ملک کے موجودہ حالات اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں

 رفیع الدین حنیف قاسمی

ہمارا ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک رہا ہے، یہاں اہنسا، بھائی چارہ، بقائے اہم، امن وامان کی حکمرانی رہی ہے، لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان میں عدمِ تحفظ کا ماحول بڑھتا جارہا ہے، لوگوں خصوصا مسلمانو ں کے لئے چین سے جینا دوبھر کیا جارہا ہے، ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ؛ بلکہ غنڈ ہ گردہاور پیشہ ور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے قانون کو ہاتھ میں لے کر مذہب کے نام پر خوف اور تشدد کا ماحول پیدا کر رہے ہیں، ، ملک کو اس کے سیکولزم اور جمہوریت کی راہ اور ڈگر سے ہٹاکر ہندوراشٹر بنانے کا خواب تنگ ذہن لوگ دیکھ رہے ہیں، وہ اس ملک میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو یکا وتنہا اور بے دست وپا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے، گائے کے تحفظ کے نام پر اور ’’لوجہاد‘‘ جیسے غلط اور نامناسب اصطلاحات کو ایجاد کرکے اس کے گھیرے میں مسلمانوں کو لا کر ان کو مارا پیٹا، ان کو موت کے گھاٹ تک اتارا جا رہا ہے، اور ان کو خوف ودہشت کے ماحول میں جینے پر مجبور کیا جارہا ہے، مسلمانوں کو ان مسائل کے نام پر ناکردہ جرائم کی سزا دی جارہی ہے، وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر یوپی چیف منسٹر ادھتیہ ناتھ کے بحیثیت وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے انتخاب اور آئندہ موہن بھاگوت آر یس یس کے سربراہ کا نام بطور آئندہ صدر جمہوریہ کے پیش کر کے جس قسم کے ہندوستان کا تصور دینے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ملک کے لئے نہایت خطرناک اور اس کی سیکولر شبیہ اور ملک کی سالمیت کے لئے نیک شگون نہیں ہے، ویسے تو یہ سب آر یس یس کے کارندے ہونے کے ناطے خاموش طریقے پر ہندو تو ذہنیت کے پنجے گاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، دادردی اور الور جیسے سانحات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی کس بات کی غماز ہے؟ کیا وہ اس قسم کی غنڈہ کردی کو شہ دینا اور اس کی ہمت افزائی نہیں ہے؟ ویسے تو موجودہ حکومت جو اس وقت لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانو ں میں اکثریت میں آگئی ہے، اس سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ یہ ملک کے مسلمانوں کا تحفظ کا ذمہ لیتی ہے، ملک کے ہر کونے کونے میں آ ر یس یس، بجرنگ دل، ویشو ہند پریشد او ر شیوشینا اور بی جے پی کے کارکنان ہردم مارنے توڑنے اور گردن زدنی کی بات کہہ رہیں ، ہر شخص اپنے راگ الاپ رہا ہے، ہر اس فیصلہ پر جو آر یس ایس اور ہندو توا تنظیموں کی مانگ ہے، گائے اور خصوصا بابری مسجد کے حوالہ سے بے تکے اور پر تشدد اور عدم تحفظ والے بیانات کا سلسلہ زور پکڑتا جار ہا ہے، آدھے سے زائد ہندوستان پر حکمران بی جے پی اور اس کے ہندوتوا نظریہ سے شہہ پا کر ملک میں ہر سمت غیر معلنہ ایمرجنسی کے سے احوال پید اکئے چارہے ہیں، نام ونہاد گئو رکھشک دن بدن دلیر ہوتے جارہے ہیں، بلکہ ان ریاستوں میں بھی حالات ابتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جہاں بی جے پی حکمراں نہیں ہے، اشتعال انگیزی اور غلط بیانات اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے ہر جگہ اور ہر ریاست میں حکمرانی کے خواب دیکھے جارہے اور ہر جگہ عدم تحفظ کا ماحول بنایا جارہا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی تصویر سامنے آرہی ہے، یہاں ـتک غیر ملکی اخبارات اور نیوز ایجنسیاں بھی ہندوستان کی بے چینی اور خوف کے ماحول کا ذکر کررہی ہیں، بی جے پی کی سخت ناقد ممتا بنرجی کے سر کاٹ کر لانے پر ایک بی جے پی لیڈر 11 لاکھ روپیئے بطور انعام دینے کی بات کہی ہے، انتخابات کے موقع سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں دھندھالی کے مسئلے نے بھی بی جے پی کے قانونی حکمرانی پر سوال کھڑے کردیئے ہیں، اگر چہ الیکشن کمیشن اس کا انکار کر رہا ہے، دو دفعہ کے ٹرائیل یہ بات جگ ظاہر ہوچکی کہ کوئی بھی بٹ دبائیں ووٹ کمل کو جار ہا ہے، جس ووٹنگ کی بنیاد پر نمائندے منتخب ہو کر حکمراں بنتے ہیں وہی شک کے دائرے میں آجائیں تو جمہوریت کیا معنی رکھتی ہے؟س تعلق سے الیکشن کمیشن بالکل انکار کر رہا ہے کہ ای وی ایم میں تبدیلی یا چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے، لیکن کیجروال نے اس صورت حال کو دیکھ کر الیکشن کمیشن کو بھی حکمراں جماعت کا حلیف قرار دے دیا ہے، اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن خود نہیں چاہتا کہ بی جے پی کے علاوہ کسی کی حکمرانی برقرار رہے، اس کے علاوہ 16اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے اس طریقہ ووٹنگ پر شک وشبہات کا اظہار کیا ہے، اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ملک کے ہر سیکولراور انصاف پسند شہری کے لئے یہ نہایت مایوس کن اور ملک کی سالمیت اور بقائے باہم کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے، خود اپوزیشن پارٹیوں نے پورے ملک میں پیدہ شدہ خوف اور عدم تحفظ کے ماحول، دادری، الور اور ای ویم اور حکمرانی کے لئے اکثریت کے بجائے گورنروں کے عہدو کے غل استعمال کا حوالہ دے کر کانگریس سمیت 13اپوزیشن پارٹیوں نے صدر جمہوریہ سے اس پیدا شدہ صورتحال میں مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ جیا بچن اور جسٹس کاٹجو نے بجا کہا ہے کہ یہاں عورتوں اور انسانیت کے تحفظ کی تونہیں صرف گائے کی تحفظ کی بات ہورہی ہے، گائے کے تحفظ کے لئے انسانیت کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، ویسے تو یوپی سمیت کئی ایک ریاستوں میں مسلمانوں نے ہندو دھرم اور ملک کی سالمیت کے خاطر گائے کھا ناتک چھوڑ دیا ہے، محض شک کی بنیادپر یا صرف اپنے یہاں گائے رکھنے یا گائیوں کی پرورش اور دودھ کی بیوپار کے لئے گائیوں کے رکھنے کو گائیوں کی اسمگلنگ سے تعبیر کر کے ان کو مارا پیٹا اور بلکہ موت کے گھاٹ تک اتارا جارہا ہے، کیا اسے قانونی کی حکمرانی کہی جائے؟ پورا میڈیا مسلمانوں کے عائلی مسائل کو لے کر چند نام ونہاد مسلمان عورتوں کی باتوں میں آکر خصوصا طلاق ثلاثہ کے خلاف مسلمان عورتوں کی زبانی ہمدردی میں رات ودن قلابے ملا ر ہا ہے، اگر اس وقت یہ کہیں بے جا نہ ہوگا کہ جمہوریت کے چار ستون ( عدلیہ، پارلیمنٹ، میڈیا اور انتظامیہ ) پر بی جے پی حکمراں ہوچکی ہے، رہے سہی امید کی کچھ کرن باقی ہے تو بس سپریم کورٹ سے، اب یہ حکمراں پارٹیاں من چاہے فیصلے نافذ کرواسکتے ہیں۔

ایسے حالات میں جہاں ہمیں یکجا ہو کر ہندوستانی کے جمہوریت کو ثابت کرنا ہے، وہی اپنے وجود کے احساس دلانے کی ضرورت بھی ہے، ہمیں مذاہب ومسالک کے اختلافات سے بالائے طاق ہو کر یکجٹ ہو کر ملک کی سالمیت اور ملک جمہوریت اور اس کے بقا ء کے جدوجہد کرنا ہے، اسلام کے پیغام امن وامان کو عام کرکے اور انسانیت وہمدردی اور اپنوں اور غیروں کے کام آکر دوسروں کے دلوں میں حکمرانی کرنا ہے، ہمیں تعلیم اور ثقافت سے آشنا ہو کر ملک کی ترقی کے لئے اپنا رول ادا کرنا ہے، جہاں ہمیں اپنے ر ب سے اپنے تعلقات کو استوارکرناہے، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمارے اعمال کے نتیجے میں یہ حکمراں ہم پر مسلط نہیں کئے جار ہے؟ ’’اعمالکم عمالکم‘‘ (تہارے اعمال ہی تمہارے حکمراں ) اپنے اعمال کے نتیجے میں ہم پر حکمراں مسلط ہوتے ہیں۔

ایسے حالات میں مسلمانوں کو چند ایک امور پر عمل کرنا ہوگا۔

1۔ پہلے تو اپنی بد اعمالی پر اللہ کے روبرو رونا گڑگڑانا اور معاف کے خواستگار ہونا ہے، اللہ غفور رحیم ہے۔ رجوع اور انابت إلی اللہ کی کیفیت ہر دم اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ یہ حکمرا ں بس ہمارے اعمال بد کا نتیجہ ہیں۔

2۔ دوسرے یہ کہ تمام مسلمانوں کو بلا لحاظ مذہب ومسلک کے یکساں اور یکجا ہونا ہے، اگر چہ حالات نے تمام مسلمانوں کو یکجا کردیا ہے، وہ اس وقت اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ باہم سر جوڑ کر اپنے مسائل کا حل کریں، جس کی واضح مثال توقیر رضا صاحب کی دار العلوم کی علماء اور اکابر سے ملاقات ہے، اسی طرح تمام فرقوں اور جماعتوں بحیثیت ایک رسول کے امتی کے یکساں ویکجا ہونا ہے۔ اور مسلمان پرسنل بورڈ کے پینل تلے سب کا یکجا ہو کر مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کے معاملے میں لا ء کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے عائلی مسائل میں عدم مداخلت کے تعلق سے جمع کردہ دستخطوں کی پیش کشی کے موقع سے سب نمائندو ں کا پیش ہونا ہے۔

3۔ اپنے دعوت کے فریضے کو اچھی طرح سمجھنا ہے، ہمیں خیر امت کا لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ ہم دوسروں کی نفع رسانی کے لئے مبعوث کے گئے ہیں، اس لئے دعوت کے فریضہ کو اپنے برادران وطن میں نہایت حکمت اور خوبی کے ساتھ پیش کرنا ہے، جس کا نقشہ قرآن کریم میں یوں بتایا گیا، یعنی حکمت اور موعظمت کے ذریعے اسلام کی حقانیت اور سچائی کو اس طرح ثابت کرنا ہے اور برادران وطن کے ساتھ اچھے اور خوب تر انداز میں اسلام کے دلائل اور حقانیت کو ثابت کرنا ہے، کہ وہ بجائے ہم سے دشمنی کے دوستی پر آمادہ ہوجائیں ۔ یہی وہ سب سے بڑا ہتھیار جس کے ذریعے ہم غیروں کے دلوں میں جگہ بناسکتے ہیں۔

4۔ یہ کہ ہمیں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہو کر اپنے وجود کوملک کے لئے مفید ثابت کرنا ہے کہ ہم میں کچھ ماہر انجنیر، ڈاکٹر، سائنس دان او رماہرین علوم وفنون کچھ ایسے ہوں کہ جن کے ذریعے تمام ملک وقوم بلا تفریق خدمت کرسکیں ، لیکن اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ یہ افراد ساتھ میں دینی ذہن کے حامل ہوں ، ورنہ دین بیزای کے اس ماحول میں دین بیزا ر شخص امت مسلمہ کے لئے مفید نہیں ؛ بلکہ مضر بن جائے گا۔ آج ملک کٹر ذہنیت رکھنے والے ہندوستا ن میں ہمارے وجود سے ہی بیزا ر ہیں ، ہم اپنے عمل سے اور اپنے کام سے اور ملک اور قوم کی خدمت کے ذریعے اپنا وجود ثابت کریں ۔ ہم اپنے کچھ انجنیر، کچھ ڈاکٹر س اور سائنسداں ایسے پختہ کار اور ایمان وعقیدہ کے حامل اور ملک کے وفادار پیدا کرنے ہیں جن کے چلے جانے سے یہ ملک تہی دامن اور پسماندہ ہوجائے ااور اپنی بے بسی اور یتیمی کو محسوس کرے۔ جس کے لئے دینی ماحول عصری تعلیم کا ٹھوس اور مضبوط نظام قائم کرنا ہے۔

5۔ حالات اور مشکلات کے اس دور میں مسلمانوں کو دینی وعصری تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہو کر سیاست میں سرگرم حصہ لینے کی ضرورت ہے، چھوٹے اور بڑے پیمانے پر سیاست میں حصہ لے کر اپنی قوت وطاقت کو ثابت کر کے بجائے حالات سے سمجھوتہ کرنے یاحالات کو اپنے حق میں کرنے کی درخواست کر نیکے ہم خود اس پوزیشن میں آجائیں کہ ہم خود حالات بناسکیں گے، جس سیاست میں ملکی حالات اور مسلمانوں کے تناسب اور سیاست میں شامل ہو کر ملک اور جمہوریت کے حق میں جو بہتر ہوسکتا ہے اس کے لئے جدوجہد کرنا ہے، جس کی تائید وثوثیق بڑے بڑے علماء جیسے سلمان حسنی ندوی وغیرہ اس طرح سیاست سرگرم مولویوں اور علماء کی ہمت افزائی کر رہے اور غیر بھی اس کی ترغیب دے رہے کہ کب تک یہ کاسہ لیسی کی پالیسی اپنائے رہے گے، بی جے پی اور آریس یس نے بھی اپنا سفر یکلخت طئے نہیں کیا؛ بلکہ انہوں نے 1925ء سے ہندوراشٹر بنانے کی جدوجہد شروع کی تھی، آج تقریبا ایک صدی پر مشتمل ان کی جدوجہد حقیقت کا روپ دھار رہی ہے تو اس میں تعجب خیزی کی بات کچھ نہیں ہے۔

6۔ میڈیااس دور کی وہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، آج جو ملک کے حالات ہیں یہ میڈیا کی دین ہے، سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا تو کوئی میڈیا سے سیکھے، ذہن ودماغ میں وہی بات بیٹھتی ہے جس کی میڈیا گردان کرتا ہے، آج کل 90فیصد میڈیا پر حکمراں طبقہ قابض ہے، 10فیصد جو میڈیا مثبت ذہنیت رکھتا ہے اس کی آواز نقارخانے میں طوطے کی آواز ثابت ہورہی ہے، یہ جس کو چاہے دیش بھگت ٹھہرادیں اور جس کو چاہیں دہشت گرد اور مجرم بنا کر پیش کریں، آج ہندواور مسلمانوں میں جو نفرت کا بیچ بویا جارہا ہے یہ میڈیا کی دین ہے، جس میں یہ خصوصا مسلمان حکمرانوں کے دور حکومت میں ہندؤوں کے ساتھ انصافی، ان کے مندروں کے توڑنے، ہندو عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے، مردوں کو غلام بنا کر رکھنے، بابری مسجد کے رام مندر کی غصب کردہ زمین پر بنائے جانے اور مسلمانوں گاؤں ماتا کے قاتل اس طرح کی زہر افشانی کے ذریعے ہندوؤں کی ذہن سازی کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیچ بوئے جارہے ہیں، اس لئے میڈیا کی طاقت وقوت اور اس کے ذہن سازی میں کردار کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔ امام حرم شیخ سدیس نے بھی یہ مشورہ دیا تھا کہ میڈیا کے ذریعے اپنی آواز کو مضبو ط کرو۔

8۔ ان احوال میں ہمت ہار کر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہنا ہے، قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے، تم کمزور نہ پڑو، اور نہ غم زدہ ہو، اگر تم حقیقی مومن رہوگے تو کامیابی تمہارے ہی قدم چومے گی،( آل عمران: 139) یعنی اللہ کے ساتھ لو اور لگاؤ کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم عمل ہونا ہے، اپنے اعمال کی درستگی کے ساتھ مذکورہ بالا میدانوں میں کام کرنا ہے، تب کہیں جاکر کامیابی سے ہمنار ہوسکیں گے، اور ایک جگہ فرمایا : اگر تمہیں زخم پہنچے ہیں تو تمہارے مد مقابل کو بھی اس طرح کے زخم پہنچے ہیں، یعنی تمہارے جو مد مقابل ہیں وہ بھی چوٹ کھائے، انہیں بھی ناکامیوں اور نامرادیوں سے واسطہ پڑا ہے، ایک لخت اس منزل تک نہیں پہنچے، اس کی پیچھے انہوں نے جدوجہد کی ہے، کوشش کی ہے، ہم آپس میں بس ایک دوسرے سے دست وگریباں اور خوابِ خرگوش میں مدہوش رہے ہیں، مد مقابل نے میدان میں جٹ کر کام کیا ہے، جس کا یہ پھل ملا ہے، آج علامہ اقبال کے اس عقابی روح کی ضرورت ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔