غزل۔ صبج اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

عزیز نبیل

صبج اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

اپنی آواز کو تصویر بنائے ہوئے ہیں

اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ

کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں

ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں

چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچا ئے ہوئے ہیں

ہم نے خود اپنی عدالت سے سزا پائی ہے

زخم جتنے بھی ہیں اپنے ہی کمائے ہوئے ہیں

اے خدا بھیج دے امّید کی اک تازہ کرن

ہم سرِ دشتِ دعا ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں

ہر نیا لمحہ ہمیں روند کے جاتا ہے کہ ہم

اپنی مٹھّی میں گیا وقت چھپائے ہوئے ہیں

تبصرے بند ہیں۔