ماہ صفر میں رائج بدعات و توہمات

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

دین اسلام ایک نہایت ستھرا اورپاکیزہ مذہب ہے، اور یہی وہ فطری دین ہے جو قیامت تک کے تمام مسلمانوں کیلئے ایک جامع دستور العمل اور مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت رکھتاہے؛ اسکے احکام، آفتاب نیم روزسے زیادہ روشن اورماہتاب شب افروزسے زیادہ واضح ہیں ؛ اسکی تعلیمات نہایت عمدہ، صاف اور صلاح و فلاح کی ضامن ہیں۔

بنیادی طور پردین اسلام دو چیزوں سے مرکب ہے (۱)عقیدہ (۲) عمل۔ اور یہ بات بھی طئے ہے کہ وہ صحیح عقیدہ اور عمل ہی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ومعتبر ہے جس کی شریعت نے تعلیم دی ہے اور اس عقیدہ و عمل کا کوئی اعتبار نہیں جوکلی یا جزئی طور پر دین اسلام کی تعلیمات کے مغائر و مخالف ہے۔

 موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات سے دوری اور بے رغبتی عام ہوتی جارہی ہے ؛ جسکا لازمی نتیجہ عقیدہ و عمل میں خرابی اور بگاڑ کی شکل میں رونما ہورہاہے اور اسی کا ایک حصہ بد شگونی، توہم پرستی اور خود ساختہ فاسد خیالات اور عقائد ہیں ، اس سلسلہ میں بعض مروجہ اعمال و افکار اور رسوم و رواج اس قدر لوگوں کے دلوں میں رچ بس گئے ہیں کہ اگر اس طرح اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات پر توکل اور اسکی قدرت کا یقین اور تقدیر پر ایمان دلوں میں راسخ ہوجائے تو دارین کی سعادت مندی نصیب ہوجائے ؛ من جملہ ان فاسد عقائدکے کچھ وہ جاہلانہ نظریات بھی ہیں جو ماہ صفر سے متعلق معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔

صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے جس کے بارے میں لوگوں کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ؛جہاں ایک طرف اس کے ساتھ بہت سی توہمات اور بدشگونیاں وابستہ کر لی گئی ہیں ، وہیں د دوسری طرف ان کے خود ساختہ حل بھی تلاش کر لئے گئے ہیں ،صفر کا مہینہ اسلام سے پہلے بھی منحوس سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے نیک فالی کے طور پراسے صفر الخیر یا صفر المظفر(کامیابی کا مہینہ)کانام دیا۔

 صفر کے معنی اور وجہ تسمیہ:عربوں کے ہاں چار مہینے حرمت کے تھے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ان مہینوں میں وہ ہر قسم کے جنگ و جدل سے باز رہتے  اور اس انتظار میں ہوتے کہ جیسے ہی یہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو وہ لوٹ مار کا بازار گرم کریں ؛ لہٰذا صفر شروع ہوتے ہی وہ قتل و غارت گری، لوٹ مارو رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے گھروں سے نکلتے تو ان کے گھر خالی ہو جاتے اس طرح عربی میں یہ محاورہ ”صفر المکان“ (گھر کا خالی ہونا) مشہور ہو گیا چنانچہ معروف محدث اور تاریخ داں علامہ سخاوی نے اپنی کتاب ”المشہور فی اسماء الایام و الشھور“ میں صفر کے مہینے کی یہی وجہ تسمیہ لکھی ہے، نیزصفر کو صفر اس لئے بھی کہتے ہیں کہ لگاتار حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد باشندگان مکہ جب سفر کرتے تھے تو سارامکہ خالی ہوجاتا ( ابن منظور کی کتاب لسان العرب)

 ماہ صفر میں رائج بدعات:(1) ماہ صفر اور خصوصا اسکے ابتدائی تیرہ دن…… جنہیں لوگو ں نے تیرہ تیزی سے موسوم کیا ہے …… کو منحوس جانتے ہیں اور ان میں آفات و بلیات اور مصیبتوں کے نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں حتی کہ بعضوں نے سینکڑوں کی تعداد میں آفات و بلیات کے نزول کی اور ماہ صفر کے منحوس ہونے کی بے اصل اور من گھڑت روایات بھی نقل کرلی ہیں ۔ (2) اس ماہ میں رشتہ اور شادیاں نہیں کی جاتیں بلکہ جن کی شادی ہوچکی ہوتی ہے ابتداء میں ان شوہر اور بیوی کو تیرہ دن تک جدا رکھا جاتا ہے اس نظریہ سے کہ ان ایام میں ان کا تعلق آپس میں کشیدگیوں اور نزاع کا باعث ہوگا۔(3) اس ماہ میں سفر نہیں کیا جاتا اور کسی نئے کام کا آغاز مثلاًدکان یا مکان کی افتتاح وغیرہ نہیں کی جاتی؛ اس بنا پر کہ اس ماہ کی نحوست کی وجہ سے یہ سب کام باعث خیر نہ ہونگے۔ (4) تیرہویں تاریخ کی صبح کو تیرہ تیزی کی مخصوص خیرات، آفات و بلیات سے حفاظت کے لئے بطور صدقہ فقراء میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ (5) ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو سیر و تفریح کے لئے نکلتے ہیں جسکا نظریہ یہ ہے کہ اس روز نبی اکرم ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا اور تفریح فرمائی تھی یہ تمام کے تمام جاہلانہ نظریات اور بے حقیقتباتیں ہیں شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں اگر ماہ صفر میں نحوست ہوتی یا یہ آفات وبلیات کا مہینہ ہوتا تو شریعت میں اسکا ضرور تذکرہ ہوتا اور اس سے حفاظت کے طریقے بھی بتائے جاتے لیکن قرآن و حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے ؛بلکہ صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث کی سینکڑوں روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماہ صفر میں قطعا کوئی نحوست نہیں ہے۔ دین اسلام نے کبھی کسی مہینہ اور کسی دن کو منحوس قرار نہیں دیا، لھذا کوئی وقت برکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہوسکتا ہے جیسے ماہ محرم، ماہ رمضان، سال کے متبرک شب و روز اور جمعہ کی ساعت اجابت (قبولیت کی گھڑی) وغیرہ ؛لیکن نحوست والا قطعی نہیں ہوسکتا، اور ماہ صفر میں انجام دیئے جانے والے یہ تمام امور اور اس سے متعلق نظریات خود ساختہ ہیں ، اب رہا آخری چہارشنبہ سے متعلق نظریہ سو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ اس روز آنحضرتﷺصحت یاب نہیں ہوئے بلکہ مرض الموت ……جس میں آپﷺ 13 دن تک بیمار رہے اس بیماری ……کی ابتداء اس دن سے یعنی ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ سے ہوئی جو بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوا۔ لہٰذا یہ آپ کے مرض وفات کے آغاز کا دن تھا نہ کہ صحت یابی کا، ( فتاوی رشیدیہ ) چنانچہ ؛مفتی عبدالرحیم صاحب ؒفرماتے ہیں : ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں ۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ ۶۲/صفر ۱۱ھ دو شنبہ کو آں حضرت ﷺنے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور 27/صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زیدؓ امیرِلشکر مقرر کیے گئے، 28/صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپﷺ بیمار ہوچکے تھے ؛ لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے )کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپﷺکی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ ﷺنے حضرت ابو بکرؓ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ)

 اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ 28/ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرتﷺکے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں ؛ البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں مناناوغیرہ، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں “۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعۃ والرسوم وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ، دارالاشاعت)

لمحۂ فکریہ:حضور اکرم ﷺکے مرض وفات کے آغاز پر یہود کا جشن کے طور پر آخری چہارشنبہ منانا تو انکی اسلام دشمنی کی وجہ سے ظاہر اور واضح ہے لیکن اہل اسلام اس امر میں غور کریں کہ وہ آخری چہارشنبہ کی اس یہودیانہ رسم کو اپنا کر کہیں حضور اکرم ﷺ کی مرض وفات کا جشن منانے میں صورتاً یہود کی موافقت تو نہیں کر رہے ہیں ؟؟ ؟

ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید:

اس مہینے کے تعلق سے لوگوں میں جو مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں ان کی تردید نبی اکرم ﷺنے جا بہ جا متعدد احادیث میں فرمائی ہے :

(۱)اللہ کی مشیت کے بغیرکوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اُلو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔(رواہ البخاری )

نیزحدیث میں ہے :(۲)کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے، کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے۔ (رواہ ابو داؤد )

سنن ابوداؤدکی اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ :جا ہلیت میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا)نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے چنانچہ جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا۔

(۳)ایک اور حدیث میں ہے : جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقیناً اس نے شرک (اصغر)کا ارتکاب کیا۔ (رواہ احمد فی مسندہ)

 الغرض : ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے، اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا؛بلکہ قرآن مجید میں اس کاصاف اعلان فرمادیا : کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیداکریں ۔(سورۃ الحدید) لہٰذا ایسے جاہلانہ خیالات جو غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں ان سے بچنا از حد ضروری ہے، آج یہی فاسد نظریات مسلم اقوام میں بھی دَر آئے ہیں ، اس لیے ماہ صفر بالخصوص اس کی ابتدائی تاریخوں کو منحوس سمجھنا سب جہالت کی باتیں ہیں ، دین اسلام کے روشن صفحات ایسے توہمات سے پاک ہیں ، کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں ، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے۔

سعادت و نحوست کا معیار!:حقیقت یہ ہے کہ نحوست اور سعادت کا معیار انسان کا اپنا عمل ہے، ہر وہ نیک عمل جو خالص اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو چاہے وہ سال کے کسی مہینے اورمہینے کے کسی روز وشب میں ہو، وہ مہینہ اور وہ زمانہ باسعادت ہے اسی طرح ہر برا عمل جسے انسان نے اپنی زندگی کے کسی بھی وقت انجا م د یا ہو وہ وقت اس کے لیے نحوست کا باعث ہے، بالفاظِ دیگر دین و شریعت کے احکامات وتعلیمات پر عمل کرنے کے لئے جدوجہد کرنے، اللہ اور رسول کی بتائی ہو ئی باتوں اور سنتوں کا اہتمام و التزام کرنے نیز اوامر کے امتثال و نواہی سے اجتناب کی سعی کرنے میں جو وقت گذرتا ہے وہ وقت انسان کی نیک بختی و سعادت مندی،فلاح وظفرمندی اورفوز و کامرانی کا سبب بنتا ہے جوہرمردِ مومن کے لئے اس کے ایمان کی تروتازگی اور نشوونما کا باعث ہے، اس کے برعکس خلافِ شریعت، ترکِ سنت، اورارتکاب معصیت کی وجہ سے انسان پر غیر شعوری طریقے سے جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اسکی زندگی میں قباحتوں اور نحوستوں کا احساس دلاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ بعینہ اسی وقت کو منحوس سمجھنے لگتا ہے، الغرض صفر، مظفر ہے صفر باظفر ہے، صفر نے غزوات کے سب سے پہلے غزوہ، غزوۃ الابواء سے اسلام کو کامیابیاں بخشی ہے، صفر نے صحابہ کرام سابقینِ اولین کو جینے کا حوصلہ دیا ہے، سن ۴ ھجری ماہ صفر میں میں رحمت دوعالمﷺنے اُم المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہاسے اورماہ صفرسن ۷ہجری میں اُم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایاہے۔

اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم بدشگونی اور بدفالی کے اس عمل کو چھوڑ کر عزم و یقین، خلوص و نیک نیتی اورتقوی و للہیت کے ذریعہ ماہِ صفر میں بلا تأمل ہر وہ عمل کریں جوہم شبانہ روز ماہ و سال کے دوران مختلف مواقع سے کرتے رہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔