ماتمِ گُل پہ دوستو ! کون رونے آئے گا 

عمران

ماتمِ گُل پہ دوستو ! کون رونے آئے گا

جنگلوں کی آگ سے شہر جل جائے گا

۔

رابطے ہیں منقطع ، منزلیں جدا جدا

درد کا یہ سلسلہ اور طُول پائے گا

۔

جگنو کہاں کوئی، تم بھی چلے گئے

اب یہاں سے راستہ کون بتلائے گا

شہر میں وہ جابجا سازشیں رٙچا گیا

دیکھنا تم مگر یہ خون رنگ لائے گا

۔

وقت ایک بازیگر , دوست میرے سادہ دل

جوشِ وفا میں پھر کوئی جاں سے جائے گا

۔

اب سِناں کی نوک پر، وقت کا نیا خدا

چند حق پرستوں کو پھر سے آزمائے گا

۔

درد گو مستقل، فرصتیں کسے مگر

دل آخر دل ہے ناں! خود بہل جائے گا

۔

میری لال بیاض سے، غزلیں تمہیں نئی

رات گئے، دیر تک کون گنگنائے گا

تبصرے بند ہیں۔