ڈونالڈ ٹرمپ کی زندگی: اتار چڑھاﺅ کی دلچسپ داستان!

وقاص چودھری

ڈونلڈ ٹرمپ کے دادا سولہ سال کی عمر میں 1885ءمیں جرمنی سے امریکا آئے‘ کاروبار شروع کیا‘ 1905ء میں شادی کی اور 1918ء میں انتقال کر گئے۔ والد فریڈ ٹرمپ نے 13 برس کی عمر میں رئیل سٹیٹ کا کام شروع کیا‘ وہ چھوٹے گھر بنا کر فروخت کرتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی والدہ میری این سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتی تھیں‘ یہ 1930ء میں 18 سال کی عمر میں امریکا آئیں اور گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ فریڈ اور میری نے 1936ء میں شادی کر لی اور یہ لوگ نیویارک کے علاقے کوئنز میں آباد ہو گئے‘ ان کے ہاں پانچ بچے پیدا ہوئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا نمبر چوتھا تھا‘ یہ 14 جون 1946ء کو پیدا ہوئے۔ یہ پیدائشی امیر ہیں۔ یہ ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے وارٹن سکول میں داخل ہوئے۔ اکنامکس کی ڈگری لی۔ 1970ء کی دہائی میں والد سے ایک ملین ڈالر قرض لیا‘ رئیل سٹیٹ کے بزنس میں آئے اور یہ 1982ء تک امریکا کے چار سو کروڑ پتیوں میں شامل ہو چکے تھے جبکہ یہ 1989ء میں دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست میں آ چکے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے والد کے انتقال کے بعد خاندانی کاروبار سنبھال لیا‘ ٹرمپ کمپنی کو ٹرمپ آرگنائزیشن بنایا اور یہ کاروبار کا دائرہ پھیلاتے چلے گئے۔ یہ بلند عمارتیں بناتے ہیں‘ مشہور عمارتوں کی تزئین و آرائش کرتے ہیں۔ ہوٹل اور جواء خانے تعمیر کرتے ہیں اور یہ گالف کورس بناتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی ڈونلڈ ٹرمپ سگریٹ پیتے ہیں اور نہ ہی شراب۔ یہ منشیات سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ ان کا ایک بھائی 1981ءمیں کثرت شراب نوشی سے فوت ہو گیا تھا‘ یہ اس دن سے شراب کو ناپسند کرتے ہیں۔

یہ 1987ء میں میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ یہ ری پبلکن پارٹی میں گئے۔۔۔ 1999ء تک وہاں رہے۔ یہ پھر ڈیموکریٹک پارٹی میں آ ئے۔ یہ تین سال وہاں رہے اور یہ پھر 2012ء میں دوبارہ ری پبلکن پارٹی میں آ گئے اور یہ بالآخر صدر بن گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تین شادیاں کیں۔ دو طلاقیں ہوئیں‘ 5 بچے اور 9 نواسے نواسیاں ہیں۔ یہ امریکا کی تاریخ کے امیر ترین اور بزرگ ترین صدر بھی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی اتار چڑھاﺅ کی دلچسپ داستان ہے۔ یہ زندگی میں کبھی دیوالیہ نہیں ہوئے تاہم ان کی چھ کمپنیاں (چھ پراپرٹیز) دیوالیہ ہوئیں لیکن یہ ڈیل کے ذریعے ان کمپنیوں کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ 1990ءسے 1995ءکے درمیان 9 سو ملین ڈالر کے مقروض تھے۔ یہ امریکی تاریخ میں کسی شخص پر سب سے بڑا انفرادی قرضہ تھا لیکن یہ نہ صرف دوبارہ بحال ہوگئے بلکہ یہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے صدر بھی بن گئے۔ یہ آج بھی دعوے سے کہتے ہیں میں مائنس نائین ہندرڈ ملین سے پلس ہوا ہوں۔ آپ میرا کیا بگاڑ لیں گے۔ ٹرمپ نے ساڑھے تین ہزار مقدمات لڑے۔ 489 مقدمات کا فیصلہ ہوا۔

ٹرمپ نے 451 کیس جیتے اور صرف 38 مقدمے ہارے‘ یہ 2016ء میں صدارتی ریس میں شامل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے 16 امیدواروں کورنگ سے آﺅٹ کر دیا۔ پوری دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال تھا ڈونلڈ ٹرمپ نہیں جیت سکیں گے۔ یہ امریکا کے ہر سروے میں ہارتے ہوئے نظر آئے لیکن یہ نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ انہوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا اور یہ آج تک دنیا کو حیران کر رہے ہیں‘ یہ صبح اٹھ کر ایک دو ٹویٹس کرتے ہیں اور پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔

یہ آج کل ہاتھ دھو کر پاکستان کے پیچھے پڑ چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کامیابیاں کیسے حاصل کیں۔ آپ کو یہ جاننے اور ٹرمپ کی شخصیت کو سمجھنے کےلئے ان کی کتاب ”دی آرٹ آف دی ڈیل“ پڑھنا ہوگی۔ ٹرمپ نے یہ کتاب 1987ءمیں مشہور صحافی ٹونی شیوارٹز کے ساتھ مل کرلکھی تھی۔ یہ کتاب 13 ہفتے بیسٹ سیلر اور 48 ہفتے اعلیٰ پوزیشن پر رہی۔ ٹرمپ نے اس کتاب میں اپنی کامیابی کے گیارہ اصول بیان کئے۔ یہ گیارہ اصول ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں۔

ہم اگر ٹرمپ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے گیارہ اصول جاننا ہوںگے۔!
ٹرمپ کا پہلا اصول۔ بڑا ٹارگٹ ہے۔ یہ کہتے ہیں میں نے پوری زندگی ڈیل کے دوران بڑا ٹارگٹ رکھا‘ میں کبھی چھوٹے ٹارگٹ کی طرف نہیں گیا۔

دوسرا اصول۔ برے کےلئے تیار رہیں۔ میں ڈیل کے دوران ہمیشہ بدترین صورتحال اور بدترین جواب کےلئے تیار رہتا ہوں۔

تیسرا اصول۔۔۔ تمام آپشن استعمال کریں۔ میں ڈیل کے دوران تمام گیندیں ہوا میں اچھال دیتا ہوں‘ میں کوئی آپشن پیچھے نہیں رہنے دیتا۔

چوتھااصول۔۔ اپنی مارکیٹ کو پہچانیں۔ میں ڈیل سے پہلے اشتہارات‘ مارکیٹنگ ٹیم کے پروپیگنڈے اور سروے کمپنیوں کے نتائج پر توجہ نہیں دیتا‘ میں اپنا سروے کرتا ہوں اور پھر فیصلہ کرتا ہوں۔

پانچواں اصول۔ میں ڈیل میں کبھی جلد بازی نہیں کرتا‘ آپ کی جلد بازی ہمیشہ دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہے‘ میں نے زندگی میں جب بھی ڈیل کی آہستہ آہستہ کی اور دوسروں یعنی بینکوں کا سرمایہ (Leverage) استعمال کیا۔

چھٹا اصول۔۔۔ لوکیشن میں اضافہ کریں‘ دنیا کے تمام رئیل سٹیٹ ماہر کہتے ہیں جائیداد میں تین چیزیں اہم ہوتی ہیں‘ لوکیشن‘ لوکیشن اور لوکیشن (محل وقوع) لیکن میں سمجھتا ہوں لوکیشن اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی اہم ڈیل ہوتی ہے۔ آپ سستی جائیداد لے کر اس کی لوکیشن میں اضافہ کریں اور بھرپور منافع کمائیں‘ آپ کو اپنی لوکیشن (اہمیت) میں اضافے کا گُر آنا چاہیے۔

ساتواں اصول۔۔۔ میڈیا کو استعمال کریں‘ میں نے سیکھا میڈیا سنسنی خیز خبروں کا بھوکا ہوتا ہے۔ آپ اگر عام لوگوں کے مقابلے میں ذرا سے مختلف ہیں تو آپ چھوٹی خبر بنیں گے لیکن آپ اگر انوکھے ہیں اور آپ بڑا تنازعہ پیدا کر سکتے ہیں تو آپ مسلسل خبروں میں رہیں گے چنانچہ میں میڈیا کے ساتھ کھیلتا ہوں۔

آٹھواں اصول۔۔۔ خوفناک طریقے سے لڑیں‘ میں اچھے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا رہتا ہوں لیکن جب کوئی میرے ساتھ ناروا سلوک کرے۔ یہ بے ایمانی سے کام لے یا پھر یہ مجھ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے تو پھر میں اس سے خوفناک جنگ کرتا ہوں‘ میں اسے نہیں چھوڑتا۔

نواں اصول۔۔۔ دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔ ہم مارکیٹنگ‘ پروموشن اور جھوٹے وعدوں سے دوسروں کو وقتی طور پر بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن ہم اگر انہیں ”ڈیلیور“ نہیں کریں گے‘ ہم اگر انہیں اچھی سروس نہیں دیں گے تو پھر یہ ہمیں چھوڑ دیں گے چنانچہ دوسروں کو ہم سے فائدہ پہنچنا چاہیے۔ یہ کاروبار کا بہترین اصول ہونا چاہیے۔

دسواں اصول۔۔۔ لاگت کم رکھیں‘ میں سمجھتا ہوں ہم اپنی لاگت جتنی کم رکھیں گے‘ ہم اتنا فائدے میں رہیں گے۔
اور

گیارہواں اصول۔۔۔ خوش رہیں۔ مجھے دولت میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ میں اسے ہمیشہ کھیل سمجھ کر کھیلتا ہوں۔ آپ بھی گیم کریں اور خوش رہیں۔

یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے گیارہ اصول ہیں، یہ ان کی وجہ سے کاروبار میں ڈیل میکر مشہور ہوئے۔ یہ نیویارک کے کامیاب ترین مذاکرات کے ماہر مانے جاتے تھے۔ ٹرمپ کی چھ کمپنیاں دیوالیہ ہوئیں لیکن یہ بینکوں کے پاس گئے‘ ڈیل کی اور نہ صرف ان کمپنیوں کو دوبارہ زندہ کر دیا بلکہ ان سے اربوں ڈالر کا منافع بھی کمایا۔

یہ نو سو ملین ڈالر کے مقروض تھے۔ یہ 1990ء میں ایک روز اپنی دوسری بیگم مارلا میپل کے ساتھ نیویارک کی ففتھ ایونیو سے گزر رہے تھے‘ سامنے ایک فقیر کھڑا تھا‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی بیگم سے کہا یہ فقیر نہیں جانتا اس کی ویلیو نو سو ملین ڈالر ہے۔ بیگم نے پوچھا کیسے؟

یہ بولے۔ میں نو سو ملین ڈالر کا مقروض ہوں جبکہ اس فقیر کے ذمے کوئی قرض نہیں۔ یہ مجھ سے نو سو ملین ڈالر آگے ہے چنانچہ اس کی ویلیو نو سو ملین ڈالر ہے۔

یہ اس جگہ سے بلینئر کلب میں واپس آئے‘کیسے؟ اپنی ڈیل کی صلاحیت کی وجہ سے۔ 2016ء کا الیکشن ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کی ”بیسٹ ڈیل“ تھا۔ ٹرمپ نے اس ڈیل کے دوران اپنے گیارہ اصول کھل کر استعمال کئے۔ دنیا‘ میڈیا اور امریکی عوام ان کے جن بیانات کو پاگل پن سمجھتے رہے وہ ان کی ڈیل میکنگ کا ساتواں اصول تھا۔ ٹرمپ نے الیکشن کے دوران بے وقوفانہ بیانات دے کر پوری دنیا کے میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا‘ ہیلری کلنٹن نے میڈیا کوریج کےلئے کروڑوں ڈالر خرچ کئے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ سہولت مفت حاصل کرتے رہے۔

ٹرمپ نے امریکا کے الیکشن میں روس کو بینک (لیوریج) کے طور پر استعمال کیا‘الیکشن میں اپنے سارے آپشن بھی استعمال کئے۔ اپنی مارکیٹ بھی بنائی۔ جلد بازی بھی نہیں دکھائی‘ اپنی ڈیل بھی امپروو کی۔ عوام کو بھی اچھی ڈیل دی‘ یہ خوفناک طریقے سے لڑے اور یہ اب انجوائے بھی کر رہے ہیں۔ ہم اگر کسی دن ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا یہ پاگل یا احمق نہیں ہیں۔ یہ دوسروں کو احمق اور پاگل بنانے کے ماہر ہیں‘ یہ روز صبح اٹھ کر دو تین ٹویٹ کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں کہرام مچ جاتا ہے اور یہ آرام سے بیٹھ کر اس کہرام کو انجوائے کرتے ہیں۔

یہ اس کہرام سے امریکا کےلئے نئی اور مفید ”ڈیلز“ بھی نکال لیتے ہیں‘ ٹرمپ نے چھ مسلمان ملکوں کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی اور سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی دنیا کی سب سے بڑی ڈیل کر لی۔ یہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت مان کر یہودیوں کے ساتھ دھڑا دھڑ معاہدے کر رہے ہیں‘ یہ ایران کو دبا کر عراق کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں اور یہ اب سعودی قطر تنازعے کے ذریعے دنیا میں گیس اور تیل کی نئی قیمتیں طے کر رہے ہیں۔

یہ ایران اور پاکستان کو بھی کسی اچھی ڈیل کےلئے دبا رہے ہیں۔ یہ پاکستان مخالف بیانات سے پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں۔ یہ ہم سے رعایتیں لینا چاہتے ہیں اور ٹرمپ کو اگر اچھی ڈیل کےلئے پاکستان پر ایک آدھ حملہ بھی کرنا پڑا۔ اگر میاں نواز شریف سے ملاقات بھی کرنا پڑی اور اگر جنرل باجوہ کی جمہوریت پسندی کی تعریف بھی کرنا پڑی تو یہ کر گزریں گے۔

یہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسی ڈیل کریں گے جو آج تک امریکا کا کوئی صدر نہیں کر سکا۔ یہ ان کا خواب ہے لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا ٹرمپ پاگل نہیں ہیں۔ یہ ہم سب کو پاگل بنا رہے ہیں۔ یہ ڈیل میکر ہیں۔ یہ اچھی ڈیل کےلئے میز تیار کر رہے ہیں اور ہمیں ان سے بچ کر رہنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔