عزت کی چھوٹی چادر

اسماء طارق

ماں یہ عزت کی چادر چھوٹی کیوں ہوتی ہے مریم نے ماں سے پوچھا، ماں نے بیزار ہو کر کہا کہ مجھے نہیں پتا بڑوں سے ایسے ہی سنا ہے۔ جب سے اس سے ماسی رحمت کو یہ کہتے سن لیا کہ ہمارے لیے  عزت کی چادر چھوٹی ہوتی ہے کہ پاوں ڈھاپنے  پر سر اور سر  ڈھاپنے پر پاوں نظر آتے ہیں۔ مریم  نے آٹھویں کررہی تھی اسے آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا مگر علاقے میں کوئی سکول نہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں بےشمار ننھے خواب جگمگاتے تھے مگر اسے اس کی تعبیر آس پاس کہیں نظر نہیں آتی مگر پھر اسے امید تھی شاید۔ اس کا گاؤں  شہر سے بہت دور تھا اس لیے وہاں بنیادی سہولیات کی کمی اچھا سکول نہ  ہسپتال تھا۔ وہ لوگ جاگیردارانہ نظام کے غلام تھے جنہیں معمولی ضروریات کے لئے جاگیر دار کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑھتا تھا اس کا جاگیر کا مزارع تھا ۔

 وہ دو بہن  بھائی تھے بڑا بھائی جو غصے کا تیز بقول اسکی دادی کے مگر اس کے مطابق تو وہ جاگیر دار کے بیٹے کا غنڈہ تھا  اور وہ چھوٹی بہن۔ وہ اپنا ابا کی لاڈلی تھی ماں اور  دادی تو بھائی پر ہی قربان جاتیں۔ اسے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور اس کے لیے اس کا ہمیشہ ماں سے جھگڑا ہوجاتا وہ کہتی کہ گھر کے کام کاج سیکھ لو وگرنہ آگے جا کر ناک کٹواو گی۔ دادی بابا سے کہتی کہ میں خاندان کا ناک کٹواوں گی کیونکہ مجھے کوئی گھر کا کام نہیں آتا اور وہ مجھے سمجھاتا کیوں نہیں ہے مگر بابا اسے پیار سے ٹال دیتے اسے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ گھر کے کام نہ کرنے سے خاندان کی  ناک کیسے کٹ سکتی تھی۔ مگر اس دن  جب اچانک ایک قیامت خیز  خبر آئی کہ بھائی نہ  ایک آدمی کو گولی مار دی ہے  ماں اور دادی نے  واویلا کر رہی تھیں کہ ہمارا ارشد معصوم ہے ضرور کسی نے ہی کچھ کیا ہو گا ساری محلے کی عورتیں ہمارے گھر جمع تھیں  ہر کوئی اپنے سے کہانی بنا رہا تھا۔

 بابا معاملے کی تحقیق کےلیے گئے تھے پتا چلا کہ اس نے بھائی کو گالی دی جس پر انہوں نے   جذبات کو قابو نہ کرتے ہوئے گولی مار دی اور اب اس کے بچ جانے پر ہی کچھ  معافی ممکن تھا مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ وہ مرگیا۔ اسے بہت ڈر لگ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے بھائی نے غلط کیا ہے۔ ماں دادی بابا پر بھائی کو چھڑانے کیلئے زور ڈالتی ادھر بابا جاگیردار کے سامنے منت سماجت کر تا وہ آگے سے کہتا تیرے بیٹے نے کسی معمولی آدمی کو گولی نہیں ماری وہ ساتھ والے پنڈ کے سردار کا بیٹا تھا اب فیصلہ جرگہ کرے گا۔ آخر جرگہ بیٹھ گیا وہ لوگ بضد تھے کہ بھائی کو بھی گولی مار دی جائے ادھر بابا ان کے آگے منت سماجت کرتے کہ بھائی کو  معاف کر دیں وہ اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے ۔ جرگے نے دونوں فریقین کی سنی اور اگر میں ایک ایسا فیصلہ سنا دیا جس سے بھائی بچ سکتا تھا مگر وہ مر گئی۔

بابا نے آکر بتایا کہ جرگہ نے طہ کیا ہے کہ اگر ہم مقتول کے ماما کے ساتھ مریم کی شادی کردیتے ہیں تو ارشد کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ماں دادی بابا پر زور ڈال رہی تھیں کہ وہ ان کی بات مان لے آخر کبھی نہ کبھی انہیں مریم کی  شادی کرنی تھی  مگر بابا کہتا کہ وہ پچاس سال کا بوڑھا اور مریم ابھی اٹھارہ کی ہوئی ہے۔

مریم کے لیے یہ قیامت تھی مگر اسے بابا کا سہارا تھا اور آخر یہ سہارا بھی بیٹے کی  محبت کے آگے دم توڑ گیا اور وہ خاندان اور ماں دادی کے دباؤ آکر اس بنی کیلئے تیار ہوگیا یاں اسے بھی یاد آ گیا کہ بیٹا ہی اسکے بڑھاپے کا سہارا۔ اسے یاد بچپن میں جب کبھی اسکا بھائی غلطی کرتا اور وہ شکایت کرتی  تو دادی اسے ڈانٹتیں اور اگر وہ کچھ کہتی تو دادی کہتی وہ لڑکا ہے۔ اور آج بھی اس کو بھائی کی  غلطی سزا دی جارہی تھی مگر اس بار صرف دادی نہیں سب شامل تھے اور سزا تاعمر کےلیے تھی۔ وہ بہت چیخی چلائی، روئی گڑگڑائی مگر کوئی اس کی فریاد سننے والا نہ تھا سب بیٹے کی خاطر اسے بننی چڑھانے پر تیار تھے۔

 آج اسے اس شادی تھی ایک پچاس سالہ مرد کے ساتھ اور وہ اپنے خوابوں کے قتل پر آنسو بہا رہی تھی اور قاتل اسکے اپنے تھے مگر اس قتل کا فیصلہ کوئی جرگہ نہ عدالت کرتی تھی۔ اسے آج اچھے سے سمجھ آگیا تھا کہ عزت کی چادر چھوٹی کیوں ہوتی ہے اور بیٹوں کے لیے تو خاص طور پر چھوٹی رکھوائی جاتی ہے کہیں وہ زیادہ عزت دار نہ بن جائیں۔

تبصرے بند ہیں۔