عشق کا مہمل نہیں ہے

مقصود عالم رفعتؔ

یہ عقدہ عشق کا مہمل نہیں ہے

ہے مشکل یہ، مگر مشکل نہیں ہے

۔

تلاطم میں پھنسی ہے کشتئ زیست

نظر میں دور تک ساحل نہیں

۔

کھلونے کی طرح دل توڑتے ہو

تمہارے پاس کیا جی دل نہیں ہے

۔

کسی سے اور جا کر دل لگاؤ

مرا دل پیار کے قابل نہیں ہے

۔

یہ کیسی سلطنت ہے کیسا سلطاں

کوئی محفوظ مستقبل نہیں ہے

۔

نہیں اب یاد آتی دل کو تیری

پہ تیری یاد سے غافل نہیں ہے

۔

مرا پیغام یہ اکبر کو پہنچے

سلیم اس عہد کا بزدل نہیں ہے

۔

میاں رفعت کسے سمجھا رہے ہو

پڑھا لکھا ہے وہ جاہل نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔