لمحوں نے خطا کی، صدیوں نے سزا پائی

احساس نایاب

ملک کے تقسیم کی قیمت عام انسانوں کے خون سے وصولی گئی ہے……….. جو ایک تلخ حقیقت ہے۔ کئی دنوں بعد دالان میں بیٹھے ٹھنڈی ہواؤں میں خود کو تروتازہ محسوس کرتے ہوئے دالان کے آگے لگی سڑک سے کچھ ہی فاصلے پہ مقیم سرکاری اسکول کے اندر داخل ہوتے ننھے بچوں کو دیکھ کر خوشی محسوس ہورہی تھی , سفید یونیفارمس پہنے تمام بچے اسکول گراؤنڈ کے بیچ و بیچ جمع ہوکر آسمان میں لہراتے ترنگے کو دیکھ کر سلامی دیتے ہوئے حب الوطنی کے گیت گارہے تھے اس منظر کو دیکھنے کے بعد ہمارے ذہن کے پردوں میں چھپی ہوئی کچھ دھندلی سی یادیں دھیرے سے دستک دینے لگی اور ایک کے بعد ایک تاریخ کے پنوں کو ہٹاتے ہوئے ہمیں اُس دنیا میں لے گئی جہاں پہنچنے کے بعد یادوں کے بھنور میں ہم نے خود کو پوری طرح سے ڈوبتے ہوئے پایا دل و دماغ میں ہل چل سی ہونے لگی اور ایک ہی پل میں وہ سب کچھ تصور بنکے آنکھوں کے آگے گھومنے لگا جو آزادی کے بعد اور آزادی سے قبل ہر انسان نے  جھیلا تھا تقسیم ہندوستان کی قیمت اپنی جان مال آبرو دیکر چکائی تھی وہ تمام مناظر نظروں کے آگے گردش کرنے لگے…….. سب کچھ ایک ایک بات ایک ایک واقعہ تمام گذرے حادثات یہاں تک کہ اچھا برا ہر لمحہ بلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح ہماری نظروں کے آگے تھا جیسے کہ ہم اس دنیا سے نکل کر اُس دنیا میں پہنچ گئے ہوں اور انجان اجنبی ماحول میں گھڑے ہوکر تجسس بھری نظروں سے اپنے اطراف واکناف کا جائزہ لے رہے تھے.

جہاں پہ ہم کھڑے تھے وہ ایک وسیع کھلا میدان تھا جس میں لوگوں کا سیلاب امنڈا ہوا تھا ہر ایک کے چہرے پہ خوشی جھلک رہی تھی , کئی مذاہب کے لوگ ایک ساتھ جھوم رہے تھے چاروں طرف ڈھول نغارے بج رہے تھے کسی نے سر پہ ٹوپی پہنی تھی تو کوئی پگڑی باندھے تھا تو کسی نے ماتھے پہ تلک لگایا تھا سترنگی ماحول میں سبھی کی خوشیاں ایک جیسی تھیں ہر کوئی بنا بھید بھاؤ کے ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے گلے ملتے ہوئے ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلارہے تھے , ایسے لگ رہا تھا مانو انہونے پوری کائنات فتح کرلی ہو اتنا جوش اتنی خوشی کے ساری کائنات انکی خوشیوں میں شریک ہوگئی تھی آخر برسوں کی محنت مشقت اور کئی قربانیوں کے بعد ہمارا ملک ہمارا ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد جو ہوا تھا اور اس آزادی کے پروانے کو لانے کے لئے ہمارے قائد لیڈرس  نے ناجانے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں کتنی اذیئتیں برداشت کی ہیں اسلئے آجکا دن ہم تمام ہندوستانیوں کے لئے عید , ہولی , دیوالی سے بڑھ کر ہے اور انہیں جانبازوں کے احترام میں آج یہ جشن کا ماحول سجا تھا …………… کاش+ش جو منظر ہم نے دیکھا وہ سچ ہوتا , لیکن افسوس یہ جشن کا نظارہ تو محض ہماری دھندلی یادوں میں ہمیشہ سے بسا خواب تھا ایک خواہش ادھورا ارمان تھا اور ہم ہندوستانیوں کی نادانی و خوشفہمی تھی جو اکثر ہمیں اسطرح کے خواب دکھایا کرتی تھی ……… جبکہ حقیقت میں جو کچھ بھی ہوا وہ بہت ہی دردناک اور دل دہلادینے والا تھا.

دراصل یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جون 1947 میں حقیقت کا پتہ چلا کہ آزادی کے نام پہ کئی دنوں سے عوام کو جھوٹے خواب دکھائے گئے تھے کیونکہ یہاں پہ آزادی کی جدوجہد کے ساتھ اندرونی طور پہ سیاست گرمائی ہوئی تھی جس میں چند لوگوں کو اپنے ملک کی فلاح سے بڑھ کر اپنے اپنے عہدے اپنے مفاد کی پڑی تھی کوئی قائدے اعظم بنکر اپنے مفاد کی روٹیاں سیک رہے تھے تو کانگریس اپنی طاقت اور رسوخ کے بل پہ خود کو سیاست کے سب سے اعلی مقام پہ دیکھنا چاہ رہی تھی اور اس سچائی کا خلاصہ اُس وقت ہوا جب وائس رائے لارڈ مون بینٹن,  صدر کانگریس پنڈت جواہر لال نہرو,  اکالی دل رہنماء بلدیو سنگھ اور محمد علی جناح نے ریڈیو پیغامات میں ہندوستان کے تقسیم کی خبر کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا.

اور جب کانگریس ,مسلم لیگ اور لورڈ مون بینٹن کے بیچ وائس رائے ہاؤز میں تقسیم کے دستاویزوں پر دستخط ہوئے اُسی پل ہندوستان دو حصوں میں بٹ گیا اور ہندوستان کا دوسرا حصہ بنا پاکستان اور اس سمجھوتے میں ایک اور شرط بھی رکھی گئی تھی کہ تبادلے آبادی نہیں ہوگی یعنی جو مسلمان ہندوستان میں مقیم ہیں وہ ہندوستان میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں اور جو ہندو پاکستان میں مقیم ہیں وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں یعنی جو جہاں رہنا چاہتا ہے وہ وہاں رہ سکتا ہے,  مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا ……. اور جب اگلے دن پریس کانفرنس کے دوران لارڈ مون بینٹن نے یہ اعلان کیا کہ 15 اگسٹ 1947 کو ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دے دی جائیگی , یہ خبر سنکر تمام ہندوستانی خوشی کے ساتھ حیران پریشان رہ گئے کہ اس خبر پہ وہ جشن  منائیں یا ماتم کیونکہ ہر عقل رکھنے والا انسان اس تقسیم سے ہونے والے خطرناک نتائج سے بخوبی واقف تھا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ہر گذرتا دن آنے والے طوفان کی نشاندہی کررہا تھا , مذہبی فسادات , دنگے , لوٹ مار اور ہجرت کرتے ہوئے قافلوں پہ حملے کی خبریں روز کا معمول بن چکی تھیں اور ہر دن تقریبً 100 لوگ اپنی جان دیکر ملک کی تقسیم کی قیمت چکارہے تھے , جسے دیکھتے ہوئے ہر روز چند اہم شہروں میں ہوائی جہازوں کے ذریعہ عوام پہ پامپلیٹس پھینکے جاتے جس پر گاندھی جی کی طرف سے عوام کے لئے برداشت و عدم تشدت کے پیغامات لکھے ہوتے …….. لیکن اسکے باوجود تقسیم کے نام پہ مطلب پرست و مفاد پرستوں نے جو چنگاری لگائی  تھی وہ آگ کی لپٹوں میں تبدیل ہوگئی , یہاں تک کے حالات نسل کشی تک پہنچ گئے اور آتشی اسلحہ بارود سے لیس لوگ ہجرت کرتے قافلوں سے انکا مذہب پوچھ کر لوٹ مار اور قتل کر دیتے سرِعام عورتوں کی عظمت پامال کی جارہی تھی اور جہاں لاتعداد لوگ اپنے آباواجداد کی سرزمین سے ہجرت کررہے تھے وہ ایک ایسا سفر تھا جس میں قدم بہ قدم خطرہ تھا , ایک طرف موت منہ کھولے انکے انتظار میں تھی تو دوسری طرف لمبے سفر کی تھکان اور بھوک پیاس سے نڈھال لاکھوں افراد اپنی زندگی ہار گئے اور کئی لوگ اپنے استعمال کی ضروری اشیاء پھینکنے لگے یہاں تک کہ کئی ماؤں نے اپنے دودھ پیتے ننھے بچوں کو بھی سڑک کے کنارے تپتی دھوپ میں روتے بلکتے چھوڑ کر نکل گئیں اور وہ معصوم بچے بھوک پیاس کی شدت میں روتے بلکتے ہوئے تڑپ تڑپ کر دم توڑدیتے , نوجوان لڑکیوں کو کھینچ کھینچ کر بیچ چوراہے پہ برہانہ کرکے گھومایا جاتا اور باری باری انکے ساتھ وحشت کا ننگا ناچ کھیلا جاتا جو تاریخ میں بربریت کی مثال آپ ہے اور اس وحشت سے نہ پاکستان بچا تھا نہ ہندوستان نہ کسی شوکت کی بیٹی سکینہ بچی تھی نہ کسی اشوک کی بیٹی سونیتا کی عزت بچی , امرت سر سے امبالا اور امبالا سے لاہور آنے جانے والی ٹرینوں کی داستان تو تاریخ میں آج بھی ایک دردناک حادثہ کی شکل میں قید ہے , یہ ریل گاڑیاں زندہ انسانوں کی جگہ لاشوں کی سواری بن گئی تھیں خون سے لبریز ہر بیگناہ کے قتل کی کہانی چیخ چیخ کر سنارہی تھی تو ٹرین کی پٹریوں پہ کچلی ہوئی لاشین ہندوستان اور پاکستان کے ظالم حکمرانوں کی بےحسی و بےدردی کی گواہ تھیں اور غورطلب بات تو یہ ہے کہ اس تقسیم میں مارے جانے والوں میں نا کوئی حکمران تھا نہ کانگریسیوں میں سے اور نہ ہی کوئی رسوخدار موجود تھا یہاں تک کے جو خود کو قائد بتارہے تھے انکے اہل و عیال سے بھی کوئی نہیں تھا بلکہ سارے غریب بیبس لاچار عام انسان تھے چاہے وہ بوڈر کے اس پار کے ہوں یا اُس پار کے ہندوستان اور پاکستان دونوں طرف نفرت کی ایسی آگ بھڑک رہی تھی کہ دونوں ملکوں کا مستقبل اُس میں دھواں دھواں ہونے لگا اور اس آتش کی لپٹوں کو کسی کے ذاتی مفاد کے لئے ہوئے اس تماشے کو ساری دنیا دیکھ رہی تھی……. یہی وجہ تھی کہ تقسیم سے ہونے والے دردناک انجام کا اندازہ لگاتے ہوئے گاندھی جی اور ابولکلام آزاد تقسیم کے خلاف تھے اور گاندھی جی نے منع بھی کیا لیکن محمد علی جناح , سردار ولبھ بھائی پٹیل , جواہر لال نہرو اور کانگریس کے ممبران نے مل کر یہ پولیسی بنائی …….. کاش مسلمان اُس وقت ابولکلام آزاد کی بات مان جاتے اور محمد علی جناح کا ساتھ نہ دیتے تو ان لاکھوں بیگناہ معصوم لوگوں کی جانیں بچ جاتی اور یقینً ہندوستان میں آج مسلمان  اقلیت میں نہیں بلکہ اکثریت میں ہوتے  مولانا ابولکلام آزاد نے بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن مسلمانوں نے انکی بات نہیں مانی …………. اور تقسیم کے وقت جو غلطیاں ہوئی تھی اسکی وجہ سے آج تک ہم مسلمانوں پہ جملہ طنز کسے نہیں جاتے  اور چند تعصبی ذہنیت رکھنے والے آج  آزادی کے 72 سالوں بعد بھی جسطرح سے ہمیں پاکستان جانے کی بات کہتے ہیں انکی اوقات نہیں ہوتی ہمارے آگے اپنا گلا پھاڑنے کی ………. اور آج جو کانگریس آزادی کا سہرا اپنے سر باندھ کر گھوم رہی ہے وہ سحرا حقیقی حقداروں کے سر پہ بندھا ہوتا جن میں ہمارے کئی علماء , مجاہدین اور شہداء شامل ہیں ………… ہماری کم عقلی کی وجہ سے آج ہندوستان میں ہماری تمام قربانیاں رائیگاں نہیں جاتی اور نہ ہی ہمیں اپنے ہی ملک میں فراموش کیا جاتا نہ ہی ہمارے حقوق سلب کئیے جاتے اور نہ ہماری اوقات ٹشوپیپر سی ہوتی جسے وقت آنے پہ استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے آج سچ میں ہم مسلمانوں کے ساتھ ٹشوپیپر سا ہی سلوک کیا جارہا ہے,  الیکشن کے موقعہ پہ اور سرحد پہ گولی کھانے کے لئے ہمیں یاد کیا جاتا ہے اور مطلب ختم ہونے کے بعد ہم سے پلہ جھاڑتے ہوئے ہماری حب الوطنی پہ ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں اسلئے آج آزادی کا جشن منانا جتنا ضروری ہے اتنی ہی ضرورت اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوئے دردناک نتائج کو یاد کرتے ہوئے اُن سے سبق حاصل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ہماری خطاؤں سے آنے والی صدیاں سزا نہ پائیں کیونکہ ہمارے چند بزرگوں نے جن لمحوں میں خطا کی تھی وہ صدیوں نے سزا پائی ہے .

تبصرے بند ہیں۔