مجھ دیے سے کوئی نہ جلتا تھا

افتخار راغبؔ

 مجھ دیے سے کوئی نہ جلتا تھا

میں اُجالے میں تھا تو اچھّا تھا

اب مرے پاس کیا ہے کھونے کو

تجھ کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا

رمزِ دل کا تھا مدّعا کچھ اور

حیف کچھ اور اُس نے سمجھا تھا

 قصّۂ حسن و عشق مت پوچھو

اِک سراب اور ایک تشنہ تھا

کیا تمھیں یاد ہے وہ بازیِ عشق

کس طرح ہار کر میں جیتا تھا

 ٹوٹنے سے بچا سکا نہ مجھے

ٹوٹ کر جس نے مجھ کو چاہا تھا

دوٗر رہ کر بھی تھا وہ کتنا قریب

دوٗر کا بھی نہ جس سے رشتہ تھا

میرے اندر ہی تھا چھپا راغبؔ

مجھ کو جس کی انا سے خطرہ تھا

تبصرے بند ہیں۔