ساحر لدھیانوی: میں زندگی کاساتھ نبھاتا چلا گیا

عزیز سہسولہ

(ریسرچ اسکالر جے این یو)

زبان زد عام شعر ہے کہ:

اک شہنشاہ نے دولت کا سہار ا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق    

اس شعر کاخالق کوئی اور نہیں ساحر لدھیانوی ہیں۔ صرف اردو ادب کاحلقہ ہی نہیں بلکہ دیگر تمام حلقے بھی ساحر لدھیانوی کے سحر سے بچ نہیں سکے۔ساحر کا سحر ہر کسی کے سر چڑھ کر بولا ہے۔ غزلوں، نظموں اور گیتوں کی شکل میں ساحر نے وہ مقبولیت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کوحاصل ہوتی ہے۔ہر خاص و عام کے دل میں گھر کر لینا اس کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ تقریبا سینتیس سال بعد آج بھی ساحر کے نغمے لوگوں کی زباں پرویسے ہی جاری ہیں جیسے پہلے تھے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ساحر کسی غیر معمولی ہستی کا نام تھا۔

ساحر کی پیدائش ۸ مارچ ۱۹۲۱ ء؁ کو پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ہوئی۔والد چودھری فضل محمد کی اکلوتی اولاد تھے۔ باپ نے تیرہ شادیاں کیں مگر ساحر کے علاوہ کوئی اور اولا نہ ہوئی۔ والد اپنے علاقے کے مشہور ذیلدار اور بڑے زمیندار تھے۔ ساحر کا اصلی نام عبدالحئی تھا۔ ان کے نام کے پس منظر میں حمید اختر نے ایک بہت دلچسپ سبب لکھا  ہے کہ ان کے والد کی اپنے ایک پڑوسی سے جس کا نام عبدالحئی تھا  حد درجہ کی دشمنی تھی۔ اس دشمنی کی وجہ سے ساحر کے والد نے ساحر کا نام عبدالحئی رکھ دیا۔ اس کے بعدساحر کے والد بر سر عام گالیاں بکتے، طعن و تشنیع کرتے اور ہر ممکن طریقے سے عیب جوئی کرتے اوراگر کوئی ان کو ٹوکتا تو کہتے کہ وہ تو اپنے بیٹے عبدالحئی سے پیار اور لاڈ کی باتیں کرر ہا تھا کسی اور عبدالحئی سے نہیں۔ والد کے بڑے زمیندار اور رئیس ہونے کے باوجود ساحر کو کوئی آسائش اور فارغ البالی نصیب نہ ہوسکی۔ والد کے اس جابرانہ اور غیر مشفقانہ رویہ کے باعث ساحر کا دل ان سے اُچاٹ ہو گیااور ان کو اپنے والد کے علاوہ صاحب اقتدار لوگوں سے بھی ایک قسم کی نفرت ہونے لگی جس کا اثر ان کی طبیعت اور شخصیت پر بھی مرتب ہو ا۔ ساحر نے اپنی ایک نظم’’فرار‘‘ میں غالباً اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں

اپنے گذرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے

اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں

اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو

میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں

میری امیدوں کاحاصل، مری کاوش کا صلہ

ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

ساحر نے اپنی پہلی نظم اسکول میں دور طالبعلمی میں ہی لکھی اور اپنے ایک استاد فیاض ہریانوی کے پاس اصلاح کے لیے بھیجی۔ استاد نے کہا کہ ’’ اشعار موزوں ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے نظم معمولی ہے،‘‘  بس یہیں سے ساحرکی شاعری کا آغاز ہو گیا۔ساحر نے جب شاعری کی ابتدا کی تو تخلص کی ضرورت درپیش آئی۔ بڑے پش وپیش میں تھے کہ کیا تخلص اختیار کیا جائے۔ اسی دوران وہ علامہ اقبال کے مرثیہ کا مطالعہ کر رہے تھے جو انہوں نے داغ دہلوی کی یاد میں لکھا تھا:

اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی

سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعزازبھی

انہیں ساحر لفظ اتنا پسند آیا کہ یہی اپنا تخلص اختیار کرلیا اور عبدالحئی سے ساحر لدھیانوی بن گئے۔ لیکن میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ انہوں نے اپنا یہ تخلص کسی غزل، نظم یا گیت میں کہیں استعمال کیا ہو۔

ساحرکی شہرت جتنی ایک شاعر کی حیثیت سے ہے اتنی ہی ایک گیت کار کی کی حیثیت سے بھی ہے۔ویسے تو ساحر نے بہت عمدہ عمدہ  غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی پہچان ان کی نظموں اور فلمی نغموں کے حوالے سے ہے۔ساحر نے جہاں ایک طرف اپنے کلام سے صاحب اقتدار اور سرمایہ دار طبقہ پر چوٹ کی وہیں دوسری طرف عوام کے مسائل کو اپنا موضوع بناکر لوگوں کو اپنا گرویدہ بھی کر لیا۔ ساحر کی کسی سے  کوئی ذاتی لڑائی یا دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی لڑائی سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں سے تھی اور اس نظام سے تھی جس کی وجہ سے غریبوں کی ہڈیوں پر سرمایہ داروں کے محل تعمیر ہو رہے تھے۔ساحر نے سیاسی کشمکش کے خلاف بہ بانگ دہل اپنے خیالات کااظہار کیا جس کی وجہ سے وہ بارہا سرکاری عتاب کا نشانہ بنے۔ ان کی بہت سی نظمیں ضبط کر لی گئیں لیکن یہ آندھیاں ساحر کے عزم آہن کو متزلزل نہ کر سکیں۔ جس کا اندازہ مندرجہ ذیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:

نہ منہ چھپا کے جیے ہم نہ سر جھکا کے جیے

ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے

اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی

یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلاکے جیے

یہ اشعار بھی دیکھیے:

بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم

خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا

مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم

تقسیم ملک کے وقت ساحر کی عمر تقریباً ۲۶ بر س تھی۔ملک میں رونما ہونے والے فسادات کا خونین منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اترتے دیکھا۔ آزادی کے نام پر جو ننگا ناچ پیش کیا گیا ساحر اس کے عینی شاہد ہیں۔ ساحر کو اپنی ماں کی خاطر پاکستان ہجرت کرنی پڑی تھی جس کی داستان بھی کافی غمناک ہے مگر وہ واپس ہندوستان آگئے۔ قیام پاکستان کے دوران انہوں نے تقسیم ملک کے باعث ہونے والے فسادات پر بہت سے اشعار کہے۔ ان کی نظم ’’آج‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہجرت اور اپنوں کے ہجر کا دردناک ذکرکیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گذری

دل ِزندہ! ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گذری

زمیں نے خون اگلا، آسماں نے آگ برسائی

جب انسانوں کے دن بدلے، تو انسانوں پہ کیا گذری

ہمیں یہ فکر ان کی انجمن کس حال میں ہوگی

انہیں یہ غم کہ ان کے دیوانوں پہ کیا گذری

یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا

سیہ خانوں سے کچھ پوچھو، شبستانوں پہ کیا گذری

ساحر نے ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے مزدوروں، کسانوں اور فاقہ کش انسانوں اور ان کے مسائل کو ابھارا ہے۔ ان کی بہت سی نظمیں مثلاً ’’شعاع ِ فردا‘‘  ’’بنگال‘‘  ’’احساسِ کامران‘‘  ’’ نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو‘‘  ’’ آواز آدم‘‘  ایک انقلابی دنیا کا خواب دکھاتی ہیں لیکن  جب ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں ملتی تو پھر یہ حرمان و مایوسی کی کیفیت ’’ پرچھائیاں ‘‘ کو جنم دیتی ہے۔قحط بنگال کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں جس نے سارے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک بڑی تعدادلقمہ اجل بن گئی۔ ساحرجیسا حساس دل شخص اس غیر معمولی واقعہ کو کیسے نظر انداز کر سکتا تھا۔ ساحر نے ’’ بنگال‘‘ لکھ کرلوگوں کی خستہ حالی کا ذکر کیا۔ ساحر نے حکومت اور ارباب حکومت کو آئینہ دکھا یا کہ ان کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔ نظم ملاحظہ ہو:

جہان کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانوں

نظام ِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا

کہ ان پہ دیس کی جنتاسسک سسک کے مرے

زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا

کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے

مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں

کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں

چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا

کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں

زمیں کی قوت تخلیق کے خداوندو

مِلوں کے منتظمو، سلطنت کے فرزندو

پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے

نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے

بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

ساحر نے اردو کو بہت کچھ دیا۔ فلمی شاعری ہو یا سنجیدہ شاعری، ہر جگہ ان کے فن کی چمک دمک آج بھی برقرار ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ساحر نے اپنے عہد کے تقریبا تمام موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے چکر میں انہوں نے فنی جمالیا ت کا سودا نہیں کیا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے دور میں شاعری کر رہے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی ترقی پسند شعراکا اسلوب اور انداز اختیار نہیں کیا۔ساحر نے اس دور میں بھی اپنی شاعری کو نعرہ زنی سے بچالیا جبکہ شاعری میں نعرہ زنی عام ہو رہی تھی۔انہوں نے مضامین وہی بیان کیے جو دیگر ہم عصر کر رہے تھے لیکن ان کا انداز بالکل الگ تھا:

چرواہیاں رستہ بھول گئیں، پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں

کتنی ہی کنواری ابلائیں، ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں

ساحر کے لہجے میں ایک خاص قسم کی نرمی اور لطافت ہے جو ان کو دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ کتنی بھی سخت سے سخت بات کیوں نہ کریں ان کے لہجے میں کرختگی نہیں آتی۔ اول تا آخر ملائمیت برقرار رہتی ہے۔ کوئی بھی ایسامضمون جس کو دیگر شعرا پہلے ہی پیش کر چکے تھے جب ساحر نے اس کو اپنی شاعری میں برتا تو ایک اچھوتا انداز اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ علی سردار جعفری جیسا شخص جو ساحر کو ترقی پسند شعرا کی فہرست سے خارج گردانتا ہے ’’پرچھائیاں ‘‘ نظم کا دیباچہ لکھتے ہوئے ساحر کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اس قسم کی ساحر کی دیگر نظموں میں ’’چکلے‘‘ ’’جشن غالب‘‘  بھی بہت مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ تاج محل‘‘ کو دیکھ سکتے ہیں۔ ساحر نے اس نظم میں شاہجہاں کی عظمت و رفعت، شہنشاہیت، دولت و ثروت، ناز و نخرے اور شان و شوکت کے گیت گانے کے بجائے ان سینکڑوں گمنام کاریگروں اور مزدوروں کے حق کی بات کی جنہوں نے اپنی محنت، صلاحیت و قابلیت سے اپنے شہنشاہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ اس نظم کے اس بند کو پڑھ کرغریبوں اور مزدوروں کے تئیں ساحر کے کرب کا احساس کیاجا سکتا ہے:

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل

یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاقت

اک شہنشاہ نے دولت کا سہار لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحر نے عالم میں پھیلے انتشار و اختلاف، خوں ریزی، تشدد اور ظلم و ستم کو اپنی شاعری میں سب سے زیادہ جگہ دی اور بتایا کہ جنگ وجدال کسی مسئلے کا حل نہیں۔ جو کام محبت سے کر لیا جائے وہ سب سے اچھا ہے۔ اسی کشمکش کا نقشہ ’’ اے شریف انسانوں ‘‘ میں اس طرح کھینچا ہے:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو                نسل آد م کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں      امن عالم کا خون ہے آکر

بم گھروں پہ گریں کہ سرحد پر             روح تعمیر رخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کیں غیروں کے     زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینگ آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں     کوکھ دھرتی کی بانھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہارکا سوگ              زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے    جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی         بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لیے اے شریف انسانوں         جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں      شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

ساحر اور امرتا پریتم کی عشق کی داستان ہم سب نے سنی ہے۔ساحر کا تصور عشق موجودہ عشق سے اعلی اور بلند تر ہے۔ ساحر کی شاعری ان کے دل کی سچی ترجمان ہے۔ انہوں نے اپنے سینے میں کوئی رازدفن نہیں رکھا۔ جو بھی سوچتے تھے شاعری کے پیرایے میں بیان کر کے اس کو غم زمانہ کی شکل میں ڈھال دیتے۔ اس کے بعد جو بھی اس کو پڑھتا یا سنتا اس میں اپنا غم اور درد محسوس کرتا۔ساحر اور امرتا پریتم دور ہوکر بھی پاس تھے لیکن کچھ بندشوں کی وجہ سے ایک نہ ہو سکے۔ساحر نے اپنے عشق کی ناکامیوں اور محرومیوں کا ذکرکافی حد تک اپنی نظم’’ فرار ‘‘ میں کیا ہے :

اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں

تم نے کسی کے ساتھ محبت نباہ تو دی

ایک اور جگہ کہتے ہیں :

انہیں اپنانہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے

کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھوکر جی لیا میں نے

محبت کی یہ تڑپ زندگی بھرباقی رہی اور ٹیس بن کر تکلیف دیتی رہی۔ چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ساحر نے بر سر عام اپنے معشوق کو ان الفاظ میں نصیحت کر ڈالی:

عہد گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو

ایک آوازہ منزل کو ستاتی کیوں ہو

۔

وہ حسیں عہد جو شرمندہ ایفاء  نہ ہوا

اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

۔

میں تصوف کے مراحل کا  نہیں ہوں قائل

میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو

۔

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کاخیال

پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو

۔

تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کرلو

ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو

ساحر کی تنہائی، کرب، ذہنی کیفیت اور نفسیاتی کشمکش نے ان کو آخری عمر میں حد درجہ پریشان کر دیا تھا۔ اپنے ڈرائیور کو ڈیوٹی پر متعین ضرورکرتے مگر خود کہیں نہیں جاتے۔ اپنے دوست احباب سے کہتے کہ ان کے ساز وسامان سے فائدہ اٹھائیں۔ ساحر کو وہ سب نہیں ملا جس کے وہ حقدارتھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تقسیم ملک کے بعدہندوستان واپس آکر اپنی عمر کے تقریباً تیس سال فلمی دنیا میں گزار دیے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں انہوں نے’’ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ‘‘  ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں ‘‘  ’’بابل کی دعائیں لیتی جا‘‘  ’’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں ہے‘‘  ’’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا‘‘  ’’اے مری زہرہ جبیں ‘‘  آجا تجھکو پکارے میرا پیار‘‘  ’’جیون کے سفر میں راہی‘‘  ’’محبت بڑے کام کی چیز ہے‘‘  ’’کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتاہے‘‘’’نیلے گگن کے تلے دھرتی کا پیار پلے‘‘  ’’ڈوب گئے آکاش کے تارے، جاکے نہ تم آئے‘‘  ’’تم اگر مجھ کو نہ چاہو تو کوئی بات نہیں، تم کسی اور چاہوگی تو مشکل ہوگی‘‘  ’’تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی نظارے ہم کیا دیکھیں ‘‘  جیسے سینکڑوں مقبول گیت لکھ کر کِنگ آف رومانس کا خطاب حاصل کر لیا تھالیکن ان کی نظم ’’ فنکار ‘‘ کو   پڑھ کر ان کے کرب کی انتہا کو محسوس کیا جا سکتاہے کہ جب ایک فنکار اپنے فن کو نیلام کرنے کے لیے بازار میں رکھ دے:

میں نے جو گیت ترے پیا رکی خاطر لکھے

آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج چاندی کے ترازو میں تلے گی ہر چیز

میرے افکار، مری شاعری، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں کو

مفلسی جنس بنانے پہ اتر آئی ہے

ترے جلو کسی زردار کی میراث سہی

تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

ساحر آزادی، مساوات، سچائی انصاف اور انسانیت کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے۔ ساحر نے سماج کے ان تاریک پہلؤوں پر بھی ضرب کی جو معاشرے پر ایک بدنما داغ ہیں۔ دراصل ساحر نے جو مشاہدہ کیااور جو بھی کچھ اس دنیا نے اسے قصدا یا بادل نخواستہ دیا ساحر نے وہ سب کچھ اپنی شاعری کے پیکر میں واپس کر دیا:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر کی شاعری کے محرکا ت کو جاننے کے لیے کسی اورچیز کی ضرورت نہیں ہے صرف ان کی نظم  ’’میرے گیت‘‘ کا مطالعہ ہی کافی ہے۔ ساحر کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری بیک وقت عوامی اور ادبی تھی۔ وہ ادبی شاعری کو عوام تک لے آئے تھے۔ ساحر اردو شاعری کو لافانی اور لازوال تخلیقات سے مالامال کر ۲۵  اکتوبر  ۱۹۸۰ء  ؁ کو اس دارفانی کو خیربادکہہ گئے۔ جب تک لوگ  محبت کے جذبے سے سرشار رہیں گے اور ان کے دل وماغ میں عشق کی تانیں بجتی رہیں گی ساحر زندہ رہے گا:

تم مجھے بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو

میری بات اورہے میں نے تو محبت کی ہے

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔