علماء کے مابین اختلافات کیوں؟

ریاض الرحمن بھٹکل

(جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور)  

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ(سورة الأنفال٤٦)

علماء حق انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، ان کے کاندھوں پر وہی ذمہ داری ہوتی ہے جو انبیاء پوری کرتے آئے ہیں،، علماء کاکام انذار وتبشیر ہوتا ہے، علماء عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔پھر سب سے بڑھ کریہ کہ علماء خود نمونہ ہوتے ہیں، جیسے تمام انبیاء اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتی دنیا تک کہ لئےنمونہ ہیں۔ جب تک علماء اس روش پر قائم رہے پوری امت مجموعی لحاظ سے راہ راست پر چلتی رہی، لیکن جیسے جیسے علماء میں خرابی پیدا ہوئی ساتھ ہی ساتھ امت میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ علماء کی مثال امت کے جسم میں دل کی سی ہے، جیسا کے حدیث میں ہے، نبی کریم ص نے فرمایا "ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب” (صحیح البخاري :٥٢)کہ سنو جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ صحیح ہوتا ہے تو پورا جسم صحیح ہوتا ہے اور جب اس میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے سنو وہ دل ہے۔ بالکل یہی معاملہ علماء کا ہے جب علماء ٹھیک ہوتے ہیں پوری امت ٹھیک ہوتی ہے جب علماء خراب ہوتے ہیں پوری امت میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔

اسی طرح ایک موقع پر نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” ان شرَّ الشرِّ شرار العلماء وان خیر الخیر خیار العلماء“(سنن دارمی: ٣٧٣)کہ بروں میں سب سے برے علماء ہیں اور بھلوں میں سب سے بھلے علماء ہیں۔ جس طرح اچھے علماء کی وجہ سے دوسرے بہت سے لوگ سدھرتے ہیں اسی طرح برے علماء کی وجہ سے بہت سے لوگ بگڑتے ہیں، دور حاضر میں علماء میں جو سب سے بڑی خرابی پیدا ہوئی ہے ہے. وہ علماء کا آپسی اختلاف ہے، یہاں سب سے پہلے یہ بات جاننی چاہیے کہ اختلاف دو طرح کا ہوتا ہے ایک اختلاف اختلاف ممدوح یعنی ایسا اختلاف جس میں انسان کا نفس شامل نہ ہو جیسے علمی اختلاف جو سابق علماء و مشائخ کے مابین ہوا کرتا تھا، اور  دوسرا اختلاف اختلاف غیر ممدوح  اختلاف غیر ممدوح کہتے ہیں ایسا اختلاف جو نزاع کا باعث بنے جو کہ قابل مذمت ہے، اور آج ہمارے علماء کی اکثریت اسی دوسرے اختلاف میں پڑی ہوئی ہے. اور علماء سوء کا نمونہ پیش کر رہی ہے، جن کے بارے میں احادیث میں سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں.

آج ہر ذی شعور شخص علماء کے مابین اختلافات کا مشاہدہ کررہا ہے۔ جہاں چند علماء آباد ہیں وہاں شدید ترین اختلافات موجود ہیں۔ مختلف مسالک اور تنظیموں کے باہمی اختلافات الگ ہیں، مختلف اداروں اور تعلیم گاہوں کے اختلافات الگ ہیں،مختلف مدارس و جامعات کا اختلاف الگ ہے، ہر ایک دوسرے کے مد مقابل محاذ آرائی میں پوری طرح کوشاں نظر آرہا ہے۔ جس کے نتیجے میں کتنے ایسے علماء و فضلاء ہیں جو انہیں اختلافات کی وجہ سے کورٹ کچہری کے چکر کاٹ رہے ہیں اور طرح طرح کی دشواریاں برداشت کر رہے ہیں، آپسی اتحاد کی نہ تو کوششیں کی جارہی ہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ ایک اسلامی دستور ہے لیکن اس دستور کی تمام تر دفعات کو پس پشت ڈال کر اختلافات کو مزید بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ غیر اقوام اور اسلام دشمن طاقتیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ذیل کے سطور میں علماء کے درمیان موجود اختلافات کے بنیادی وجوہات کو ناقص سوچ کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے  تاکہ ان اختلافات کو دور کرکے اتحاد واتفاق کو آپس میں فروغ دیا جائے۔

١)انانیت :

ایک ایسا مہلک مرض ہے جو انسان کو  گمراہی اور جہالت، اختلاف وانتشار کی وادیوں میں ڈھکیل دیتا ہے اور انا پرستی کا مارا انسان اس کی تپش میں جل کر دوسروں سے بدلہ لینے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے  جس کے اوپر ہزاروں لعنتیں بھیجی گئی ہیں۔ آج بعض علماء میں آپسی اختلاف کا سبب بھی یہی مرض انانیت ہے، الغرض اناپرستی ایک بنیادی سبب ہے جس کے نتیجے میں آج علماء کے مابین اختلافات کی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔

٢)تعصب :

ایک ناسور ہے جو اختلافات کا بڑا بنیادی سبب ہے. اور اس کے نتیجے میں، علماء کے الگ الگ ٹولے، تنظیموں کا الگ الگ اسٹیج، ٹوپیوں کا باہمی ٹکراؤ، مسالک کے مابین باہمی رسہ کشی، کفر وبدعت اور فسق ولعنت کے فتوے اورمختلف قسم کے تنازعات وجھگڑے ظاہر ہوتے ہیں۔ تعصب کی وجہ سے انسان اپنے دین وایمان کو بھول جاتا ہے، راہ حق سے بھٹک جاتا ہے، حق وصداقت سے دور ہوکر باطل پرستی اور فتنہ پروری میں لگ جاتا ہے، اور ایک دوسرے سے متنفر ہوجاتا ہیں۔

٣)علم کے باوجود جہالت :

اختلاف علماء کا آج ایک بڑا سبب علماء کا علم کے باوجود جہالت برتنا ہے۔ شرعی تعلیم قرآن وحدیث اور اسلاف امت سے وابستہ تاریخی حقائق کو جان کر بھی اسپر عمل پیرا نہ ہونا  اور جہالت برتنا جس کے نتیجے میں شدید ترین اختلافات رونما ہوتے جارہے ہیں۔ علماء کے طبقے سے لے کر عام افراد امت تک اختلاف کا ایک بنیادی عنصر جہالت ہے، جہالت کی اس بیماری میں علماء سے لیکر امت کا ہر ہر فرد  پوری طرح سے مبتلا ہے اور علماء کی اکثریت ایسی ہیکہ بسا اوقات ان پر جاہلوں کی دھونس کا غلبہ ہے یا پھر روپئے پیسے اور دولت کا رعب غالب ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو بلا علم کے اپنے کو عالم سمجھ بیٹھے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو بلا سند کے مفتی بنے بیٹھے ہیں۔ نیم ملاؤں کا ایک ہجوم ہے جو جہالت کی تاریکیوں کو پھیلانے اور علم وتحقیق کی روشنی کو مٹانے کے درپے ہیں۔ مستند علماء کی طرف رجوع اور اہل علم کی قیادت وسیادت کا فقدان ہے۔ کتنے ایسے علماء ہیں کسی کو کرسی سے پیار ہوتا ہے تو کسی کو اپنے مسلک سے جذباتی لگاؤ، کسی کو خاندان سے محبت ہوتی ہے تو کسی کو اپنی زبان سے جس کے نتیجے میں آپسی اختلافات ہوتے ہیں.

علماء کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت اسلامی تعلیمات کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ شروع کردیں، اورجب علم سے انکا رشتہ مضبوط ہوجائے حقائق پسندی اور حق پسندی ان کی طبیعت میں داخل ہوجائے، تو ان اختلافات کو دبایا جاسکتا ہے اور آپسی اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے۔ جہالت سے نکل کر حقائق اور علم تک، تعصب سے ہٹ کر اخوت و محبت اور انسانیت تک اور اناپرستیوں سے ہٹ کر اخلاص، وفا، ادائیگی حقوق اور دوسروں کی رعایت تک پہنچ کر ہم اختلاف کو ختم کرسکتے ہیں اور اگر اختلاف پیدا بھی ہوجائے تو بجائے اس میں ایندھن بننے کے شرعی اسلوب میں اس کے خاتمے کی کوشش کی جائے تو ہمارے لیے بہتر ہوگا ورنہ ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن کر رہ جائے گی للہ تعالیٰ ہمیں اختلاف، منافرت، تعصب، جہالت اور انانیت سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔