انسان اور زمین کی حکومت (قسط 10)

رستم علی خان

کشتی سے اترنے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے متبعین نے خدا کے حضور شکرانہ ادا کیا اور روزہ رکھا اور وہ دس محرم کا دن تھا- بعد اس کے حضرت نوح علیہ السلام نے ایک بستی بسائی جس کا نام "ثمانین” رکھا عربی میں اس کے معنی "اسی” (80) کے ہیں- چونکہ کشتی میں کل اسی لوگ تھے تو اسی مناسبت سے بستی کا نام بھی یہی رکھا گیا- اور آپ نے ذمین پر سب سے پہلے "آس” کا درخت لگایا-

اور بعد اس کے حضرت نوح نے اپنے بیٹے "سام” کے ساتھ (جنہیں بعد میں ولی عہد بنایا گیا) حضرت آدم علیہ السلام کے تابوت کو کشتی سے نکالا اور انہیں جہاں وصیت فرمائی گئی تھی دوبارہ دفن کر دیا گیا-

کشتی سے اترنے کے بعد اللہ نے حضرت نُوحؔ اور اُنکے بیٹوں کو برکت دی اور اُنکو زمین پر پھیل جانے اور اپنی نسل بڑھانے میں برکت دی- اور زمین کے باوی جانوروں اور پرندوں میں بھی برکت دی اور انہیں حضرت نوح کے تابع رکھا– مزید فرمایا کہ ان جانداروں کا گوشت جنہیں تم پر ہلال کیا گیا ہے کھاو اور ذمین سے اگنے والا اناج اور سبزیاں اور فصلیں – مگر تُم گوشت کے ساتھ خون کو جو اُسکی جان ہے نہ کھانا۔ اور کھیتی کرو اور اللہ برکت دینے والا ہے اور زمین پر پھیل جاو اور آپس میں نہ لڑنا اور شیطان کی چالوں سے بچنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اللہ کی پناہ مانگتے رہنا اور حکم عدولی نہ کرنا بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

روایات میں آتا ہے کہ عذاب کے بعد جب ساری قوم اپنے بتوں سمیت ہلاک ہو گئی تو اللہ جلا شانہ ھو نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ اب آپ مٹی کے برتن بناو اور برتن بنانے کی راہنمائی فرمائی- حضرت نوح علیہ السلام جب برتن بنانے لگے تو کئی دن برتن بنانے میں گزر گئے اور برتنوں کا ڈھیر لگ گیا- تب اللہ کی طرف سے دوسرا حکم ہوا کہ اب ان برتنوں کو توڑ دو- حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا؛ یا اللہ میں نے بڑی محنت اور آپ کے حکم سے بنائے تھے- اور اب آپ انہیں توڑنے کا حکم دے رہے ہیں۔

اللہ تعالی نے فرمایا؛ اب ہمارا حکم ہے کہ انہیں توڑ دو-

چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں توڑ دیا- لیکن دل دکھا کہ اتنی محنت اور محبت سے بنائے اور اب توڑ دئیے-
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا؛ اے نوح تم نے یہ برتن اپنے ہاتھوں سے بنائے اور ہمارے حکم سے بنائے- لیکن تمہیں ان سے اتنی محبت ہو گئی کہ جب میں نے تمہیں انہیں توڑنے کا حکم دیا تو تم سے توڑے نہ جا رہے تھے- دل کر رہا تھا کہ یہ برتن جو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے اور ان پر محنت کی کسی طرح بچ جائیں- لیکن تم نے ہمیں نہ دیکھا کہ ساری مخلوق اپنے ہاتھ سے بنائی اور تم نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ-

"اے اللہ زمین پر بسنے والے تمام کافروں کو ہلاک کر دے اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے”

تمہارے اس کہنے پر ہم نے اپنی ساری مخلوق کو ختم کر دیا- اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ جس مٹی سے تم برتن بنا رہے وہ مٹی بھی تمہاری نہیں – اور بنا بھی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ہمارے حکم سے بنا رہے تھے- پھر بھی تمہیں ان سے اتنی محبت ہو گئی کہ توڑتے ہوئے دل دکھا- تو کیا ہمیں اپنی مخلوق سے محبت نہ ہو گی-

بعد اس عذاب کے حضرت نوح علیہ السلام چالیس اور بعض روایات میں ہے کہ پچاس سال بعد وفات پا گئے اور آپ کی قبر مسجد حرام میں ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کے چار بیٹے تھے "حام بن نوح” سام بن نوح” یافث بن نوح” اور کنعان بن نوح محتصر احوال ان چاروں کے بارے میں۔

  سام بن نوح : ابراہیمی روایت کے مطابق نوح کے بیٹوں میں سے ایک ہیں۔ سام کی اولاد گورے رنگ کی ہے جبکہ حام کی اولاد سیاہ فام ہیں۔ سام کے پانچ بیٹے تھے- عیلام- اسور- ارفکسد- الُود-، ارم-

حام بن نوح : نوح کے دوسرے بیٹے جن کا توریت میں مفصل ذکر ہے۔ قرآن مجید میں ذکرتو ہے لیکن نام نہیں آیا۔ اسی واسطے مفسرین میں اختلاف ہے جو لوگ توریت کی روایت کو صحیح سمجھتے ہیں۔ وہ ان کو حضرت نوح کا نافرمان لڑکا بتاتے ہیں۔ جو کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا بلکہ طوفان میں غرق ہو گیا تھا۔ برخلاف اس کے طبری نے غرق ہونے والے لڑکے کو حضرت نوح کا چوتھا بیٹا لکھا ہے۔ اوراس کا نام کنعان بتایا ہے۔ حام کے متعلق لکھا ہے کہ بچنے والے تین لڑکوں میں سے ایک تھا۔ اور طوفان میں ختم ہونے کے بعد جب زمین تقسیم ہوئی تو حام کو مصر، سوڈان،  جیش اور توبہ کے علاقے ملے۔ ان کی اولاد میں سیاہ فام ہیں۔ کہتے ہیں نمرود بھی انہی کی نسل سے تھا۔ حام کا ایک بیٹا یام یا کنعان تھا روایات میں اختلاف بھی ملتا ہے کچھ کے نزدیک یہ نوح علیہ السلام کا غرق ہونے والا بیٹا تھا (واللہ اعلم الصواب)

حام کی اولاد کے بارے تورات میں مذکور ہے- بنی حامؔیہ میں "کُوشؔ” اور "مصر”ؔ اور” فُوط”ؔ اور "کنعؔان” کا ذکر ملتا ہے-

یافث بن نوح : حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا جو آپ کے ساتھ نجات پانے والوں میں سے تھا اور ان کی نسل سے ترک، صقابلہ اور یاجوج ماجوج تھے-یافث کا ایک بیٹا تھا جس کا نام یوان بن یافث یا یونان بن یافث تھا اور اسی کے نام پر یونان ملک کا نام ہوا- .تورات میں اولاد یافث کے بارے میں پیدائش کے باب میں ان کی اور اولادوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کے نام "حُمر”ؔ اور "ماجو ؔجاور ماؔدی (یاجوج ماجوج)” اور "یاوؔان” اور "تؔوبل "اور "مؔسکاور تِیراس” ہیں-

کنعان بن نوح : نوح کا وہ بیٹا جو ایمان نہ لایا نوح کا بیٹا "یام” جس کالقب کنعان تھا اور کنعان کی والدہ "وہلہ” گھر والوں میں سے یہ دونوں علٰیحد رہے اور غرق ہوئے۔ نوح نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کو کہا لیکن وہ سوار نہ ہوا اور غرق ہوگیا حالانکہ توریت کے سفر مذکور میں نوح کے تین بیٹے لکھے ہیں۔ سام، حام، یافث اور تینوں کا کشتی میں سوار ہونا اور طوفان سے نجات پانا لکھا ہے اور نیزمفسرین اسلام اس بیٹے کا نام کنعان بتلاتے ہیں حالانکہ کنعان حام کا بیٹا نوح کا پوتا ہے۔ ایک بیٹا (کنعان یا۔ یام) اور حضرت نوح علیہ السلام کی اہلیہ (وَ عِلَۃ) یہ دونوں کافر تھے، ان کو کشتی میں بیٹھنے والوں سے مستشنٰی کردیا گیا- حضرت نوح علیہ السلام کی ایک بیوی اور آپ کے بیٹے "یام” (کنعان) کے بارے میں تھا‘ جو اسی بیوی سے تھا‘ جبکہ آپ کے تین بیٹے حام، سام اور یافث ایمان لا چکے تھے اور آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ حضرت سام اور ان کی اولاد بعد میں اسی علاقے میں آباد ہوئی تھی۔ چنانچہ قوم عاد‘ قوم ثمود اورحضرت ابراہیم علیہ السلام سب سامئ النسل تھے۔ حام اور یافث دوسرے علاقوں میں جا کر آباد ہوئے اور اپنے اپنے علاقوں میں ان کی نسل بھی آگے چلی۔ جو ان شآء اللہ آگے تحریر ہو گا-

ان کے علاوہ حضرت نوح کا ایک بیٹا عابر بھی تھا جو طوفان سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا۔

اولاد سام بن نوح  

حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے کہ عربوں کے فرزندان نوح میں عربوں کے ابوالآباء سام بن نوح ہیں- خبشیوں کے جدامجد ہام ہیں اور رومیوں کے جداعلی یافث بن نوح ہیں-

تورات میں مذکور ہے کہ کشتی سے اترنے کے بعد حضرت نوح نے ذمین پر کھیتی باڑی کی اور سب سے پہلے انگور کی بیل لگائی-
ایک دن حضرت نوح علیہ السلام نے اس میں سے انگور کے گچھے توڑ کر ان کا عرق نکال کے پئیا جس کی وجہ سے آپ پر مدہوشی طاری ہو گئی اور وہ (نشے کی وجہ سے) برہنہ ہو گئے اور اپنے گھر آ کے پڑ گئے- (یہاں یہ ذکر کرتے چلیں کہ روایات میں آتا ہے کہ شراب سب سے پہلے حضرت نوح کے دور میں ایجاد ہوئی) جب کنعان یا یام جو کہ ہام کا بیٹا تھا نے حضرت نوح کو اس حال میں دیکھا تو اس نے سام اور یافث کو اس کے متلعق بتایا- انہوں نے ایک کپڑا لیا اور الٹے پاوں (یعنی منہ پیچھے کی طرف کر کے) چلتے ہوئے جا کے حضرت نوح کی برہنگی کو ڈھکا- جب حضرت نوح کی طبیعت سنبھلی اور انہیں اس واقعے کی تفصیل معلوم ہوئی تب انہوں نے سام کو دعا دی کے تمہاری نسل فتوحات کرے گی اور قبیلوں میں رہے گی اور وہ بڑھیں گے- اور یافث کو بھی کہ تمہاری نسل بھی بڑھے گی اور سام کے گھروں اور قبیلوں میں ہو گی- اور کنعان کو کہ تمہاری نسل اولاد سام و یافث کی غلام ہو گی (کہ اس نے دوسروں کو حضرت نوح کی برہنگی کے بارے بتایا اور خود ان کا پردہ نہ رکھا) واللہ اعلم الصواب

سعید بن المصعیب کہتے ہیں حضرت نوح کے تین بیٹے تھے- سام، ہام، اور یافث-

سام سے تو اقوام عرب، روم، اور فارس پیدا ہوئے کہ ان سب میں خیر اور فلاح ہے-

ہام سے اقوام سوڈان، بربر و قبطی پیدا ہوئے- اور یافث سے ترک، صقالیہ، یاجوج ماجوج اور منگول وغیرہ قومیں پیدا ہوئیں-

ابن عباس کہتے ہیں اللہ تعالی نے حضرت موسی کے پاس وحی بھیجی کہ؛ اے موسی ! تو اور تیری قوم اہل جزیرہ اور اہل اعلی یعنی بالائی عراق کے باشندے سام بن نوح کی نسل سے ہیں-

ابن عباس ہی کہتے ہیں ؛ عرب، ایرانی، قبطی اور ہندوستانی بھی سام بن نوح کی اولاد ہیں-

محمد بن سائب کہتے ہیں ؛ ہندوستانی یوفر بن یقتن بن عابر بن شالخ بن رفحشند بن سام بن نوح کی اولاد ہیں-

مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ قوم جرہم وغیرہ جرہم بن عاجر بن سبان بن یقتن بن عابر بن شالخ بن رفحشند بن سام بن نوح کی اولاد ہیں

حضر الموت کے قبائل وغیرہ حضر الموت بن یقتن بن بن عابر بن شالخ بن رفحشند بن سام بن نوح کی اولاد ہیں-

یہ ان راویوں کا قول ہے جو حضر کو بنی اسماعیل سے منسوب نہیں کرتے- یقتن ہی کا نام قعطان تھا-

اس کے علاوہ مورخین یہ بھی کہتے ہیں کہ پارسی یعنی فارسی ایرانی فارس بن ببرس بن یاسور بن سام بن نوح کی اولاد ہیں- اور جہاں تک قبطی قوم کا تعلق ہے تو وہ قبیط بن ماش بن ارم بن سام بن نوح کی نسل سے ہیں – اہل جزیرہ ماش بن ارم بن سام بن نوح سے ہیں-
اور عمالقہ جنہیں تاریخ کے اوراق میں ہکوس اور چرواہے بھی کہتے ہیں – یہ بھی حضرت نوح کے بیٹے سام کی نسل سے ہیں – یہی وہ عمالقہ ہیں جنہیں عمالیق بھی کہا گیا- انہیں عمالیق نے نہ صرف مصر پر حکومت کی بلکہ جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں داخل ہوئے انہیں عمالقیوں کی حکومت تھی- اور یہی مدینتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم جس کا پرانا نام یثرب تھا وہاں بھی ان کی حکومت تھی۔

انہیں عمالقیوں سے متعلق مورخین لکھتے ہیں یہ علیق بن لوذ بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے- اور اس عملیق کا نام اریب بھی تھا جو قوم عمالقہ کا ابوالآباء تھا-

اس کے علاوہ بربر بھی عمالقہ ہی کی شاخ ہیں جن کا سلسلہ یوں ہے۔

بربر بن تمنیلہ بن مازوب بن فران بن عمرو بن عمالیق بن لوزی بن سام بن نوح-

افریقہ کے مشہور بربر قبائل جن میں ضہائبہ اور کتامہ شامل ہیں- یہ اگرچہ بربر ہیں لیکن عمالقہ کی اولاد سے نہیں ہیں بلکہ یہ افریقیش بن قیس بن سیفی بن سبا بن قعطان بن عابر بن شالخ بن افحشند بن سام بن نوح کی اولاد ہیں- کہا جاتا ہے کہ بابل سے نکلتے ہی عمالیق نے پہلے پہل عربی میں باتیں کیں- عرب العرباء انہی اعمالیقیوں اور بنی جراہم کو کہا جانے لگا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔