علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود
ابوالحسنات قاسمی
علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود !
گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود
” علم ” ایک ایسا عنوان ہے جس پر کہنے و سننے والے اور لکھنے و پڑھنے والے ازل سے طبع آزمائی کر رہے ہیں اور ابد تک کرتے رہیں گے، مگر جس قدر تشنگی روزِ اول میں تھی اسی قدر آخر تک برقرار رہے گی۔ صحیح بات تویہ ہے کہ ”علم ” ایک بھنور ہے جس میں پڑنے والے کو کنارہ نہیں ملتا۔
دریں ورطہ کشتی فرو شد ہزار
کہ پیدا نہ شد تختۂ بر کنار
علم کی تعریف:
کسی شے کی حقیقت کو جاننے کا نام علم ہے۔
اور رہی بات موضوع و غرض و غایت کی توجس طرح علوم مختلف ہیں اسی طرح ان کے موضوعات اور غرض و وغایات بھی جدا گانہ ہیں۔
بہر کیف! ” علم ” اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام (اسماء الحسنٰی) میں ”علیم ” بھی مذکور ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے اسم ذات ” اللہ ” کی تشریح و توضیح ابد الآباد تک ہوتی یا کی جاتی رہے گی مگر تکمیل نہیں ہوپائے گی، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے سبھی نام بھی باعتبار تشریح تشنۂ تکمیل ہی رہیں گے تا آنکہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ بلکہ اس سے زیادہ واضح الفاظ یا کلام الٰہی کی زبان میں یوں سمجھ لیجئے (قُلْ لَوْ کاانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا) (سورۃ الکہف ۱۰۹ ) ، یا (وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَۃأَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیم) ( سورۃ لقمان ۲۷)
کہ کلام الٰہی (اور اس کلام میں اسماء الحسنٰی بھی شامل ہیں ) کی کما حقہٗ تشریح و توضیح ممکن نہیں، بس اسی وجہ سے اسمِ اعظمِ الٰہی ” علیم ” سے صادر و مشتق ہونے والے علوم کی اقسام کا بھی کما حقہٗ احاطہ کرنا مشکل ترین امر ہے ۔
بہر حال ”علم ” کی تمام اقسام اور ان کی افادیت پر گفت و شنید کارے دارد تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چند اقسام جن پر بندۂ ناچیز کی کوتاہ بین نظر پہنچے گی اور بداہۃً جن علوم تک ذہنِ نارسا کی رسائی ہوگی ان پر کلام ہوگا، (واللہ العلیم والعلام وھو المعین والمستعان) ۔
علم کی تقسیم مختلف اعتبار سے کی گئی ہے اس لئے اس کی مختلف اقسام و انواع مختلف ہیں ۔
ایک معروف و مشہور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علم (اصلاً) دو طرح کے ہیں ” ا لعلم علمانِ، علمُ الادیان وعلم الابدان ”دین (شریعت ) کا علم اور بدن ( طب) کا علم۔
پس علم اول (علم الادیان) اساس ہے روح کی سلامتی کے لئے اور علم ثانی (علم الابدان) اساس ہے انسان کے بدن کی سلامتی کے لئے۔
موضوع کے لحاظ سے علم کی دو قسمیں ہیں :
۱) دینی علوم (جسے علوم شرعیہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے) اور
۲) دنیاوی علوم (جسے ہنر و فن سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے)۔
اب یہاں ٹھہر کر علومِ شرعیہ کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
علوم شرعیہ کی اہمیت:
” اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جتنے بھی انبیائے کرام کو مبعوث فرمائے، ان سب کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینا تھا اورایک داعی کے کردار میں سب سے بڑا عنصر علم ہوتا ہے۔ سردار انبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی میں آپ کو پڑھنے کا حکم دینا اور علم کا تذکرہ کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ علم اس دین ودنیا کو( اور آخرت کو) سمجھنے کی کنجی ہے، علم ہی کی روشنی میں دعوت کا کام پایہ ٔ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، شریعت کا علم ہمارے لیے کھانے، پینے، لباس اور دوا سے بھی زیادہ ضروری ہے، اس لیے کہ علم شریعت ہی سے دین ودنیا کی بقا ہے، علم عبادت کی بنیاد ہے”۔
اور علوم کی یہ تقسیم (کہ کچھ علوم دینی ہیں اور کچھ دنیاوی)محض موضوع کے لحاظ سے ہے، مگر اس کے معنی دین ودنیا کی تفر یق کے ہرگز نہیں، چنانچہ دنیوی علوم اگر بے ہودہ اور لایعنی نہ ہوں اور انہیں خدمت ِخلق، اصلاحِ معاش اور تد بیرِ سلطنت کی نیت سے حاصل کیا جائے تو وہ بھی با لو اسطہ رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے اور اس کے برعکس جب دینی علوم کی تحصیل کا مقصد محض دنیا کما نا ہو تو یہ علوم بھی با لواسطہ دنیا کے علوم کی صف میں آجاتے ہیں اور اس کے لیے احادیث نبو یہ میں سخت سے سخت وعید یں بھی آئی ہیں، مثلاً: ایک حدیث میں ہے: ’’من تعلم علمًا مما یُبتغی بہ وجہ اللّٰہ لا یتعلمہٗ إلا لیصیب بہٖ عرضًامن الدنیا لم یجد عَرَفَ الجنۃ یوم القیامۃ، یعنی ریحَھا‘‘ (مشکوٰۃ،کتاب العلم، الفصل الثانی، ص: ۴۳، ط: قدیمی)۔ ’’جس شخص نے وہ علم سیکھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے اور پھر اس کو متاعِ دنیا کا ذریعہ بنایا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا ۔ ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’من طلب العلمَ لیُجاریَ بہٖ العلمائَ اَولیُماریَ بہٖ السفھائَ اَویصرف وجوہَ الناس إلیہ اَدخلہ اللّٰہُ النارَ ‘‘(مشکوٰۃ،کتاب العلم،الفصل الثانی، ص:۴۳،ط:قدیمی) ’’جس شخص نے اس غرض سے علم حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم عقلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی تو جہ اپنی طرف مائل کرے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈالیں گے۔‘‘ بہر حال ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ دینی علوم بھی دنیا کے علوم بن جاتے ہیں اور دنیوی علوم بھی رضا ئے الٰہی اور طلبِ آخرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، گو یا اصل مدار مقاصد و نِیَّات پر ہے کہ اگر مقصد رضا ئے الٰہی ہے تو دنیوی علم بھی دین کے معاون ومددگار اور صنعت وحرفت کے تمام شعبے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے وسائل بن جاتے ہیں۔
پھر باعتبار ثمرات علم کی دو قسمیں ہیں:
۱)علم نافع
۲)علم غیر نافع
علم نافع: علم نافع سے مراد وہ علم ہے جو محض معلومات کا ذخیرہ ہی نہ ہو بلکہ اس علم کے ذریعہ سے قلب نور الٰہی سے منور ہو جائے ایسے علم کو علم نافع کہتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے علم سیکھا مگر اس سے اللہ کی رضا حاصل نہ کی نہ اسے سکھایا مگر دنیا سے عزت حاصل کرنے کے لئے وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا،(ابی داؤد، السنن: ۶۲۰؍، رقم: ۳۶۶؍، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ تعالی)۔اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ عاء فرماتے تھے ”أللھم إني أسألک علماً نافعاً ”
علم غیر نافع: وہ علم ہے جو بندے کو اپنے مالک حقیقی تک نہ پہنچائے جس سے انسان کو معرفت حق حاصل نہ ہو۔ ایسا علم جس سے انسان کو حقیقی فائدہ نہ ہو وہ علم غیر نافع ہے۔ جس سے معلومات کا ذخیرہ تو ہوتا ہے لیکن قلوب کے لئے نفع نہیں ہوتا۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا فرماتے تھے” اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع ” ’ ’اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو فائدہ مند نہ ہو۔‘‘
اب علوم دینیہ کی اقسام باعتبار اصل ”قرآن و احادیث ” ہیں اور باعتبار فرع (( ۱) علم اُخْروي، ۲)علمِ لاہوتی، ۳) علم کلّي، ۴) علم لدني، ۵) علم یقینی: ہیں ))۔
اور علوم دنیاویہ کی اقسام: فلسفہ(philosophy)،منطق (Logic)،تاریخ(History)،
جغرافیہ (Geography)، ہیئت(Body Since)، حساب (Account)، طب و جراحت (میڈیکل) (Medical and Surgery)، کمپیوٹر سائنس(Computer Since)، ، انجینئرنگ(Engineering)، (ریاضی) میتھ میٹکس(Mathematics)،ایگری کلچرل(Agricultural)، اور انڈسٹریل سائنس(Industrial Science) وغیرہ ہیں۔
اور پھر باعتبار سبب و ذریعۂ حصول کے دو قسمیں ہیں :
۱) علم لدنی
۲) علم اکتسابی (کسبی)
علم لدنی (کو علم وہبی، عطائی اورعلم ربانی اور علم حضوری بھی کہا جاتا ہے) جو بغیر کسی خارجی سبب کے خود بخود قلب میں من جانب اللہ آتاہو۔ قرآن میں ہے اٰتَٰینہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً (سورۃ الکہف، ۶۵) (تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا) جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم عطا کیا۔
یعنی جو علم قلب کے اندر کسی باطنی دروازہ سے آئے وہ ’’علم لدنی‘‘ کہلاتا ہے اللہ تعالیٰ نے خضر (علیہ السلام) کویہی اسرار غیبی اور باطنی حکمتوں اور مصلحتوں کا علم (جس کو علم تکوینی بھی کہتے ہیں ) عطا فرمایا تھا
علم اکتسابی (کسبی) قلب میں عام طور پر جو علم داخل ہوتا ہے وہ حواس ظاہری کے دروازوں سے داخل ہوتا ہے ایسے علم کو علم حصولی اور علم اکتسابی کہتے ہیں
بہر کیف آپ لوگوں ( مراد مجلس میں حاضر و مخاطب طلبائے عزیز ہیں ) کا علم علمِ کسبی کے زمرہ میں آتا ہے، اور یہ کام تنہا حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ متعلم کے ساتھ معلم کا ہونا ضروری ہے، اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہیکہ آپ لوگوں کی اس کامیابی کے پیچھے صرف آپ لوگوں کی ہی کد و کاوش کارفرما نہیں ہے بلکہ معلمین (آپ کے اساتذۂ کرام کی شبانہ روز کی التفات و مشفقانہ توجہات اور عرق ریزیاں، اور ساتھ ہی ساتھ ادارہ کے بانی،مبانی و منتظمین کی دعائے نیم شبی) بھی شامل رہی ہیں تب کہیں آپ حضرات اس قابل ہو ئے کہ اب نہ صرف یہ کہ آپ اپنی مادی ترقی کی راہ ہموار کرسکیں بلکہ آپ اس مقام کو پہنچ گئے کہ روئے زمین کے مختلف علاقوں و خطوں میں جاکر دین کی آبیاری اور دین کے پیاسوں کی سیرابی کے ا سباب فراہم کرنے جیسیے اہم امور کو انجام دے کر رضائے الٰہی حاصل کرسکیں۔
سالہا دیر و حرم میں زندگی روتی رہی
تب کہیں نکلا کوئی اس بزم سے دانائے راز
اور ان باتوں کے ساتھ ہی ضرورت ہے کہ آپ اپنے اندر روحانیت (Spirituality)بھی پیدا کریں اور صرف پیدا ہی نہ کریں بلکہ اس روحانی طاقت (spiritual power) کو عالمی سطح پر فوکس (Focus) کریں تاکہ پوری کائنات بقعۂ نور (electrify) ہوجائے۔
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
ہزار چشمہ تری گرد راہ سے پھوٹے
تبصرے بند ہیں۔