قرآن اور جدید سائنس

احیدحسن

 قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتاہے:

 وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ

ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں ‘‘
عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں ‘‘ بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہوں۔ عصرحاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھتا ہے۔ یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔

غور فرمائیے کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، اس کے باوجود متشکک ذہین رکھنے والے بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں فلکیاتی حقائق کا موجود ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ عرب اس علم میں بہت ما ہر تھے۔ فلکیات میں عربوں کی مہارت کی حد تک تو ان کا خیال درست ہے لیکن اس نکتے کا ادراک کرنے میں وہ ناکام ہوچکے ہیں کہ فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا۔
علاوہ ازیں اوپر بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق، سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ترقی کے عروج پر تھے لہٰذا قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کسی بھی طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار نہیں دئیے جا سکتے۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لئے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔

پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔

وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی

ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کئے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔

پھلوں میں نر اور مادہ کا فرق:

وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن

ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے ہیں۔

اعلٰی درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار انکے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نراور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بارآور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضاہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔

پودوں کی بعض انواع میں غیر بارآور (non fertilized) پھولوں سے بھی پھل بن سکتے ہیں۔ (جنہیں مجموعی طور پرپارتھینوکارپک فروٹ (parthinocarpic fruit) کہا جاتا ہے) ان میں کیلے کے علاوہ انناس، انجیر، مالٹا اور انگور وغیرہ کی بعض اقسام شامل ہیں۔ ان پودوں میں بھی بہت واضح صنفی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔

وَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْ جَیْنِ

ترجمہ:۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں ہر چیز کے جوڑوں کی شکل میں ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ انسانوں، جانوروں، پھلوں اور پودوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ بجلی کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہو کہ جس میں ایٹم منفی بار والے الیکٹرونوں اور مثبت بار والے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوڑے ہو سکتے ہیں۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْ وَاجَ کُلَّھَا وَ مِمَّا تُنْبِت ُ الْاَرْضُِ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ

ترجمہ:۔ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انہیں دریافت کرلے۔

جانوروں اور پرندوں میں معاشرے کا وجود:

وَمَا مِنْ دَ آ بَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰئِر یَطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلَّآ اُ مَمُ اَمْثَا لُکُمْ

ترجمہ:۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تہماری طرح کے معاشروں میں (رہتے )ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جانور اور پرندے بھی معاشروں (communities) کی شکل میں رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان میں بھی ایک اجتماعی نظم و ضبط ہوتا ہے۔ وہ مل جل کر رہتے ہیں اورکام بھی کرتے ہیں۔

پرندوں کی پرواز:

اَ لَمْ یَرَ وْ ا اِ لَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآ ئِ ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِ لّا اللّٰہ ُط اِ نَّ فِی ذَ ٰلِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْ مٍٍ یُّئْو مِنُوْنَ ہ

ترجمہ:۔ کیا ان لوگوں نے کھبی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کس نے انکو تھام رکھا ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔

ایک اور آیت مبارکہ میں پرندوں پر کچھ اس انداز سے بات کی گئی ہے۔

اَوَ لَمْ یَرَوْ ا اِ لَی الطَّیْرِ فَوْ قَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ ط مَا یَمْسِکُھُنَّ اِ لَّا الرَّ حْمٰنِ ط اِ نَّہ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْرُ ہ

ترجمہ :۔ یہ لوگ اپنے اوپر اُڑنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سیکٹرتے نہیں دیکھتے ؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو۔ وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

عربی لفظ اَم’سَکَ کا لفوی ترجمہکسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا، روکنا، تھامنا، یا کسی کی کمر پکٹر لینا ہے۔ مذکورہ بالاآیت میں یمسکھن سے اس بات کا اظہار ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پرندوں کو ہوا تھامے رکھتا ہے۔ ان آیات ربانی میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ پرندوں کے طرز عمل کا مکمل انحصار انہی قوانین پر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ (جنہیں ہم قوانین فطرت کے نام سے جانتے ہیں )

جدید سائنسی معلومات سے ثابت ہو چکا ہے کہ بعض پرندوں میں پرواز کی بے مثل اور بے عیب صلاحیت کا تعلق اس وسیع تر اور مجموعی منصوبہ بندی (programming) سے ہے جو انکی حرکات و سکنات سے متعلق ہے۔ مثلا ہزاروں میل دور تک نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی جینیاتی رموز (Genetic codes) میں انکے سفر تمام کی تفصیلات و جزیّات موجو د ہوتی ہیں۔ جو ان پرندوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ نہایت کم عمری میں بھی لمبے سفر کے کسی تجربے کے بغیر، کسی رہنما کے بغیر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لیں اور پیچیدہ راستوں سے پرواز کرتے چلے جائیں۔ بات صرف سفر کی یک طرفہ تکمیل ہی ہر ختم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ وہ ایک مخصوص تاریخ پر اپنے عارضی مسکن سے پرواز کرتے ہیں اور ہزاروں میل واپسی کا سفر کرکے ایک بار پھر اپنے گھو نسلوں تک بالکل ٹھیک ٹھیک جا پہنچتے ہیں۔

پروفیس ہمبر گر(Humberger) نے اپنی کتاب پاور اینڈ فریجیلٹی میں مٹن برڈ نامی ایک پرندے کی مثال دی ہے جو بحر الکاہل کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ نقل مکانی کرنے والا یہ پرندہ 24,000(چوبیس ہزار) کلو میٹر کا فاصلہ 8کی شکل میں چکر لگا کر طے کرتا ہے۔ یہ اپنا سفر چھ ماہ میں پورا کرتاہے اور مقام ابتداء تک زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی تاخیر سے واپس پہنچ جاتا ہے۔ ایسے کسی سفر کے لئے پیچیدہ معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ جو اس پرندے کے اعصابی خلیات (nervous cells) میں محفوظ ہونی چائیں۔ یعنی ایک باضابطہ پروگرامکی شکل میں پرندے کے جسم میں موجود اور ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ اگر پرندے میں کوئی پروگرام ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہو تاکہ اسے تشکیل دینے والے کوئی پروگرامر بھی یقینا ہے۔

شہد کی مکھی اور اس کی مہارت:

وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا ط

ترجمہ:اور دیکھو تہمارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتےّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔

وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ عام معنوں والا رقص نہیں ہوتا بلکہ اسکا مقصد شہد کی کارکن مکھیوں (Worker bee) کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ پھول کس سمت ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لئے انہیں کس انداز سے پرواز کرنا ہو گی۔ تا ہم شہد کی مکھی کے بارے میں یہ ساری معلومات ہم نے جدید فوٹو گرافی (photography)اور دیگر پیچیدہ مشاہداتی ذرائع ہی سے حاصل کی ہیں۔ لیکن ملا حظہ فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں قرآن عظیم وشان نے کتنی صراحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو خاص طرح کی مہارت عطا فرمائی ہے جس سے لیس ہو کر وہ اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے تلاش کر لیتی ہے۔ ایک اور توبہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں شہد کی مکھی کے لئے جو صنف استعمال کی گئی ہے، وہ مادہ (female) کی ہے (یعنی، فَاسُلِکی اور کُلی) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غذا کی تلاش میں نکلنے والی شہد کی مکھی مادہ ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر سپاہی یا کارکن شہد کی مکھی بھی مادہ ہی ہوتی ہے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ شکسپیر(Shakespear) کے ڈرامے ‘ہنری دی فورتھ میں بعض کردار شہد کی مکھیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (شہد کی) مکھیاں سپاہی ہوتی ہیں اور یہ کہ اُنکا بادشاہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شکسپیسر کے زمانے میں لوگ یہی سمجھتے تھے۔ اُنکا خیال تھا کہ شہد کی کارکن مکھیاں نر ہو تی ہیں اور وہ شہد کی بادشاہ مکھی (نر) کو جو ابدہ ہوتی ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ شہد کی کارکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور وہ شہد کی بادشاہ مکھی کو نہیں بلکہ ملکہ مکھی کو اپنی کارگزاری پیش کرتی ہیں۔ اب اس بارے میں کیا کہا جائے کہ گذشتہ 300سال کے دوران ہونے والی جدید تحقیق کی بدولت ہی ہم یہ سب کچھ دریافت کر پائے ہیں۔

مکڑی کا جالا، ناپائیدار ترین گھر:

وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا ط

ترجمہ:جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں انکی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا گھر بنا تی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔

مکڑی کے جالے نازک اور کمزور کے طور پر بیان کرنے کے علاوہ، قرآن پاک نے مکڑی کے گھر یلو تعلقات کے بھی نازک اور ناپائیدار ہونے پر زور دیا ہے۔ یہ صحیح بھی ہے کیونکہ بیشتر اوقات مکڑی اپنے ملاپ کار (Mate) یعنی نر کو مار ڈالتی ہے۔
یہی مثال ایسی لوگوں کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بھی دی گئی ہے جو دنیا اور اخرت میں تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کے لئے اللہ کو چھوڑ کردوسروں سے اسکی امید کرتے ہیں۔

چیو نٹیوں کا طرز حیات اور باہمی روابط:

وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہحَتّٰی اِ ذَآ اَ تَوْا عَلٰی وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ ہ[18]

ترجمہ:سلمان کے لئے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو ! اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اسکے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔

ہو سکتا ہے کہ ماضی میں بعض لوگوں نے قرآن پاک میں چیونٹیوں کا مذکورہ بالا مکالمہ دیکھ کر اس پر نکتہ چینی کی ہو اور کہا ہو کہ چیونٹیاں تو صرف کہانیوں کی کتابوں ہی میں باتیں کرتی ہیں۔ البتہ، حالیہ برسوں کے دوران ہمیں چیونٹیوں کے طرز حیات، باہمی روابط اور پیچیدہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بہت کچھ علم ہو چکا ہیں۔ یہ معلومات دور جدید سے پہلے کے انسانوں کو حاصل نہ تھیں۔ تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مما ثلت رکھتا ہے، وہ چیونٹیاں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق چیونٹیوں کے بارے میں درج ذیل حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔

١) چیونٹیاں بھی اپنے مردوں کو انسانوں کی طرح دفناتی ہیں۔

٢) ان میں کار کنوں کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے جس میں نگران،نگران کارکن اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔

٣) کھبی کھبار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگوبھی کرتی ہیں۔

٤) ان میں باہمی تبادلہ (communication) کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔

٥) ان کی کالونیوں (colonies) میں باقاعدہ مارکیٹیس (markets) ہوتی ہیں جہاں وہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں۔

٦) سردیوں میں لمبے عرصے تک زیر زمین رہنے کے لئے وہ اناج کے دانوں کا ذخیرہ بھی کرتی ہیں۔ اور اگر کوئی دانہ پھوٹنے لگے، یعنی اس سے پودا بننے لگے تو وہ فوراً اسکی جڑیں کاٹ دیتی ہیں۔ جیسے انہیں یہ پتا ہو کہ اگر وہ اس دانے کو یونہی چھوڑ دیں گی تو وہ بڑھنا اور پکنا شروع کر دے گا۔ اگر انکا محفوظ کیا ہوا اناج کسی بھی وجہ سے مثلاً بارش سے گیلاہو جائے تو وہ اسے اپنے بل سے باہر لے جاتی ہیں اور دھوپ میں سکھاتی ہیں۔ جب اناج سوکھ جاتا ہے تبھی وہ اسے بل میں واپس لے کر جاتی ہیں۔ یعنی یوں لگتا ہے، جیسے انہی یہ علم ہو کہ نمی کی وجہ سے اناج کے دانے سے جڑیں نکل پڑیں گی جو دانے کو اس قابل نہیں چھوڑیں گی کہ اسے کھایا جا سکے۔

حوالہ جات:

القرآن، سورة انعام سورة 6: آیت 38
↑ القرآن، سورة الخل سورة 16: آیت 79
↑ القرآن، سورة الملک، سورة 67: آیت 19
↑ القرآن، سورة الخل سورة 16: آیت 68 تا 69
↑ القرآن، سورة العنکبوت،سورة 29: آیت 41
↑ القرآن، سورة النمل،سورة 27: آیت 18 تا 17
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_جدید_سائنس

حوالہ جات:
Muzaffar Iqbal (2007). Science & Islam. Greenwood Press.
↑ قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحات 14-8
↑ قرآن، بائبل اور جدید سائنس، مصنّف: ڈاکٹر موریس بوکائے، صفحہ 45
↑ اسلام اور جدید سائنس، مصنّف: ڈاکٹر طاہرالقادری، صفحہ 152
القرآن، الذاریات، 51 : 47
↑ قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحات 14-8
↑ القرآن، سورة طٰہ، سورة 20 : آیت 53
↑ القرآن، سورة الرعد، سورة 13 : آیت 3
↑ القرآن، سورة الذاریت، سورة 51 : آیت 49
↑ القرآن، سورة یٰس، سورة ٣٦ : آیت ٣٦
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_جدید_س

تبصرے بند ہیں۔