تعمیر مساجد کا اسلامی تصور 

قمر فلاحی

گزشتہ کل ایک ارریہ کے ایک گائوں موہنیا پلاسی جانا ہوا وہاں ایک عالیشان مسجد پہ نظر پڑی ذہن فورا خیراتی مسجد کی طرف چلا گیا کہ اس مسجد کی تعمیر خارجی فنڈ سے ہوا ہوگا، مگر نہیں تفصیلات معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ علاقہ کے لوگوں کے چندے سے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ پھر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید کسی زمیندار یا اہل ثروت  نے بڑی رقم دی ہوگی، مگر میرا یہ خیال بھی باطل ٹھہرا، اس مسجد کی تعمیر میں سب سے بڑی چندہ کی رقم 25000 رہی ہے۔

لوگوں نے سیزنل چندے کئے اور ایک عالیشان مسجد بنالی۔ ماشاءاللہ۔

تعمیر مسجد کے جو آفاقی اصول اور شرعی رہنمائیاں ہیں اسے یکسر مسلمانوں نے بھلادیا ہے بلکہ یہ کہوں کے دین کے جانکاروں نے جنہیں مروجہ زبان میں علماء کہتے ہیں ان لوگوں نے نظر انداز کر دیا ہے تو بیجا نا ہوگا۔

مسجد کی تعمیر کا پہلا اصول ہے کہ اسے مقامی معیار پہ ہونا چاہیے اور دوسرا اصول یہ ہے کہ اسے اجتماعی ہونا چاہیے۔

خلیجی ممالک سے اس بدعت کی شروعات کی گئی ہےکہ گھر کے ہر فرد کے نام سے مسجدوں کی تعمیر کی جانے لگی، چونکہ اس میں بڑا کمیشن بھی ہے اس لئے وہاں کے فارغین نے اسے اپنا پیشہ بنالیا۔

دینی جماعتوں نے اپنے ذیلی ادارے مسجد کونسل کے نام سے بنائے اور خوب پیسے کمائے۔

علماء کی یہ دلیل تھی کہ”

مَنْ بَنَى مَسْجِدًا بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ ) رواه البخاري (450) ومسلم (533) من حديث عثمان رضي الله عنه .

وروى ابن ماجه (738) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ، أوْ أَصْغَرَ، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ) صححه الألباني .

” جس نے اللہ کے لئے مسجد بنائی اللہ نے جنت میں انکے لئے اسی طرح کا ایک گھر بنایا۔

اور کہا گیا کہ "من” واحد ہے اور اس سے انفرادی طور پر مسجد بنانے کا ثواب جنت کی حصولیابی کا ذریعہ ہے۔

قطع نظر اس کے کہ عربی لغت میں الجھا جائے یہ واضح کردوں کہ اس حدیث پہ نہ تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا اور نا ہی کسی خلیفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے۔ بلکہ ان لوگوں نے اجتماعی مسجد بنائی۔ (واللہ اعلم بالصواب )

اب اس تاویل کی آڑھ میں کس آیت کا انکار کیا گیا ہے  اسے بھی ملاحظہ فرمائیں "

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِين[التوبة: 18].

"یعنی یہ کہ اہل ایمان مساجد کی تعمیر کرتے ہیں، اس حکم کا عملی انکار خیراتی مسجد کی تعمیر سے ہوگیا۔

خیراتی مسجدوں کی تعمیر میں للہیت کہیں نہیں ہوتی اپنے مسلک اور مشرب والوں کو مسجد عطا کی جاتی ہے اور اس میں امام بھی اپنے مطلب کا ہوتا ہے گویا اس محلہ کی گورنر شپ مسجد ڈونرر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

چونکہ یہ مسجدیں خیراتی ہوتی ہیں لہذا اسے سرکاری بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے رکھ رکھائو اور مینٹیننس پر گائوں والوں کی  نظر ہی نہیں ہوتی۔ میں نے کئی ایسی مسجدوں کو دیکھا ہے جہاں جانوروں کو چرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ جس محلہ میں لوگ ذاتی طور پہ اپنا محل بنارہے ہیں۔ جہاں صرف رنگ روغن پہ لاکھوں کا صرفہ آتا ہے وہیں کے لوگ پورے محلہ والے ملکر ایک مسجد کی تعمیر نہیں کرسکتے الامان والحفیظ۔

مسجد کی تعمیر ایمان کی علامت ہے یہ مسجد کی میناروں کی طرح دکھتا ہے جہاں خیراتی مسجدیں ہیں اور جہاں مسجدوں کی دیکھ ریکھ بھلی بھانتی نہیں ہوتی وہ اپنے ایمانی زوال کا مینارہ بلند کررہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔