عشق حقیقی

سجاد احمد خان

ایک وقت تھا جب عشق کے مجنوں جنگلوں، پربتوں اور صحرائوں کو چلے جاتے تھے۔اور اسی صحرا نوردی میں انہیں عشقِ الہی عطا ہوتا تھا اور وہ وقت کے و لی عہد بنتے تھے۔۔۔ مگر آج کے عاشقوں کا بھی اپنا ہی رنگ ہے۔ایک الگ ہی چال ڈھال ہے۔۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ اگر محبوب نہ مانے اور عاشق کو دھتکار دے تو پہلے تو وہ دھمکیوں کے ذریعے اسے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب کام نہیں بنتا تو اسے مختلف طریقوں سے بدنام کر دیتے ہیں۔ اور اس واقعے کو مکمل طور پر بھلا دینے کے بعد ایک نئے عشق میں مبتلا ہوا جاتا ہے۔ یہ عشقِ صادق نہیں بلکہ عشقِ نفسانی کہلایا جائے تو زیادہ موزوں رہے گا۔ اگر بد قسمتی سے اسے کسی سے شدت کی لگن ہو جائے تو پھر وہ بے چارہ عشقِ لا حاصل کا مارا جہانِ عدم کو سدھار جاتا ہے۔ یا تو اپنے گھر میں موجود چوہوں کی دوا کھا کر یا پھر بستروں میں رکھنے والی فرنائل کی گولیاں کھا کر۔۔ اگر وہ بھی نا ملیں تو پنکھے سے لٹکنا اور کسی اونچی بلڈنگ سے کود جانا، یہی موصوف کے مرنے کے طریقے ہوتے ہیں۔ پھر خبر آتی ہے کہ ایک خوبصورت نوجوان حالات کی زبوں حالی کے باعث دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ یہ نہیں پتہ کہ جناب کو عشق کے مرض نے ایسی گھٹیا حرکت کرنے پر مجبور کیا کہ جس سے دنیا تو خراب کر ہی لی مگر قبر اور آخرت کا عذاب بھی مفت میں مول لے لیا۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

 صاحبو!۔۔۔۔ یہ تو تھا ایک پہلو۔۔۔ اب دوسرا پہلو!!!۔۔ اگر موصوف خوش قسمتی سے عشقِ لا حاصل کی بیماری سے کسی کرامت کی وجہ سے شفا یاب ہو جائے تو وہ کافی حد تک محفوظ رہتا ہے۔ اس کے بعد اسے اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری کا خیال آتا ہے۔ آج کے انسان بھی کیا خوب ہیں کہ جب اپنی من مانیوں کے بعد کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تو انہیں نیکی کا خیال آ جاتا ہے۔ رب، رسول، مذہب اور ماں باپ یہ سب کچھ مشکل کے وقت ہی کیوں یاد آتے ہیں ؟ کیا خوشی کے وقت ان کا کوئی حق نہیں ؟ اللّہ کو تب یاد کیا جاتا ہے جب امتحان سر پر ہوں، کاروبار ڈوب رہا ہو، پرائیز بانڈ نکلنے کا دن ہو، نتیجے کا دن ہو، کوئی مصیبت آجائے یا کوئی عزیز وفات پا جائے۔اے کاش کہ رب کی یاد خوشی کے وقت بھی آتی ہو۔۔۔۔ماں باپ کی فرمانبرداری کا خیال ناکامی سے پہلے بھی آ جائے۔۔۔۔۔۔!!!

بہرحال عشقِ لا حاصل کے بعد وہ ماں باپ کی طرف منہ کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ آپ جدھر چاہیں میرا رشتہ کر دیں مجھے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ سادہ لوح ماں باپ بیچارے بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا بہت سمجھدار ہو گیا ہے، تابعدار ہو گیا ہے۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ جناب ساری کاوشوں کے بعد ناکام ہو کر والدین کے پاس لوٹے ہیں۔ ماں باپ ہنسی خوشی رشتہ ڈھونڈتے ہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔ خوب شادیانے بجتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، رشتے دار، دوست احباب، اقرباء موصوف کی شادی کے موقع پر تشریف لاتے ہیں۔ مبارک باد پیش کرتے ہیں، سلامیاں دیتے ہیں، گلے ملتے ہیں۔ شادی کے چند ماہ بہت پیار محبت سے گزرتے ہیں۔ ماں بہو، نند، سسر، ساس، سالے سالیاں، شوہر، بھابھی، بھائی، بہن، سب میں بہت پیار ہوتا ہے۔ مگر افسوس! ہائے افسوس! کہ اس ہنستے بستے نگر کو کسی کی کالی شا نظر لگ جاتی ہے۔ ساس، بہو کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، نند اور بھابھی کے درمیان رزمِ حسد و انا چھڑ جاتی ہے۔

پورا گھر میدانِ جنگ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ شوہر سمجھدار ہو تو وہ سب کو سمجھا کے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یا پھر معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے نوجوان شادی کو ایک اینجوائے مینٹ کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔ مگر جب ان کو شادی کی تلخ حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو وہ نا سمجھی میں بہت سے غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ انہی جھگڑوں میں موصوف کے بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں، ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور روز گار کمانے کی دوڑ لگ جاتی ہے۔ ہر کوئی مصروفِ عمل نظر آنے لگتا ہے۔ طوفانِ نوح تھمنے لگتا ہے۔ مگر موصوف کی عمر ڈھلنے لگتی ہے۔ ماں باپ، بیوی، اور وہ خود بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور باقی کی ساری زندگی دوا دارو میں گزر جاتی ہے۔اولاد، اولاد کے تعلیمی

 اخراجات، گھر کے کھانے پینے کے اخراجات سے اسے اک پل فرصت نہیں ملتی۔ اس کی زندگی اجیرن بنجاتی ہے۔ شادی اسے عذابِ دردناک لگنے لگتا ہے۔ جس میں پل پل ایسے گزرتا ہے جیسے ریشم کے کپڑے کوکانٹوں بھرے شجر سے کھینچ کھینچ کر تار تار کر دیا جائے۔ اس کی حالت کسی دور دراز کے ویران ترین دشت میں غلطی سے پھنس جانے والے بے سروسامان و یگانہ انسان کی بھوک پیاس سے نڈھال حالت سے بھی بد تر ہو جاتی ہے۔ گلے شکووں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ مقدر قسمت کو لعن طعن کرنے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بس!!! یہی ہمارے عام معاشرے کے حالاتِ حقیقت حال ہیں جو ہر علاقے میں یکساں طور پر رونما ہو رہے ہیں۔ آج کل کے ہر فرد کے ساتھ اس طرح یا اس طرح سے ملتے جلتے حالات پیش آتے ہیں جن سے بعد میں نکلنا نا ممکن بن جاتا ہے۔

بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون مل ہی جاتا ہے۔۔۔۔ اللہ کا یہ فرمان ہر مسلمان نے سن رکھا ہے بلکہ زندگی میں ہزاروں دفعہ ہمیں یہ فرمانِ الہی سننے کو ملتا ہے مگر افسوس کہ ہم اس بات پر غور  نہیں کرتے۔ انسان کی کامیابی فقط اسلام اور اس کے سنہری اصولوں سے ہی عبارت ہے اور یہ بات ہمیں بچپن سے سکھائی جاتی ہے اور موت تک سکھائی جاتی رہے گی۔ انسان کی موت تک بہت سے ایسے موڑ آتے ہیں اور اللہ ایسے بہت سے اسباب پیدا فرما تا ہے جس میں مختلف لوگ مختلف اشکال میں اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں۔ شائد ہی دنیا میں کوئی فرد ایسا ہو جس تک ہدایت کا نور نہ پہنچا ہو۔ مگر کتنا بدبخت انسان ہے وہ کہ جس تک ہدایت کا پیغام پہنچے، مگر پھر بھی وہ انہی راستوں پر چلے جن پر چلنے سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

ہم شکوہ کرتے ہیں اپنی بے سکونی کا، بے چینی کا۔۔۔ مگر صاحبو!  ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے، اپنے اعمال کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ عشق کے نام کو بدنام کرنے والے ہم لوگ ہی ہیں۔ عشق تو ایک بہت ہی پاکیزہ، شفاف، اور سچا جذبہ ہوتا ہے جو ربِ کعبہ خود انسان میں پیدا کرتے ہیں۔ عشق فقط لڑکی کے

 عشق میں گرفتار ہونا ہی نہیں ہوتا، عشق میں تو ذات کا عشق، روح کا عشق شاملِ حال ہوتا ہے۔ عصمتیں پامال کرنے والے اور ہوس کی گندگی میں لپٹے ہوئے لوگ کیا جانیں کہ عشق کیا ہوتا ہے۔ یہ تو کوئی پوچھے تو بلہے شاہ سے پوچھے، گنج بخش سے پوچھے، شاہ ولی اللہ سے پوچھے، امام غوثِ اعظم سے پوچھے، علامہ اقبال سے پوچھے، صوفیا سے پوچھے کہ جو اللہ اور اس کے حبیب کے عشق میں ایسے گندھے ہوئے ہوتے ہیں کہ جنہیں دنیاوی و نفسانی تمنائوں کا خیال ِ بد تک نہیں گزرتا۔

بے شمار کتابیں موجود ہیں جن میں اسلامی تعلیمات بہت آسان الفاظ میں درج شدہ ہیں۔ یہ تحریر کوئی خاص نہیں ہے۔ بالکل عام باتوں پر مبنی ہے اور میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ اس تحریر کو بھی ایسے ہی عام انداز میں لیا جائے گا جیسے روز مرہ زندگی میں ہدایت کی طرف بلانے والی چیزوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔آج کل اگر کوئی ہم سے کہہ دے کہ آئودوست! نماز پڑھنے چلتے ہیں۔ تو افسوس!۔۔۔ کہ کہنے والے کو طعن و طشنیع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اسے حاجی، مولوی اور صوفی کہہ کے اسکی کہی ہوئی بات کو (جو نور ِ ہدایت کی طرف مائل کرنے والی ہوتی ہے) پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ پھربھی ہم مقدر کا گلہ کرتے ہیں، بے سکونی کا شکوہ کرتے ہیں، رات کو سوتے وقت ہمیں درد اور نیند کی دوا کھانے کے باوجود بھی چین نہیں ملتا۔ طبیعت میں چڑچڑا پن، چھوٹی عمر میں بال سفید ہو جانا، چہرے کی رنگت پیلی، زرد ہو جانا، جوڑوں کے درد ہونا اور اسی طرح کے مختلف مسائل کا شکار انسان مختلف دنیاوی دوا دارو پر ہزاروں روپے خرچ کرتا ہوا نظر آتا ہے مگر اس بات کو جاننے کے باوجود بھی سوچنے سے قاصر ہوتا ہے کہ اس کے ہر مرض کا علاج، ہر بے چینی و بے سکونی کا مداوا اسلام کے انتہائی پیارے اعمال میں موجود ہے۔ جن پر اس کا ایک روپیہ بھی ضائع نہیں ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔