غیر مسلم سے شادی کا حکم: قرآن مجید کی روشنی میں

سراج احمدقادری مصباحی

(سیتامڑھی ،بہار)  

 یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہم مسلمانوں پر کثیر احسان اور عظیم فضل ہے کہ ہمیں ایمان واسلام کی دولت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا، مستزاد یہ کہ اس نے ہمیں اپنے حبیب سرور کون ومکاں محمد مصطفیﷺ کی امت میں پیدا فرمایا، اگر ہم خدا وحدہ لاشریک کا پوری زندگی شکریہ ادا کرتے رہیں پھر بھی ہم ادا نہیں کرسکتے۔ توپھر ہمیں اس کے بدلے کیا کرنا چاہئے کہ جس سے ہمارا رب ہم سے خوش رہ سکے اور ہم مقرب بندوں میں شمار ہونے لگیں ؟عقل کہتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے جب ہمیں مذکورہ نعمتوں سے سرفراز فرمایا اور ہمارے لیے فرحت وانبساط کے سامان مہیا فرمایا، تو اب ہم بھی خدا وحدہ لاشریک عزوجل کے لیے کچھ ایسا کر جائیں کہ ہمارا خالق بھی ہم سے خوش ہوجائے اور مزید احسان فرماتا رہے۔

 تو قرآن وحدیث کا بندوں کے لیے صرف یہی پیغام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاکر ان کے احکام کی بجاآوری کی جائے اور خدا کی عبادت وریاضت اور  ذکر واذکار میں ہمہ تن متوجہ ہوجائیں۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جن چیزوں سے رو کا ہے ان سے رک جائیں اور جن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں خوشی خوشی بجالائیں یہی ایک سچے اور پکے مسلمان کی علامت ہے۔ اگر کوئی انسان (مرد وعورت میں سے)قرآن اور احادیث کے خلاف جاتا ہے تو اس کی دو صورتیں نکلتی ہیں یا تو وہ جان بوجھ کر قرآن وحدیث کے خلاف جارہا ہے یا پھر اسے قرآن وحدیث کے مسائل نہیں معلوم یعنی نادانستہ طور پر وہ قرآن وحدیث کے خلاف چلاجا تا ہے۔ اول الذکر انسان جو ایسا جان بوجھ کر تا ہے تو وہ حقیقت میں مسلمان نہیں اگر اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو یہ اس کی حماقت اور بے وقوفی ہے اورایسا شخص نرا جاہل ہے جو خود کو اب بھی مسلمان کہہ رہا ہے اور ثانی الذکر انسان یعنی جو نادانستہ طور پر ایسا کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے مسائل واحکام سیکھے اور علما کی صحبت اختیار کریں۔

اس سے قطع نظر جب ہم زمانے کا جائزہ لیتے ہیں اور حالات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمارا مسلم معاشرہ اور ہمارا سماج نت نئے مشکلات ومصائب سے دو چار ہورہا ہے کبھی تو طلاق ثلثہ کا مسئلہ اٹھا کر مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو قرآن وحدیث کے اصل مسئلہ اورلا فانی حکم سے منحرف کیا جارہا ہے تو کبھی مذہب کے نام پر اختلاف وانتشار کی ہوا دی جارہی ہے توکبھی لو جہاد کے نام پر معصوم لوگوں کی جان لے لی جاتی ہے اور اس قسم کے درجنوں مسائل کے ذریعہ مسلمانوں کو ذہنی الجھن اور نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کرکے ان کو بلند وبالا مقاصد واہداف کے حصول سے ایک سازش کے تحت روکا جارہا ہے۔ اور ہمارا مخالف اسلام دشمن بڑی تیزی کے ساتھ اور مکمل پلاننگ کے ساتھ اس میدان میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ہم محض تماشا ئی مورتی بنے ہوئے ہیں جو وقت کا بہت بڑا المیہ ہے۔ آخر مسلمان خاموش کیوں ؟کیا انہیں دین کا درد نہیں ؟ کیا انہیں دین کی حفاظت کا حکم نہیں دیا گیا ؟کیا ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس وقت کہاں تھے جب میرے دین اور شریعت پر حملہ کیا جارہا تھا؟کیا یہ سارے سوالات کفار سے ہوں گے یا پھر مسلمانوں سے ؟اگر یہ سوالات مسلمانوں سے ہونے ہیں تو پھر ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے ؟بیدار کیوں نہیں ہوتے؟

  موجودہ دور میں فتنہ ارتداد بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور درجنوں مسلم خواتین غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرچکی ہیں اور کررہی ہیں۔ انگلش اخبار’’ انڈین اکسپریس ‘‘کی ۱؍۱۲؍۲۰۱۷ء کی رپوٹ کے مطابق آر ایس ایس کی ایک متعصب اور متشدد جماعت نے یہ ا علان کیا تھاکہ ہندو جاگرن منچ نامی جماعت صرف ۶؍ماہ کے اندر ۲۱۰۰ مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو لڑکوں کے ساتھ کرانے کے لیے ہم ممکن کوشش کرے گی اور اس تحریک کا نام بیٹی بچاؤ اور بہو لاؤ رکھا گیا ہے۔ لہذا یہ اس تحریک کوبنا کر کتنا کامیاب ہوئے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی پلاننگ کے تحت  ہندوستان کے اکثر صوبے مثلا اتر پردیش، بہار، کیرلا، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، حیدر آباد، گجرات، ہریانہ، مہاراسٹر وغیرہ میں خواتین اسلام تیزی کے ساتھ فتنہ ارتداد کا شکار ہورہی ہے اور ہندوں لڑکوں سے کورٹ میرج کررہی ہیں۔

سب سے پہلے ہم قرآن کے نقطہ نظر سے یہ بیان کریں گے کہ کیا ایک مسلم لڑکی کی شادی غیر مسلم لڑکے سے ہوسکتی ہے ؟تو قرآن کا یہ کھلا پیغام اورواضح تعلیم ہے کہ نہ مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے سے اور نہ ہی غیر مسلم لڑکی کی مسلم لڑکے سے شادی ہوسکتی ہے :اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ولا تنکحوا المشرکٰت حتی یومن ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولو اعجبتکم ولا تنکحوا المشرکین حتی یومنوا ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم‘‘(البقرۃ، آیت:۲۲۱)

ترجمہ:اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بے شک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو۔ (کنز الایمان)

  تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر یوں ہے:گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ ارشاد ربی ہے ’’والمحصنٰت من الذین اوتواالکتب من قبلکم الخ‘‘یعنی تم سے پہلے جنہیں کتاب اللہ دیئے گئے ان کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنا حلال ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعیدبن جبیر، حسن، ضحاک، قتادہ، زید بن اسلم اور ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بھی یہی فرمان ہے۔ تفسیرابن جریرمیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی طرح کی عورتوں سے نکاح کرنے کو حرام فردیا سوائے وہ ایمان والی عورتیں جو ہجرت کرکے آئی تھیں۔ اور ان عورتوں سے نکاح کو حرام فرمایا جو دوسرے مذہب کی پابند تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی تھی اورحضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نصرانیہ عورت سے نکاح کرلیا تھا جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت ناراض ہوئے اور قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگاتے ان دونوں نے کہا اے امیر المومنین آپ ناراض مت ہویئے ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر طلاق دینا حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہئے میں انھیں تم سے چھین لوں گا اور ذلت کے ساتھ الگ کردوں گا۔

   اور ’’ولأمۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ‘‘کے شان نزول کے تعلق سے ارشاد فرماتے ہیں :یہ فرمان حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوا۔ ان کی ایک کالی رنگ کی لونڈی تھی ایک مرتبہ غصے میں آکر اسے طماچہ ماردیا پھر گھبرائے ہوئے حضور ﷺ کی بارگاہ میں آئے اور واقعہ سے آگاہ کیاآپ نے فرمایا اس کا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا :وہ روزہ رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے۔ اچھی طرح وضو کرتی ہے خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابو عبد اللہ پھر تو وہ ایماندار ہے کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ قسم اس ذات کی جس کی آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کردوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ پھر اس سے نکاح بھی کروں گا، چنانچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرادیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرک آزاد عورت سے تو مسلمان لونڈی ہزارہا درجہ بہتر ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

تفسیر خازن میں ہے:’’ولا تنکحوا المشرکٰت‘‘یہ آیت حضرت مرثد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی وہ ایک بہادر انسان تھے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے انہیں مکہ شریف بھیجا تاکہ وہاں سے مسلمانوں کو کسی طرح نکا ل لائیں۔ وہاں عناق نامی ایک مشرکہ عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی، وہ خوبصورت اور مالدار تھی جب اسے ان کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اپنی طرف آنے کی دعوت دی آپ نے اعراض کیا اور فرمایا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا تب اس نے نکاح کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی اجازت پر موقوف ہے۔ چنانچہ پھر اپنے کام سے فارغ ہوکر جب آپ رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور صورت حال کے بارے میں بتایا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ ۲۲۱، ج:۱، ص:۱۶۰)

   ’’ولأمۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ‘‘کے شان نزول کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ایک روز حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی غلطی پر اپنی باندی کو طماچہ مارا اور نبی اکرم ﷺ سے بتایا تو سرکار دوعالم ﷺ نے اس کی ایمانی حالت کے متعلق دریافت کیا عرض کیا وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور اقدس ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اور نماز پڑھتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا :وہ مومنہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا :اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا میں اس کو آزاد کرکے اس کے ساتھ نکاح کروں گا۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اس پر لوگوں نے طعنہ زنی کی کہ تم نے ایک سیاہ باندی کے ساتھ نکاح کیا حالانکہ فلاں مشرکہ آزاد عورت تمہارے لیے حاضر ہے۔ وہ حسین بھی ہے مالدار بھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ ۲۲۱، ج:۱، ص:۱۶۱)

تفسیر روح البیان میں ہے:نکاح نہ کرو یعنی حربی مشرک عورتوں سے اس لیے کہ کتابیات اگرچہ مشرکات ہیں لیکن جمہور کے نزدیک ان کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ انھوں نے سورہ مائدہ کی آیت’’والمحصنٰت من الذین اوتوالکتاب من قبلکم‘‘سے استدلال کیا ہے اور قاعدہ ہے کہ سورہ مائدہ سب کی سب محکمہ ہے اس میں کوئی آیت بھی منسوخ نہیں۔ (مشرکہ سے شادی نہیں ہوسکتی)یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کریں۔

’’ولأمۃ مومنۃ‘‘ اور مومنہ لونڈی باوجود یکہ لونڈی ہونے کی وجہ سے اس کی شان میں کمی ہے پھر بھی وہ دین ودنیا کے اعتبار سے مشرکہ عورت سے بہتر ہے۔ باوجودیکہ اس کے پاس مال ہے اور آزادی کی شرافت بھی ہے۔ اگرچہ وہ مشرکہ عورت اپنے حسن وجمال اور مال واسباب اور نسب کی شرافت کے علاوہ اس کے پاس زیب وزینت کے سامان ہیں اور وہ تمہیں اپنے حسن وجمال میں پھنسالے۔ یعنی مومنہ عورت ہر حال میں مشرکہ عورت سے بہتر ہے۔

  ’’ولا تنکحوا الخ‘‘ یعنی کفار یا مشرکین کو اپنی مومنات عورتیں نکاح میں نہ دو خواہ وہ آزاد ہوں یا لونڈیاں۔ یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں یعنی وہ تمام کفریہ امور ترک کریں۔ اور مومن غلام باوجودیکہ اس میں مملوکیت کی کمی ہے لیکن مشرک سے بہتر ہے اگرچہ اس میں آزادی کی شرافت ہے، اگرچہ وہ مال وجمال اور نیک خصلتوں کی وجہ سے تمہیں اچھا لگے۔

تفسیر نعیمی میں ہے: شان نزول:(۱)حضرت مرثد غنوی ایک بہادر صحابی تھے حضور ﷺ نے انہیں مکہ مکرمہ بھیجا تھا تاکہ وہاں سے تدبیر کے ساتھ ان ضعیف مسلمانوں کو نکال لائیں جو ہجرت نہ کرسکے وہاں ایک مشرکہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا اسے زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ نہایت محبت تھی اور وہ نہایت حسین اور مالدار بھی تھی جب اسے ان کے مکہ معظمہ آنے کی خبر ملی تو وہ ان کے پاس آئی اور وصال کی طلب گار ہوئی آپ نے فرمایا اے عناق میں مسلمان ہوچکا ہوں اور اسلام زنا سے روکتا ہے تب اس نے آپ سے نکا ح کی درخواست کی آپ نے فرمایا کہ اب میں اپنے قبضے میں نہیں، نبی ﷺ کا غلام ہوں ان سے بغیر پوچھے تجھ سے نکاح بھی نہیں کرسکتا جب آپ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ عرض کرکے نکاح کے متعلق دریافت کیا تب اس آیت کا پہلا جملہ ولا تنکحوا الخ نازل ہوا۔

  (۲)ایک دن حضرت عبد اللہ ابن رواحہ نے کسی خطا پر اپنی حبشی لونڈی کے طمانچہ ماردیا  پھر پشیمان ہوکر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ عرض کیا حضور ﷺ نے اس لونڈی کے حالات دریافت کیے کہ وہ کیسی ہے آپ نے عرض کیا کہ وہ توحید ورسالت کی قائل نمازی اور روزہ دار ہے تب حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عبد اللہ وہ تو مومنہ ہے آپ نے عرض کیا کہ رب کی قسم اسے آزاد کرکے اپنے نکاح میں لاؤں گا۔ پھر ایسا ہی کیا اس پر لوگوں نے عبد اللہ کو طعنے دئیے کہ فلاں فلاں مشرکہ عورتیں جو حسین بھی تھیں اور مالدار بھی تم سے نکاح کرنے پر تیار تھیں تم نے انہیں چھوڑ کر ایک حبشی لونڈی سے کیوں نکاح کرلیا تب اس آیت کا دوسرا جملہ ’’ولامۃ‘‘ نازل ہوا۔

خلاصہ تفسیر:

اے مسلمانوں کافر عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں کیوں کہ نکاح محبت دائمی گھر کی آبادی اور بال بچوں کی پرورش کے لیے ہوتا ہے۔ اختلاف دین کے ہوتے ہوئے یہ تینوں باتیں ناممکن ہیں نہ شوہر بیوی کا دل ملے گا اور نا اتفاقی کی وجہ سے گھر میں رونق بھی نہ ہوگی اور بچوں کی پرورش میں بہت جھگڑا پیدا ہوگا ماں تو انہیں اپنے دین پر لانا چاہے گی اور باپ اپنی طرف کھینچے گا۔ لہذا اس صورت میں نکاح کا مقصود ہی حاصل نہ ہوگا سمجھ لو کہ مسلمان عورت اگرچہ لونڈی ہو مشرکہ سے افضل ہے خواہ وہ آزاد مالدار حسینہ اور حسب نسب والی ہو اگر چہ تمہیں مشرکہ مال و جمال کی وجہ سے پسند آجائے کیوں کہ صورت سے سیرت بہتر اور اے مسلمانوں !اپنی بچیوں کا نکاح کفار سے نہ کرا ؤ اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر سے ہونے دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئے کیوں کہ مسلمان عورت کا کافر کی بیوی بن کر رہناسخت بے غیرتی بھی ہے خیال رکھو کہ مسلمان اگرچہ غلام ہو حقیر وغریب ہو پھر بھی آزاد مالدار عزت و جاہ والے مشرک سے افضل ہے کہ دولت ایمان سے بڑھ کر۔ اگرچہ وہ تمہیں اپنے مال وجمال کی وجہ سے پسند ہی آجائے کفار ہمیشہ تمہیں کفر کی رغبت دے کر دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جب تمہارا ان کا سسرالی رشتہ قائم ہوجائے گا تو ان کو تمہیں گمراہ کرنے کا اور موقعہ ملے گا اور اللہ اپنے کرم سے تمہیں استقامت ایمان اور نیک اعمال کی رغبت دے کر جنت اور بخشش کی طرف بلا رہا ہے اسی لیے نکاح کفار سے منع فرماتا ہے جو کہ جہنم کا سبب ہے رب تو لوگوں کے لیے اپنے احکام اور آیات کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

 فائدے :

اس آیت سے چند فائدے حاصل ہوئے۔ پہلا فائدہ :اس آیت میں دو حکم بیان ہوئے ایک یہ کہ مسلمان مرد کافر عورت سے نکاح نہ کرے دوسرے یہ کہ مسلمان عورت کافر مرد کے نکاح میں نہ دی جائے دوسرا مسئلہ تو اپنے عموم پر ہے یعنی مسلمہ کا نکاح کسی بھی کافر سے جائز نہیں خواہ وہ کتابی ہو یا مشرک یا مرتد مگر پہلے حکم میں ایک تخصیص ہے وہ یہ کہ مسلمان کا نکاح اہل کتاب یعنی یہودیہ اور عیسائنی سے ہوسکتا ہے جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیت میں فرمایا گیا۔ (تفسیر نعیمی، ج:۲، ص:۴۱۱۔ ۴۱۵، نعیمی کتب خانہ گجرات)

 مذکورہ کتب تفاسیر سے متفقہ فیصلہ اور حتمی حکم یہ ہوا کہ کافر مرد کا نہ مسلمان عورت سے نکاح درست ہے اور نہ کافرہ عورت سے مسلم مرد کا نکاح درست ہے۔ یہ قرآن کا مستحکم اور حتمی فیصلہ ہے جسے دل سے قبول کرنا ہر عبادت گزار مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔

 لیکن پھر بھی ایک گوشہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ ان مشکل حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کون سا قدم اٹھا نا چاہئے کہ مسلم خواتین ان کے چنگل سے بچ سکیں اور پھر دوبارہ اس طرح کے حادثات رونما نہ ہو؟میں اس سے بچنے کی کچھ احتیاطی تدابیر اور طریقے رقم کررہا ہوں ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی روشنی میں ممکن حد تک اس سے بچنے اور بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے:

(۱)ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر کے اندر اسلامی ماحول پیدا کریں اورگھر کے ہر فرد کو چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور بڑے سے لیکر بوڑھے تک مرد اور عورت سب کو نماز کا پابند بنائیں، قرآن وحدیث کی تعلیم کے لیے موقع فراہم کریں، اگر مدرسہ یا مکتب جاکر علم حاصل کرنا ممکن نہ ہوتو کم سے کم آدھا سے ایک گھنٹہ ہی سہی کسی مولوی صاحب کو اپنے گھر پر ہی بلا کر ان سے قرآن حدیث کی تعلیم لیں اور عقائد اور ضروری مسائل کے متعلق دریافت کریں اور اس پر خود بھی عمل کریں اور گھر کے ہر فرد کو عمل کرنے کو کہیں۔

 (۲)والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو آزاد نہ چھوڑیں بلکہ ہر ممکن حد تک اس کی نگرانی کرتے رہیں اور انہیں دوست وسہیلی کی طرف توجہ نہ دینے کی نصیحت کرتے رہیں اوراس سے ہونے والے مضرات کے بارے میں بھی آگاہ کریں۔

 (۳)اپنے بچیوں کے ہاتھ میں موبائیل فون ہر گز نہ دیں، فیسبک، واٹس شپ استعمال کرنے پر پابندی لگائیں اور انہیں اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بتاتے رہیں۔

(۴)بڑے بڑے جلسہ وجلوس کو ترک کرکے دعوت وتبلیغ کا کام اخلاص کے ساتھ کریں اور دین اور شریعت کا پیغام ہر گھر تک پہونچانے کی سعی کریں۔

(۵) بچیوں کی وقت پر شادی کردی جائے اس طرح کے واقعات اکثر انہیں لڑکیوں کے ساتھ ہورہے ہیں جن کی شادی تاخیر سے ہورہی ہے۔ میں ان کے والدین سے گزارش کروں گا کہ اللہ اور اس کے رسول کے واسطے آپ اپنی اپنی بچی کا نکاح وقت پر کردیں تاخیرنہ کریں خدا نہ خواستہ آپ کی لڑکی نے کوئی غلط قدم اٹھا لیا تو اس کے جواب دہ  اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ خود ہوں گے۔

 (۶)جہیز کی لالچ کو ختم کیا جائے اسی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے، اپنے اپنے علاقے میں ذمہ داران حضرات ایک تنظیم قائم کریں اور پھر اس کے ذریعہ ایک جٹ ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ جہیز کی لالچ جڑ سے ختم ہوجائے۔

(۷)جس طرح ہمارے اسلامی ادارے ہیں اسی طرح اسلامی اسکول بھی کھولے جائیں تاکہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرکے ناخواندگی کے بد نما داغ کو قوم وملت کے پیشانی سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے اور ہمارے بچے اور بچیاں کفار کے اسکول اور کالج میں نہ جاکر اسلامی اسکول وکالج میں ہی داخلہ لیں اور وہیں خود کو علم کی زیور وں سے آراستہ کریں۔

  یہ چند احتیاطی تدابیر وطریقے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ ضروری نہیں ہے کہ سب کو ان تدابیر سے اتفاق ہی ہو اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی اس کی روشنی میں کچھ حد تک مدد اور حل کی صورت نکل سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کے ایمان وعقیدے کی حفاظت فر مائے اورقرآن وحدیث کے مسائل واحکام پر چلنے کی توفیق بخشے اور خاص طور سے ہماری ماں اور بہنوں کو اسلامی قوانین پر چلنے اور انہیں قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اس گندی حکومت وسیاست سے محفوظ ومامون رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔