ویلنٹائن ڈے

محمد شاہد خان

محبت ایک فطری عمل ہے اور محبت کا جذبہ قدرت نے نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر مخلوق کی طبیعت میں ودیعت کی ہے اگر محبت نہ ہوتی تو دنیا کا کوئی بھی رشتہ مستحکم نہ ہوتا، محبت ایک جذبہ ہے ایک کشش ہے ایک مقناطیسی قوت ہےایک کیفیت ہے جسے بیان کم اور محسوس زیادہ کیا جاسکتا ہے، زمین ہم سے محبت نہ کرتی تو اتنی نرم نہ ہوتی اگر آسمان ہم سے محبت نہ کرتا تو کب کا ہمارا سائبان چھن چکا ہوتا اور پہاڑ محبت نہ کرتا تو یوں کرۂ ارضی کا توازن کب کا بگڑ چکا ہوتا اگر سمندر محبت نہ کرتا تو دنیا کب کی غرق ہوچکی ہوتی اگر ہوا محبت نہ کرتی تو کائنات کب کی غبار ہو چکی ہوتی اگر آگ محبت نہ کرتی تو دنیا جل کر راکه ہو گئی ہوتی۔  بقول میر تقی میر:

محبت نے ظلمت سے کاڑها ہے نور
محبت نہ ہوتی نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچه زمانے میں ہے

ماں باپ کا رشتہ، اولاد کا رشتہ زن وشوہر کا رشتہ، بھائی بہن کا رشتہ یہ سارے رشتے محبت کی بنیاد پر ہی قائم ہیں ، لیکن یہ سارے رشتے قدرت کے اصولوں کے تحت چل رہے ہیں اور ایک الہی و سماجی قانون اسے صحیح ضابطوں کا پابند کئے ہوئےہے لیکن انھیں محبت کے رشتوں کے درمیان میں ایک اجنبی محبت کا رشتہ بھی ہے اور وہ ہے "صنف سخت” اور صنف نازک کا ایک دوسرے کی طرف غیر معمولی میلان، بابا آدم سے لےکر آج تک مرد وزن محبت کے اس فطری جذبے کے تحت ایک دوسرے کی طرف کھنچتے رہے ہیں اور معاشقے کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ ہر سماج میں چوری چھپے انجام پاتےرہے ہیں اور سماج ہمیشہ اس طرح کے تعلقات کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتا رہا ہے۔

یہ عشق انفرادی جشن سے نکل کب اجتماعی جشن میں تبدیل ہوگیا اور عشاق نے کب سے 14 فروی کو محبت کے تہوار کے طور پر منانا شروع کردیا، اس بابت کافی اختلاف پایا جاتا کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ولینٹائن نامی ایک پادری تھے اور ان کو ایک nun پسند آگئی تھی لیکن عیسائیت میں پادری اور nun میں شادی نہیں ہوسکتی اس لیے انھوں نے وصال کی یہ ترکیب نکالی کہ اگر 14 فوری کو ان کا ملاپ ہوجائے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا اور اس طرح وہ دونوں ایک ناجائز تعلق کے مرتکب ہوگئے اور چرچ کی مان مریادا کی دھجیاں اڑا دیں۔

اس جرم کی پاداش میں چرچ نے انھیں سزائے موت دے دی اور کچھ منچلوں نے انھیں شہید محبت کا خطاب دے دیا اور اس دن کو بطور "یوم عاشقاں ” منایا جانے لگا، ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے لشکر تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر میدان جنگ میں جانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی، بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کروایا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دلوا دی۔

بہرحال داستانیں اور بھی ہیں لیکن چرچ سمیت مسلم سماج ہندو سماج اور بہت سارے اسلامی و غیر اسلامی ممالک نے اس کی پرزور مخالفت کی ہے کیونکہ اس سے جنسی بے راہ روی کو بڑھاوا ملتا ہے، اسلام میں محبت منع نہیں لیکن غیر محرم کے ساتھ میل ملاپ درست نہیں ہے تاوقتیکہ نکاح نہ ہوجائے، جب دو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو اس جذبے کو خدائی احکام کا پابند کرنا لازمی ہے، اس کے بعد وہ شوق سے ویلنٹائن ڈے منائے اپنی بیوی سے اظہار محبت کرے اسے گلاب کا پھول پیش کرے اور کوشش کرکے اسی سے عشق بھی کرے۔ کیونکہ مغربی تہذیب کی ہر چیز اچھی نہیں ہوتی اس لیے خدا اور خدائی کی بات مان لینے ہی میں خیر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ویلنٹائن ڈے کا جواز؟

    ویلنٹائن ڈے کے نام پر فحاشی ،بےحیائی اور اخلاق باختگی پر مبنی کلچر، یورپ کی سیکولر اور گندی تہذیب کا زہریلا پودا ہے.
    یورپ کا معاشرہ جہاں جنسی بے راہ روی اور بن بیاہی ماؤں کا کلچر عام ہو چکا ہے وہ نتیجتاً خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ طلاق کی خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح، تمام تر بےحیائی کے باوجود جنسی زیادتی اور خواتین کو ہراساں کرنے کے عام واقعات اس معاشرے کا المیہ بنتے جارہے ہیں۔
    سورہ النور میں اللہ رب العزت مؤمن مردوں سے مخاطب ہے کہ:

    "مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے ۔

    ” (النور، 30)

    جب کہ خواتین کےلیے اس سے اگلی ہی آیت میں حکم ہےکہ:

    "مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں!
    تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔

    "(النور، 31)

    یہ حیاء اور پاکیزگی کا کلچر ہے جو اسلامی تہذیب کا خاصہ ہے۔ اسلام بےحیائی کو روکنا اور نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کو عام کرنا چاہتا ہے اور نکاح سے پہلے لڑکی لڑکے کی ایک دوسرے کو دیکھنے پر کوئی ممانعت نہیں بلکہ لڑکی اور لڑکے کی رضامندی شرائط نکاح میں سے ہے۔

    یہاں چند خود ساختہ بھولے لبرلز اس دلیل کے ساتھ "ویلنٹائن ڈے ” جیسی بےحیائی کا جواز دیتے ہیں کہ محبت کا اظہار تو اس دن بہن بھائی، باپ بیٹی، ماں بیٹا، جیسے رشتوں سے بھی ہو سکتا ہے، ضروری تو نہیں محبوبہ سے ہی اظہار محبت کیا جائے وہ ذرا بد کردار فادر ویلنٹائین کی تاریخ پڑھیں اور پھر ایسی بودے اور بھونڈے دلائل تراشیں۔ دراصل یہ نفس کے غلام اور بےحیائی کے رسیا شراب وشباب کی کھلم کھلا مجالس کو عام کرنے کی راہوں کےمتلاشی ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ ناآسودہ خواہشات کی تسکین میں بنی نوع انسانی بھی پہنچا سکیں۔
    ذیل میں ویلنٹائن ڈے کی تاریخ دی جارہی ہے اسے پڑھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا اس بےحیا کلچر کو عام کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

    تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے، یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں ٫دن، منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہےتھے.

    اللہ سےدعاہےکہ بارالہ اس قبیح لعنت سےپوری دنیابالخصوص عالم اسلام کومحفوظ رکھیے.آمین

تبصرے بند ہیں۔