موجودہ حالات میں اسلام کی رہ نمائی

مولانا سید جلال الدین عمری

عید الفطر کے وقت ملک کی جو سیاسی صورت حال تھی، دو ماہ دس دن کے بعد  عید الاضحی آئی ہے، لیکن ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، بلکہ مسلمانوں اور یہاں کی اقلیتوں میں عدم تحفظ (Unsecurity) کا احساس بڑھا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمان پندرہ تا بیس کروڑ ہیں، لیکن ان کی اس پریشانی کو نہ حکومت محسوس کر رہی ہے نہ کوئی سیاسی جماعت۔ کسی کے بھی ایجنڈے میں مسلمانوں کے مسائل کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی گویا قابل ذکر ہی نہیں ہے۔ سیاسی بحثیں ہوتی ہیں، لیکن اس میں اس بڑی امت کے مسائل کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں جماعت ذکر کر رہی ہے اور فلاں جماعت ذکر نہیں کر رہی ہے۔ کوئی بھی جماعت آپ کے کسی مسئلے کو اپنانے یا سیاسی سطح پر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

 حالات پوری طرح آپ کے سامنے ہیں۔ ان حالات میں بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں :

1۔ حالات سے باخبر رہیے

 پہلا کام یہ ہے کہ حالات سے باخبر رہیے۔ اپنے گردو پیش کے حالات سے باخبر رہیے، ملک کے بلکہ پوری دنیا کے حالات سے واقف رہیے اور مناسب تدابیر اختیار کیجیے۔ یہ نہ ہو کہ جب کوئی واقعہ پیش آجائے تو ہم کہیں کہ ہمیں اس کی توقع نہیں تھی، ہمیں اس کا اندازہ نہیں تھا، یا ہم اس طرح نہیں سوچ رہے تھے۔ زندہ قوموں کی علامت یہ ہے کہ وہ حالات سے باخبر رہتی ہیں اور نازک سے نازک حالات میں اپنے لیے راہیں نکالتی ہیں۔ آپ اپنے عمل سے اپنی زندگی کا ثبوت پیش کیجیے۔ حالت جنگ میں قرآن کی تعلیم ہے: خُذُواْ حِذْرَکُم۔النسائ: 71۔(اپنی احتیاط رکھو)۔ یہ ہدایت ہر طرح کے نازک حالات کے لیے ہے۔

2۔ حوصلے اور ہمت کے ساتھ رہیے

دوسری بات یہ ہے کہ حوصلے اور ہمت کے ساتھ رہیے۔ یہ نہ ہو کہ آپ گھبرا کر حوصلہ چھوڑ بیٹھیں اور آپ کا عزم یا ارادہ ڈگمگانے لگے۔ پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے۔ وہ نازک سے نازک حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے۔ ہر پیغمبر کی تاریخ سے اس کا ثبوت ملے گا۔ حضرت موسی ؑ بنی اسرائیل کو لے کر دریائے نیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پیچھے سے فرعون کا لشکر آگیا۔ بنی اسرائیل پر دہشت طاری ہو گئی اور کہنے لگے : إِنَّا لَمُدْرَکُون۔ الشعرائ: 61۔ (اب ہم بچ نہیں سکتے) اب  تو ہم پکڑے گئے۔ سامنے دریا ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر ہے۔ اس نازک صورت حال میں حضرت موسیٰؑ فرماتے ہیں : کَلَّا إِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ۔ (ہر گز نہیں، میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے راستہ دکھائے گا)۔ حضرت موسیؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا پر عصا مارا تو دریا شق ہو گیا اور دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ حضرت موسیٰؑ اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر نکل گئے۔ فرعون نے دیکھا کہ راستہ کھلا ہے تو وہ بھی اپنی فوج کے ساتھ دریا میں اترگیا۔ اس وقت دریا کے دونوں پاٹ مل گئے۔ حضرت موسیٰ  ؑ بنی اسرائیل کے ساتھ دریا پار کر گئے اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ غرق ہو گیا۔ آپ نے دیکھا، کیسے نازک حالات تھے اور عزم کا یہ حال ہے کہ سامنے دریا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ حضرت موسیٰؑ کہہ رہے ہیں : ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ جس خدا کے بھروسے پر ہم نکلے ہیں، وہ ہمیں یوں ہی نہیں چھوڑے گا، وہ راستہ دکھائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کے راستے میں جو لوگ نکلتے ہیں ان کے لیے اللہ راستہ نکالتا ہے۔

 ایک اور مثال دیکھیے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ ہجرت کے موقع پر غار ثور میں روپوش تھے۔ دشمن آپ کی تلاش میں غار کے قریب پہنچ گئے۔ حضرت   ابو بکرؓ کو تشویش ہوئی کہ یہ غار کے دہانے پر کھڑے ہیں، کہیں ہمیں دیکھ نہ لیں اور رسول اللہ ﷺ کسی ناگہانی پریشانی سے دو چار نہ ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا۔التوبۃ: 40۔ (غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ دشمن اپنے مقصد میں کام یاب نہ ہوں گے اور وہ کام یاب نہیں ہوئے۔

یہ عزم اور حوصلہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔ اگر آپ اللہ کے دین پر قائم ہیں اور سرگرم ہیں تو یقین جانیے، اللہ کی مدد آپ کو ضرور حاصل ہوگی۔

3۔ ناامید نہ ہوں

حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، آپ مایوس نہ ہوں۔ مایوسی کسی بھی فرد اور قوم کے لیے سمِ قاتل ہے۔ جب آدمی پر مایوسی طاری ہو جاتی ہے تو وہ خود بخود موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ کسی قوم پر اگر یاس کا عالم طاری ہو جائے تو وہ اپنی قوتِ حیات کھو بیٹھتی ہے۔ حالات سے مایوسی کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف ظاہری صورت حال اور اپنے وسائل و ذرائع کو دیکھ رہے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ موجود ہے، جس کی قدرت بے پایاں ہے۔ وہ چاہے تو بدترین حالت کو خوش گوار ماحول میں تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک مومن کو ہمیشہ اس کی رحمت سے پر امید ہونا چاہیے۔ قرآن کہتا ہے:  وَمَن یَقْنَطُ مِن رَّحْمَۃِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّآلُّون۔ الحجر: 65۔ (بھٹکے ہوئے لوگ ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں ) اللہ کے نیک بندے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے: وَلاَ تَیْْئَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْْئَسُ مِن رَّوْحِ اللّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُون۔ یوسف:81۔( اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس تو کافر ہی ہوتے ہیں۔ )

اس کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ یہ ہے کہ جب ہر طرف خشک سالی چھا جاتی ہے، بارش کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے، پیشین گوئی کرنے والے بھی مایوس ہو جاتے ہیں تو اچانک بادل اٹھتے ہیں اور زمین باران رحمت سے سیراب ہوجاتی ہے:  وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَیَنشُرُ رَحْمَتَہُ وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْد۔ الشوریٰ: 28۔ (وہی اللہ ہے جو بارش اس وقت برسانے لگتا ہے جب کہ لوگ اس سے مایوس ہو جاتے ہیں، وہ اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی سب کا سرپرست اور قابل تعریف ہے)

کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حالات کا رخ بدل سکتا ہے اور ہر طرف اللہ کی رحمت کے آثار ہویدا ہو سکتے ہیں۔

4۔ صبر و استقامت کا ثبوت دیجیے

آپ صبر اور استقامت کا ثبوت دیجیے۔ آپ اپنے موقف پر جمے رہیے۔ استقامت یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین پر ہر حال میں عمل کرتے رہیں۔ خوف اور گھبراہٹ میں دین کا دامن نہ چھوڑ بیٹھیں۔ صبر اور استقامت کام یابی کی کلید ہے۔ آپ استقامت کا ثبوت دیں تو اللہ کی نصرت بھی حاصل ہوگی اور حالات بھی بدلیں گے۔ قرآن کہتا ہے :یٰآیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون۔ آل عمران: 200۔ (اے ایمان والو! صبر کرو اور ثبات قدمی میں دوسروں سے بازی لے جاؤ۔ آپس میں جڑے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔ کام یاب ہو جاؤ گے۔)

تمھارا جن سے مقابلہ ہے اور جو تمہارے حریف ہیں وہ اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں۔ تمہیں چاہیے کہ ان سے زیادہ پا مردی دکھائو اور ان سے زیادہ استقامت کا ثبوت پیش کرو۔ اگر لوگ باطل پر جمے ہوئے ہیں تو کیا دین حق پر ایمان رکھنے والے نہیں جم سکتے؟ آپ کا اپنے مقصد پر جما رہنا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ آپ حق پر ہیں۔ آپ عزم اور ہمت کے ساتھ اعلان کیجیے کہ یہ اللہ کا دین ہے۔ اس پر ہم مرتے دم تک قائم رہیں گے۔ پھر دیکھیے کہ اللہ کی رحمت آتی ہے یا نہیں۔

5۔ جذباتیت سے بچیے

صبر کا ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی جذباتیت اور اشتعال سے بچے۔ ہماری ایک  کم زوری یہ ہے کہ ہم بہت جلد مشتعل اور بے قابو ہو جاتے ہیں۔ غصہ اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت ہم پر چھا جاتی ہے۔ اس کیفیت میں آدمی بسا اوقات ایسے اقدامات کر گزرتا ہے، جس کے نتایج اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی سخت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ کبھی مخالف کی طرف سے بھی اشتعال دلانے اور برانگیختہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے، تاکہ آپ کوئی غلط قدم اٹھائیں اور انھیں اس کا جواب دینے کا موقع مل جائے اور ہم اپنی جذباتیت کی وجہ سے یہ موقع فراہم کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے صبر سے کام لینے اور جذباتیت سے دامن بچانے کا حکم دیا ہے: وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْراً جَمِیْلا۔ المزمل: 10۔ (جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جائو)

مطلب یہ ہے کہ مخاطب کی بد زبانی اور بے ہودگی اور اشتعال انگیزی کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کیجیے اور اسے اس طرح نظر انداز کیجیے جس طرح ایک شریف آد می کسی بد اخلاق اور بدتمیز شخص کو نظر انداز کرتا ہے اور معاملہ اللہ کے حوالے کیجیے۔ اس سے مخالف اپنے ہدف میں ناکام ہو جائے گااور آپ کی اخلاقی برتری ثابت ہوگی۔

6۔اتحاد کا ثبوت دیجیے اور اپنے اختلافات کو ختم کیجیے

 اس ملک میں ہم بیس کروڑ کے قریب ہیں۔ جب اس کا ذکر آتا ہے تو سننے والے حیرت کے ساتھ سنتے ہیں۔ تمام عرب ممالک کی آبادی اس کی ایک چوتھائی نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ہم بیس ٹکڑیوں میں، بلکہ سیکڑوں ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ تمارا وزن اتحاد میں ہے۔ اگر تمہارا اتحاد باقی نہیں رہے گا تو تم ختم ہو جاؤ گے۔ جن مسائل پر ہم لڑ رہے ہیں، نہ دین میں ان کی بڑی اہمیت ہے اور نہ وہ دنیا ہی میں ہماری فلاح و ترقی کا ذریعہ ہیں۔ ہم سب کا اتفاق ہے کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے، بیش تر تفصیلات میں بھی اتفاق ہے۔ نماز کے ادا کرنے کے طریقے ہی میں کسی قدر اختلاف ہے۔ نماز اس طرح نہیں اس طرح ادا کی جائے۔ کیا کوئی عالم یافقیہ کہتا ہے کہ میں نے جس طرح نماز  پڑھی ہے، اس سے نماز ادا نہیں ہوئی، اس نماز کو دہرانا چاہیے۔ کوئی بھی ہر گز ایسا نہیں کہے گا۔ پھر بھی ہم لڑ رہے ہیں۔ اسی نوع کے اور بھی مسائل ہیں۔ قرآن کی ہدایت ہے کہ اتحاد کی بنیاد صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہونی چا ہئیے۔ اللہ کا حکم آگیا،سر اطاعت خم کر دیا۔ اللہ کے رسول کی بات آگئی، اپنے اختیار سے دست بردار ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُم۔ الانفال:46۔ (اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو، آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرو،  کم زور پڑ جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔)

اللہ کی قسم، یوں معلوم ہوتا ہے جیسے قرآن آج بول رہا ہے۔ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ، بلکہ اس سے زیادہ ہونے کے باوجود آپ کا کوئی وزن محسوس نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ کے پچپن چھپن ممالک ہیں، بے پناہ وسائل اپنے پاس رکھتے ہیں، لیکن ان کا کوئی وزن نہیں ہے۔ کوئی ان سے کسی عالمی مسئلہ میں پوچھتا تک نہیں ہے۔ ہر کوئی انھیں Dictate کر رہا ہے۔ قرآن نے بے وزنی کو دور کرنے کا یہ راستہ بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو۔ یہی ہماری بے وزنی دور کرنے کا واحد طریقہ ہے۔

7۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کیجیے

اس ملک میں اور پوری دنیا میں آپ کے بہت سے مسائل اس لیے بھی ہیں کہ لوگوں نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک دشمن اورحریف قوم کا مذہب ہے۔ نہ انھوں نے اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھا اور نہ ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام کی تعلیمات میں تمہاری بھلائی ہے، تمہارا ہی فائدہ ہے۔ ہم اگر اسے پیش کر رہے ہیں تو اس سے ہماری کوئی مادی منفعت وابستہ نہیں ہے۔ اللہ کے پیغمبر اسی بے غرضی کے ساتھ دنیا کے سامنے اللہ کا دین پیش کرتے ہیں :  وَمَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الشعرائ: 109۔ (میں کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا، بے لوث ہو کر محض تمہارے فائدے کی خاطر بات رکھ رہا ہوں۔ میرا اجر تو مجھے اللہ تعالیٰ عطا کرے گا)۔ آپ کا کام ہے کہ آپ دنیا کو بتائیے کہ اسلام سے خود ان کی فلاح وابستہ ہے۔ ان لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچائیے جو آپ کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دین کسی خاص فرقے، گروہ، جماعت کے لیے نہیں ہے، بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے ہے، ہندوستان کے ہر فرد کے لیے ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ کیا معلوم، آج جن سے دشمنی ہے، کل ان سے صلح ہو جائے۔ تمہارا رویہ ٹھیک رہا اور اسلام کی تعلیم ان تک پہنچی تو ان کے دل بدل بھی سکتے ہیں۔ تم سے ان کی صلح و آشتی بھی ہو سکتی ہے۔

اتنے سارے انسان جو ہزاروں کی تعداد میں میرے سامنے ہیں اگروہ کھڑے ہو جائیں، یہاں کی آبادی کھڑی ہو جائے اور اللہ کا دین پہنچانے میں لگ جائے اور اس کا صحیح تعارف ہو تو یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ آپ کی بات سنی جائے گی اور اللہ کے دین کی طرف توجہ ہوگی۔ دشمنی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ وہ آپ کو دشمن اور آپ کے دین کو دشمن کا دین سمجھتے ہیں، آپ کی نصح و خیر خواہی اس رویہ کو بدل سکتی ہے۔

8۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کیجیے

ان نازک حالات میں اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کیجیے۔ اس کے علاوہ ہمارا دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے۔ نازک حالات میں نبی ﷺ سے کہا گیاکہ صبر و ثبات کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہیے اور اللہ کو یاد کرتے رہیے: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِہَا وَمِنْ آنَاء  اللَّیْْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضَی۔ طہٰ: 130۔ (اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے، طلوع آفتاب سے قبل اور غروب آفتاب سے قبل اور رات کے اوقات میں تسبیح کیجیے اور دن کے کناروں پر بھی۔ امید ہے، آپ خوش ہو جائیں گے)  یہ صبر کے ساتھ اللہ کو شب و روز یاد کرنے اور اس کی حمد و تسبیح کا حکم ہے، اس میں فرض نمازوں کے ساتھ نفل نمازوں کا بھی ذکر ہے اور اس امر کا بھی اشارہ ہے کہ اس سے آپ خوش گوار نتائج دیکھیں گے:  وَمَن یَعْتَصِم بِاللّہِ فَقَدْ ہُدِیَ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔آل عمران : 101۔ ( جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے سیدھا راستہ مل گیا۔ اس کے بھٹکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔)

 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو باتیں عرض کی گئی ہیں، ان پر غور کرنے اور عمل کرنے کی مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔