ڈارون کا نظریۂ ارتقائ، انسان کی تخلیق کے سلسلے میں قرآن کا نظریۂ اسلام کے تعزیراتی قوانین جسے اہم مضامین کتاب میں ایک خاص ترتیب سے زیر بحث آئے ہیں، اسلام کی فطری اور عقلی بنیادوں کو عصر حاضر میں جدید معروضی اور منطقی اسلوب میں سمجھنے کے لیے یہ کتاب انتہائی مفید ہے اور اس لائق ہے کہ ہر گھر میں اس کو پڑھا جائے، رکھا جائے، تاکہ نئی نسل دین بیزار نہ بنے۔

تبصرے بند ہیں۔