یونیفارم سیول کوڈ: ہندوستان کے ثقافتی تنوع کا خاتمہ

محمد شاہ نواز عالم ندوی

ہندوستان ایک ثقافتی تنوع کا ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور پیروکار، مختلف خیالات ونظریات کے حامل افراد واقوام زندگی بسر کرتی ہیں۔ یہ اس ملک کی سب سے بڑی خصوصیت بھی ہے اور یہ کوئی نئی کھوج اور نئی اْپج نہیں ہے۔ برسہابرس سے اس چمنستان میں انواع واقسام کے پھول کھلتے ہیں اور اپنی اپنی خوشبوؤں سے مسام وطن کو معطر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ہمارے اس چمن کی صدیوں پرانی تاریخ رہی ہے کہ یہ ملک الگ الگ مذاہب، جداگانہ تہذیب وثقافت، صدیوں پرانی ریت ورواج، رہن سہن کے ڈھنگ وطریقوں، زندگی جینے کے اصول وضوابط اور سلیقوں کی آماجگاہ رہاہے اور اس اختلاف میں اتحاد ہی وہ تصورہے جو ہمارے وطن کو دوسرے ممالک اور عالم انسانی میں ایک ممتاز حیثیت واہمیت کا حامل بناتاہے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے ہمارا یہ خوبصورت چمن نظر بد کا شکار ہوگیاہے۔ فسطائی ذہنوں کا حکومت واقتدار پر قبضہ ہوگیاہے۔ فسطائیت کاگھناؤنا چہرہ جو کبھی پس پردہ رہاکرتاتھا اب کھل کر سامنے آگیاہے۔ ہندوستانی ثقافتی تنوع کو کچلنے کے لئے ہر ہتھیار سے لیس ہوکر میدان عمل میں سرگرداں ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ چمن کے رنگا رنگ پھولوں کو مسل دیا جائے اور یک رنگی کردیا جائے۔ یکساں سیول کوڈ، یونیفارم سیول کوڈ یا کامن سیول کوڈ اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔

یونیفارم سیول کوڈ کیاہے؟:

اس سے پہلے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ سیول کوڈ کے نفاذ سے کس کو نقصان ہوگا؟ ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ یونیفارم سیول کوڈ کی اصطلاح کو سمجھ لیں۔ یکساں سیول کوڈ کا ایک واضح مطلب جس کو ہم نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں رہنے والے مختلف طبقات میں غالب طبقہ یعنی اکثریتی طبقہ کے مذہبی، معاشرتی قوانین کو اس ملک کے تمام طبقات پر نافذ کردیا جائے اور اس بات کا پابند بنایاجائے کہ اس ملک کے تمام اقوام وملل اپنے رسم ورواج، عادات واخلاق، معاشرتی ومذہبی قوانین کو بھول کر اس پر عمل پیراہوں۔

 ایک سوال:

اس ضمن میں ایک سوال بہت اہم ہے کہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ سے قبل حکومت اور عدالت عظمیٰ (جو خود گاہے بگاہے اس کی حمایت کرتی نظر آتی ہے) کو یہ طے کرنا ہوگا کہ ہندوستان میں کس مذہب کا قانون نافذ العمل ہوگا؟ جبکہ حکومت یا عدالت جس کی وکالت کرتی ہے وہ تو اکثریتی طبقہ نہیں ہے۔ اس نظریہ سے اگر دیکھا جائے تو حکومت یا عدالت کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے اور وقفہ وقفہ سے یکساں سیول کوڈ کی دہائی دے کر مخصوص طبقہ (مسلمانوں ) کو ہراساں کرنے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہی کوشش اب بھی کی جارہی ہے۔ اگرچہ کہ ہندوستان میں یونیفارم سیول کوڈ پر سب سے پہلے1840ء میں مباحث شروع ہوچکے تھے۔ The Lex Loci Report of Oct-1940 کے مطابق اگرچہ کہ ہندوستانیوں کے لئے ان کے دیوانی وفوجداری مقدمات فیصل کرنے کے لئے یکساں سیول کوڈ کی تجویز رکھی گئی تھی اس کے تحت مندرجہ ذیل قوانین وضع کئے گئے تھے۔

Indian Penal Code, Civil Procedure Code, Crimnal Procedure Code, Indian Evidence Act, Transfer of Property Act, Law of Contract

یہ اور اسی قبیل کے دوسرے قوانین۔ لیکن مسلم پرسنل لاء اور ہندو لاء کو اس کوڈ کے حیطۂ عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس رپورٹ میں صریحاً لکھا گیا تھا کہ ہندوؤں، مسلمانوں، پارسیوں، سکھوں اور دیگر طبقات کے شخصی قوانین کو ہرگز نہ چھیڑا جائے۔ یونیفارم سیول کوڈ، یکساں سیول کوڈ یا کامن سیول کوڈ، آج ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کی بقاء کیلئے بلکہ مسلمانوں کے وجود کیلئے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہورہا ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میں ہندوستان کے کروڑوں مسلمان ان کی سیاسی و غیر سیاسی و مذہبی تنظیمیں یا پھر مسلم قیادت کے دعوے دار ناکام ہوگئے تو پھر مسلمانوں کی شناخت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ جائے گی۔ کیونکہ مسلمانوں کی شناخت کی بنیاد اسلام ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ ابھی تجاویز کے مرحلے میں ہے۔ یہ بذات خود کوئی قانون نہیں لیکن ایک ایسے قانون کی تدوین کیلئے راہ ہموار کررہا ہے جس کے تحت ہندوستان کے تمام عائلی مسلم قوانین کو جس کے ماخذ قرآن حدیث فقہ اور اجماع ہیں، دستور ہند کے آرٹیکل15اور19کے تحت غیر دستوری قرار دیتے ہوئے ان پر عمل آوری کو تعزیری جرم قرار دیا جائے گا۔

اسلامی قوانین کی حیثیت:

اسلامی قوانین جن کا تعلق نکاح، طلاق، وراثت، ترکہ، مہر، وقف اور اس کے علاوہ متبنیٰ کا قانون ہے، عائلی قوانین کہلائے جاتے ہیں۔ ان کے مجموعے کا نام مسلم پرسنل لاء ہے، جن کے لئے قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے Shariat Applicatio Act-1937(قانون تحفظ مسلم شریعت) مدون کیا گیا۔ واضح رہے کہ اسلامی قوانین کا مجموعہ کسی انسانی عقل وفہم کا نتیجہ نہیں ہیں، اس کا پورا کا پورا انحصار قرآن، سنت نبویؐ، فقہاء کی وہ آراء  جو انہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کی ہیں اور اجماع امت پر ہے۔ ملک کے دیگر قوانین کی طرح اس میں کسی طرح کتربیونت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دفعہ نمبر فلاں اب نافذ العمل نہیں ہے تو اس میں ترمیم کرکے کوئی نئی دفعہ تیار کی جائے۔ بلکہ اس کا ایک ایک حرف پورے ثبوت وشواہد کے ساتھ محفوظ اور منقول ہے۔ مسلم پرسنل لاء یا شریعت محمدیؐ، الٰہی قانونGod Made Lawہے۔ یہMan Made Lawانسانی ذہن کی اختراع نہیں۔ پارلیمنٹ یا اسمبلی نے مسلم قوانین کو وضع نہیں کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء صرف مسلمانوں پر لاگو ہوتا ہے ان ہی کے لئے قابل عمل ہے۔ ہم کسی غیر مسلم سے بالجبر مطالبہ نہیں کرسکتے نہ اسے مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لاء کو تسلیم کرے یا اس کی مطابقت میں زندگی گذارے، اسی لئے فرمان الہی ہے ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ (تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرا دین) اسی طرح دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو بزورقوت بازو مجبور نہیں کرسکتی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے انسان کے وضع کردہ قوانین پر عمل کریں۔ لیکن دنیا کی یہی طاقت بالفرض محال قانون کی شکل میں ہمارے سامنے آئے تو پھر ہمارا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟ کیا ہم انسان کے وضع کردہ قانون کو جو ہمیں شریعت محمدیؐ پر عمل کرنے سے روکتا ہے تسلیم کرلیں یا پھر اس کے خلاف آمادہ پیکار ہوجائیں ؟یہ ایک سوال ہے جس پر ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے۔ مسلم پرسنل لاء Codified Lawنہیں ہے۔ تاریخی شواہد سے ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود یا آمد916ء  سے ثابت ہے لیکن کسی ہندو راجا نے مسلم قوانین میں مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح انگریز بھی ہندوستان میں سربرآرائے سلطنت ہونے کے بعد1858ء سے1917ء تک ایسی کوئی جرآت رندانہ نہیں کی جس کی رو سے مسلمانوں کو ان کے پرسنل لاء پر عمل کرنے سے روک دیا جائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلمان ایسی کسی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ایسی کوشش ملک میں خانہ جنگی و نراج کو جنم دے گی۔ جس کا مقابلہ کرنا حکومت کیلئے کارے دارد ثابت ہوگا۔

یکساں سیول کوڈ کا خواب:

ملک کی آزادی کے بعد دستور ہند کی صورت گری کے مرحلے نے بعض پیچیدہ مسائل کو جنم دیا۔ جن میں سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ تھا یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے خواب کی تعبیر۔ دستور ساز اسمبلی میں اس مسئلے پر زوردار مباحث ہوئے۔ ارکان کی اکثریت کا رجحان یہ تھا کہ جدید ہندوستان کی تعمیر کیلئے سماج میں سدھار وقت کی ضررت ہے۔ اس کے لئے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بیچ ایک ہی قانون کی تشکیل ضروری ہے تاکہ انھیں صحیح معنی میں سماجی انصاف کے ثمرات حاصل ہوں۔ بعض قوانین کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے ان میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ لیکن مسلم پرسنل لاء کو ایسی کسی ترمیم کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔ یہ وقت کی مصلحت تھی۔ لیکن ہماری نظر میں شاید مسلمانوں کے تئیں یہاں بھی انصاف نہیں کیاگیا کہ ایک طرف آرٹیکل25 کے تحت دستور ہند نے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی اور اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذارنے کی مکمل ضمانت دی۔ دوسری طرف آرٹیکل44کی رو سے ریاستی حکومتوں کو رہنمایانہ اصول کے مطابق پابند کیا گیا کہ وہ یکساں سیول کوڈ کے لئے راہ ہموار کریں۔ اس دفعہ کے تحت یکساں سیول کوڈ کے لئے دروازے کھلے رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ مناسب وقت پر حکومت وقت حالات کے مدنظر یکساں سیول کوڈ مدون کرے گی۔ تاکہ مرد و زن کے حقوق کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ آرٹیکل15 کے تحت مساواتEqualityکی ضمانت کی تکمیل ایسے ہی قانون کے ذریعہ ہوسکتی ہے، شاید یہی عدالتوں کا رجحان بھی ہے، کیونکہ مسلم پرسنل لاء آرٹیکل15دستور ہند کے تحت دیئے گئے مساویانہ برتاؤکی ضمانت کی نفی کرتا ہے۔ یہی دفعہ جو شہریوں کے بیچ ذات پات رنگ و نسل و مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا، مسلم پرسنل لاء کے لئے سم قاتل ثابت ہورہا ہے۔ ہندوستانی سماج کے بعض ٹھیکیداروں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے کہ ہندو لاء کے تحت ایک سے زیادہ شادیاں ہندو مرد کیلئے غیر قانونی اور ساتھ ہی ساتھ دفعہ494 تعزیرات ہند کے تحت مستوجب سزا ہیں لیکن مسلمانوں کیلئے ’’نعمت‘‘ ہے۔ ہندو لاء کے تحت دوسری بیوی کو ’بیوی‘ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے، نہ اسے بیوی کاStatus (رتبہ) دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مسلمان بیویوں کو نہ صرف قانوناً ’بیوی‘ کاStatusحاصل ہے بلکہ وہ شوہر کی وراثت میں حصہ دار بھی ہیں۔ آیات 20, 21, 129سورہ نساء اور آیات7,33 سورہ نساء۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یکساسیول کوڈ ایک طرف شریعت اسلامی میں مداخلت کی راہ ہموار کرتا ہے تو دوسری طرف ہندوستانی ثقافتی تنوع کے لئے بھی زہرہلاہل سے کم نہیں ہے۔ چونکہ یکساں سیول کوڈ جس قدر مسلم پرسنل لاء پر اثر اندا ز ہوگا اسی قدر دوسرے مذاہب، سکھ، جین، بودھ، عیسائیت پر اثر انداز ہوگا۔ اگر یکساں سیول کوڈ سے مسلمانوں کو پریشانی ہے تو دوسروں کو بھی پریشانی ہونی چاہئے اور ہے بھی جس کا اظہار وقفہ وقفہ سے ہوتا رہتاہے۔ لیکن مسلمانوں پر اپنی شریعت تحفظ کے ساتھ ملک کی سالمیت اور تہذیب وتمدن کے اختلاف کے سایے میں ملک کے حسن کو برقرار رکھنے ذمہ داری زیادہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔