مدارس  اسلامیہ: نظام تعلیم اور  نصاب تعلیم کے آئینے میں

محمد فیاض عالم قاسمؔی

ہندوستان  کے عام مدارس اسلامیہ میں جو نصاب پڑھایاجاتاہے وہ حضرت ملّانظام الدین  محمد سہالوی رحمہ اللہ کاترتیب دیاہواہے، جن کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کو درس نظامی کہاجاتاہے۔ دراصل ملانظام الدین سہالویؒ(م:مئی1748ء)نے لکھنؤ میں”فرنگی محل”نامی جگہ پرایک  مدرسہ قائم کیا تھا جو فرنگی محل کی نسبت سے تاریخ میں "مدرسہ فرنگی محل” کے نام  سے مشہور ہوا۔اس مدرسے کے لئے انہوں نے جو نصاب بنایاتھا اسی کو درس نظامی کہاجاتاہے۔ یہ نصاب آٹھ سال پر مشتمل ہے،جس کی تکمیل کے بعد عالمیت اورفضیلت کی  سند  د ی جاتی ہے۔اس نصاب میں علوم آلیہ  اورعالیہ  دونوں شامل  ہیں،علوم آلیہ  میں علم نحو، صرف، منطق، فلسفہ، لغت اورعربی ادب ہے، جب کہ علوم عالیہ  میں فقہ وحدیث،تفسیر،علم  کلام  اورعقائدموجود ہیں۔

ان فنون سے متعلق جو کتابیں پڑھائی  جاتی ہیں ان میں احوال زمانہ کے لحاظ سےجزوی  ترمیم ہوتی رہی ہے۔لیکن کوئی خاص اوربڑی تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کی طرف سے بارباریہ  مطالبہ دوہرایاجاتارہاہے کہ اس نصاب میں ترمیم کی جائے:

 اس سلسلے میں دو نقطہائے نظرپائے جاتے ہیں:

پہلانقطہ نظر: 

     اس نصاب کو بدلنے  کی ضرورت نہیں ہے۔کیوں کہ اس نصاب کاڈھائی سو سالہ تجربہ اورمشاہدہ ہے کہ اس کےذریعہ طلبہ کے اندر بہترین صلاحیت پیداہوتی ہے، اس نصاب کاپڑھنے والاقرآن  وسنت کی گہرائی اورگیرائی میں  اتر کرمسائل کو ڈھونڈنکالنے پرقادرہوجاتاہے۔ قرآنی آیت: فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ(التوبہ:١٢٢)اورحدیث رسول ﷺ:«من يرد الله به خيرا يفقههفي الدين»(سنن ترمذی:٢۶٤٥) میں جس تفقہ کی بات کہی گئی ہے، اس کاحصول اس نصاب کے ذریعہ ممکن ہوپاتاہے۔ اورعلم دین  حاصل کرنے کامقصدبھی یہیہے کہ قرآن وسنت کی صحیح مراد تک پہونچاجاسکے۔اس لئے اس کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں تک رہی بات کچھ ترمیم وتنسیخ اورحذف واضافہ  کی، تو روز اول سے ایساہوتاآیاہے، کیوں کہ بہت ساری کتابیں ایسی ہیں جو درس نظامی میں شامل نہیں تھیں، لیکن بعد میں ان کو شامل  کیاگیا، اسی طرح بہت ساری کتابوں کو نصاب سے نکالابھی گیا،لیکن چوں کہ زیادہ ترکتابیں درس نظامی ہی کی  ہیں، اس لئے وہی نام رہنے دیاگیا۔

دوسرا نقطہ نظر:

  اس نصاب کو بدل کردوسرانصاب لایاجائے یااس میں عصری علوم  کابھی  اضافہ کیاجائے۔

اس  گروہ کاکہناہے کہ یہ  نصاب تقریبا ڈھائی سو سال پرانا  ہے۔یہ نصاب زمانہ کے ساتھ ہم  آہنگ نہیں ہے، کیوں کہ اس میں دنیاوی لحاظ سے کچھ بھی پڑھایانہیں جاتاہے، اورنہ اس سے متعلق کوئی  کتاب ہے۔ اس نصاب کافارغ التحصیل جب دنیاوی معاملات میں قدم رکھتاہےتو وہ اپنے آپ کوکورا پاتاہے،ایسے لوگ کمپیوٹر،لیپ ٹاپ، اورانٹرنیٹ کی دنیاسے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔چنانچہ ایسے فارغ التحصیل کو ریلوے کا ایک ٹکٹ بک کرنے کے لئےدوسرے کاسہارالینا پڑتاہے۔موبائل کاریچارج کرانے، لائٹ بل بھرنے،اور گیس کاکنکشن لینے تک کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتے ہیں۔آمدنی واخراجات  کاحساب، ٹیکس اورجی  ایس ٹی کے ضابطے، ناپنے  اورتولنے کے آلات،پیمائش کے ذرائع، فیصد نکالنے کاطریقہ وغیرہ تو ان لوگوں کےلئے بہت دورکی بات ہے۔

عصری تعلیم کے لحاظ سے بھی یہ لوگ صفر ہوتے  ہیں، جس کی وجہ سے مدارس کے فارغ التحصیل کو بہت سارے چیلینجوں کاسامناکرناپڑتاہے۔من جملہ معاشی چیلینج بھی ہے، کیوں کہ مدرسہ کی سند سے ان کو پورے ملک میں کہیں بھی سرکاری نوکری نہیں ملتی ہے۔ ان کی رسائی صرف پرائیوٹ سیکٹربالخصوص مسجد اورمدرسہ تک ہوتی ہے۔ ان ہی پرائیوٹ اداروںمیں یہ خدمت کرتے ہیں۔ ظاہرسی بات ہے پرائیوٹ نوکری میں  اتنی  سہولیات نہیں ہوتی ہیں جتنی سرکاری ملازمتوں میں ہوتی ہیں۔ پرائیوٹ ملازمتوں میں تنخواہ بھی  کم ہوتی ہے،عام طورپر داخلہ اوراخراج کابھی کوئی ضابطہنہیں ہوتاہے، اس لئے علماء کرام اپنی ذاتی زندگی میں معاشی  طورپرقدرے پریشان رہتے ہیں۔

 ان دشواریوں سے نمٹنے کاواحد حل  یہ ہے کہ مدارس  کےڈھائی سو سالہ  پرانے نصاب کو بدلاجائے۔یا مدارس کےنصاب میں کچھ اس طرح تبدیلی لائی جائے کہ وہاں کے فارغ التحصیل دوسروں  کے محتاج نہ  بنیں۔ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، جس طرح انھوں نے علوم نبوت کو اپنے سینے میں محفوظ کیاہے، اسی طرح دنیاوی علوم کو بھی سینے میں محفوظ کریں اور جس طرح وہ امت مسلمہ کی دینی رہنمائی کرتے ہیں اسی طرح دنیاوی لحاظ سے بھی  وہ امت کی رہنمائی کرسکیں،اورجب وہ عصری علوم سے بھی ہمکنارہوں گے تو ان کامعاشی مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

تجزیہ اورمعتدل نقطہ نظر

مدارس کےقیام کامقصد یہ ہے کہ قرآن وسنت کی  افہام و تفہیم صحیح منہج پر ہوسکے، اورتجربہ  بتاتاہے کہ اس کے لئے یہ نصاب بہت ہی ممد ومعاون ہے۔اس میں طلبہ کی ذہنیت اوران کی سوچ وفکرکی پرواز   کی  بھی رعایت رکھی  گئی ہے۔ یہ  بات بھی  درست ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل کو بالکل  اپاہج بھی نہیں  ہوناچاہئے،کسی حد تک  عصری علوم اوردنیاوی معلومات سے بھی وہ آگاہ ہوں۔ کیوں کہ دنیا دارالاسباب ہے، یہاں بغیرسبب اختیارکئے جینامشکل ہے۔ اس لئے کوئی ایسی شکل نکالی  جائے کہ دونوں مقاصد حاصل ہوجائیں۔

یہ تو بہت مشکل ہے کہ ایک ہی آدمی باصلاحیت عالم دین اورمفتی بھی ہو اور وہ بہترین ڈاکٹر بھی ہو۔یعنی ایک طرف وہ  لوگوں کاجسمانی علاج کرے اور دوسری طرف روحانی علاج بھی۔ ایسی صورت میں اس کو کسی بھی ایک  فن میں مہارت تامہ حاصل نہیں  ہوگی، جب کہ مہارت تامہ مطلوب ہے، ورنہ ایمان اورجان دونوں کاخطرہ ہے۔اس لئے بہترمعلوم ہوتاہے کہ نصاب تو وہی  رہے ؛لیکن اس میں کچھ اس طرح کی ترمیم یا اضافہ کیاجائے کہ دونوں نقطہائے نظر کے مقصد کی رعایت ہوجائے؛کیوں کہ  دونوں نقطہائے نظرکے مقاصد بہت حدتک درست   ہیں،تاہم دونوں  میں افراط وتفریط ہے۔اعتدال بہرحال مطلوب ہے۔پس انگریزی اور ہندی زبان،کمپیوٹر اورتکنیکی فن،دستورہند کے کچھ منتخب ابواب،تاریخ بالخصوص تاریخ ہند،فرسٹ ایڈ کے طورپرمیڈیکل سائنس کے کچھ ضروری مسائل وغیرہ کو شامل کیاجاسکتاہے۔

اعتراض:جب اس طرح کامشورہ دیاجاتاہے تو اہل مدارس کی طرف سے یہ اعتراض ہوتاہے کہ ہمارے نصاب میں پہلے سے ہی اتنی کتابیں ہیں کہ ان میں سےبعض  کو ہٹاکراِن علوم آلیہ کوداخل کرنامشکل ہے۔ نیز بعض کو اگر نکال بھی  دیں گے تو جو مقصوداصلی  ہے اس میں خلل  واقع ہوگا۔

جواب:ان کا یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے، لیکن اگر موجودہ نصاب کے ساتھ ان چیزوں کوایڈجسٹ کیاجائے تو کوئی مشکل بھی  نہیں ہے۔چنانچہ اضافہ کرنےکی تین شکلیں ہیں:

(١)آٹھ سالہ دورتعلیم میں ہر سال صرف  ایک موضوع کا اضافہ کیاجائے،مثلاً سال اول میں اردو زبان، سال دوم ہندی زبان، سال سوم انگریزی زبان،چہارم میں عربی زبان، پنجم میں کمپیوٹراوردیگرتکنیکی تعلیم وتربیت، ششم میں تاریخ بالخصوص تاریخ ہند،ہفتم میں میڈیکل سائنس کے کچھ ضروری مسائل، ہشتم یعنی  دورہ میں دستورہند کے منتخب ابواب۔(مثلابنیادی حقوق،شہری حقوق وذمہ داریاں،اورپرسنل لازیعنی عائلی  قوانین وغیرہ)

(٢) دوسری شکل یہ ہے کہ فراغت کے بعد مزید ایک سال  کااضافہ کیاجائے، جس میں اوپر مذکورتفصیلات کے مطابق تعلیم وتربیت کاانتظام کیا جائے۔

(٣)تیسری شکل یہ ہے کہ  مدارس کے نصاب میں وہ کتابیں جن کافائدہ کم یاجن کی زندگی میں کبھی کبھار ہی ضرورت پڑتی ہے جیسے منطق اورفلسفہ کی  بعض کتابیں تو ان کو نکال کر ان کی جگہ عصری علوم  سے متعلق کچھ کتابیں رکھی جاسکتی ہیں۔اورجن کتابوں کو نکالاجائے اس فن سے متعلق کوئی دوسری  مختصر اورآسان کتاب  شاملِ  نصاب کیاجائے تو بہت بہترہوگا۔

مدارس کےموجودہ  نصاب میں کچھ خامیاں اوراس کے مضراثرات

مدارس کایہ نصاب بعض ترمیموں کے ساتھ بہت ہی مفید ، کارآمد اورلائق تقلید ہے، لیکن کچھ خامیاں بھی ہیں، جن کاتدارک نہایت ہی ضروری ہے۔مثلاً:

١۔  اس نصاب میں فن نحو کی  کم وبیش چارکتابیں بتدریج پڑھائی جاتی ہیں، مثلاًنحومیر سال اول میں، ہدایۃ النحوسال دوم میں، کافیہ سال سوم میں، اورشرح جامی سال چہارم میں؛ لیکن اس کے باجود طلبہ کے اندرفن نحومیں  وہ استعداد پیدانہیں ہوتی ہے جو ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ  جو راقم السطورکو سمجھ میں آرہی ہے،یہ ہے کہ  پہلی دوکتابیں یعنی نحومیر اورہدایۃ النحو بچوں کو اس عمر میں پڑھائی جاتی ہیں جب کہ وہ نابالغ ہوتے ہیں،ان کی سمجھ بھی بچکانہ  ہوتی ہے۔ اس لئے صرف یادکروادیاجاتاہے۔

٢۔  جب باری آتی ہے کافیہ کی توبچے  اس وقت قریب البلوغ یا نوبالغ ہوتے ہیں، لیکن اتنی سمجھ نہیں  ہوتی ہےکہ کافیہ کی مختصر اورپیچیدہ عبارت جو ایک پوری بحث پر پر مشتمل ہوتی ہے، کماحقہ سمجھ سکیں۔طلبہ ان بحثوں میں الجھ کررہ جاتے ہیں۔ اس  لئے اکثرطلبہ ترجمہ پر اکتفاء اوراردوشروحات پر  انحصارکرتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتاہے کہ طلبہ کو نہ کتاب میں سمجھ آتی اورنہ فنی صلاحیت پیداہوتی ہے۔

 مثال کے طورپر کافیہ کی شروعات﷽سے ہوئی، مصنف علیہ الرحمۃ نے حمد سے اس  کی شروعات کیوں  نہیں  کی، اس پر ایک ہفتے تک تقریر چلتی ہے۔اس کے بعد کافیہ کاپہلاجملہ  الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفردا، میں مفرد پر تینوں اعراب پڑھ سکتےہیں، اس ایک جملہ پر چارپانچ دن تک بحث ہوتی ہے۔ اسی طرح کی لفظی موشگافیوں کے ساتھ باب الاسم کی بحث پوری  کی جاتی ہے، یہاں تک سالانہ امتحان کا وقت قریب آجاتاہے ،اس وقت باب الفعل کی بحث  میں صرف ترجمہ کرادیاجاتاہے یاچھوڑدیاجاتاہے۔باب الحرف تو پڑھایاہی نہیں جاتاہے۔

٣۔  پھر جب باری آتی ہےسال چہارم میں پڑھائی جانے والی مشہورکتاب شرح جامی کی ،تو اولاً اتنی موٹی کتاب دیکھ کر ہی بچے گھبراجاتے ہیں۔ثانیا کتاب عربی میں ہے، لیکن کتابت فارسی والی ہے، پڑھنے اورسمجھنے میں کافی دشواری ہوتی ہے، ثالثاً فن نحو کی دقیق بحثوں اورنحوی باریکیوں کو فلسفیانہ اندازمیں  حل کرنے کے لئے استاذ اورشاگرداس طرح جُٹ جاتے ہیں کہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اسم کا باب بھی  پورانہیں ہوتاہے کہ سالانہ امتحان قریب آجاتاہے۔ نتیجہ  یہ ہوتاہے کہ طلبہ  کو جتنی مہارت فن نحو میں ہونی چاہےاس کاچوتھائی بھی حاصل نہیں ہوتاہے۔شرح جامی نحوکی  آخری  کتاب ہوتی ہے، اس کے بعدصرف فقہ اورحدیث  کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں،اس لئے ان کتابوں کی  عبارت  خوانی میں طلبہ فحش غلطیاں کرتے ہیں۔

٤۔  یہی حال مختصرالمعانی کابھی ہے، جو سال پنجم میں پڑھائی جاتی ہے۔یہ فن فصاحت وبلاغت کی جامع کتاب تلخیص المفتاح کی شرح ہے،لیکن شرح سے زیادہ فلسفیانہ بحث کی گئی ہے۔اس سے پہلےصرف ایک دوکتاب جیسے دروس البلاغۃ وغیرہ پڑھائی جاتی ہے،سال پنجم میں آتے آتے ان کی عقل میں کچھ پختگی آتی ہے، وہ چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں،لیکن فلسفی انداز ہونے کی وجہ سے فصاحت وبلاغت کی ہوابھی نہیں لگتی ہے۔غیرضروری بحثوں کی وجہ سے پوری کتاب بھی پڑھانا ممکن نہیں ہوتاہے۔

٥۔  کتابوں کے دشوارہونے اورطلبہ کے پلے نہ پڑنے کی بناء پر کچھ اساتذہ کرام  نے اس کا حل یہ نکالا کہ انھوں  نےہر کتاب کی اردو شرح لکھ ڈالی، اب اگر طلبہ کو کتاب سمجھ میں نہ آتی ہےوہ تو اردو شرح سے حل کرلیتے ہیں، جو دیر پانہیں ہوتاہے،اصل مسئلہ بھی ذہن نشین نہیں ہوتاہے۔جب استاذمحترم پڑھاتے ہیں،تو طالب علم  سوچتاہے کہ ابھی  سمجھ میں نہیں آرہاہے تو کوئی حرج نہیں، اردو شرح تو موجود ہےہی، اسی سے حل  کرلیں گے، اس طرح  وہ ذہنی طورپر غائب رہنے کاعادی بن  جاتاہے۔کچھ دنوں کے بعدجسمانی طورپر بھی غیر حاضررہنے لگتاہے ۔جس سے اس کارشتہ استاذ سے اورکتاب سے بھی  ٹوٹ جاتاہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ نہ فن کی صلاحیت ہوپاتی ہےاورنہ  ہی کسی کتاب کو براہ راست حل  کرنے کاملکہ پیداہوتاہے۔چنانچہ واقعہ ہے کہ ایسے لوگ فارغ التحصیل ہونے کے  بعد کوئی بھی کتاب   اردو  شرح  کے بغیرحل کرنےکے قابل نہیں ہوتے ہیں۔

۶۔  اردو  شروحات کے مطالعہ کی وجہ سے طلبہ کی اردو اچھی ہوجاتی ہے،لیکن ان کی عربی استعداد بہت زیادہ متاثر ہوجاتی ہے، چنانچہ ایسے فضلاء  ایک دوصفحے ڈھنگ سے نہ  عربی  لکھ سکتے ہیں اورنہ صحیح اعراب کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں؛ بولنا  تو دورکی بات ہے۔ اس خامی کااحساس انھیں تفسیر،حدیث اورفقہ کی  بڑی کتابوں کے مطالعہ میں  ہوتاہے۔ چنانچہ وہ بڑی کتابوں سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں۔ مجبوراً  بوقت ضرورت اردوفتاویٰ، حدیث کی اردوشروحات، تفسیر کی اردو کتابیں،اکابرکے خطبات اورملفوظات سے کام چلاتے ہیں۔ان اردوکتابوں کی افادیت کا انکارنہیں کیاجاسکتاہے، لیکن اکثر فضلاء کا صرف ان ہی پر منحصر ہوجاناان کے ذہنی پرواز میں رکاوٹ کاسبب بنتاہے۔

۷۔  کتابوں کے نہ سمجھنےاور صرف اردو شروحات پر منحصر ہونے کی وجہ سے ایک نقصان یہ بھی ہواہے کہ اکثر طلبہ نصاب میں داخل کتابوں کو کم پڑھتے ہیں،اوربعض تو پڑھتے ہی نہیں ہیں؛بلکہ امتحان کے وقت پرانے پرچہ سوالات کو حل کرکے پاس ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو بچے درس میں نہیں جاتے تھے،نہ تکرارومطالعہ کے پابند تھے،  امتحان کے زمانے میں گزشتہ پرچوں کو حل کرکےاعلیٰ  نمبرات سے کامیاب ہوجاتے تھے۔کیوں کہ واقعہ ہے کہ امتحان میں کم سے کم دو تین سوالات پچھلے سوالات سےآتے ہیں۔اس لئے اس طرز کو ختم کرناچاہئے۔

۸۔  مدارس اسلامیہ کے نصاب میں انگریزی زبان اورکمپیوٹرکی تربیت نہ ہونے کی وجہ سےاس کانقصان  یہ ہواہے کہ طلبہ احوالِ زمانہ سے متاثر ہوکرمدرسہ سے باہر ٹیوشن کے ذریعہ ان چیزوں کو سیکھنے پر مجبور ہورہےہیں۔ جس میں فائدہ کم اورنقصان زیادہ ہوتاہے۔وہاں پر چوں کہ پیسہ دیکر ٹیوشن پڑھنا ہوتاہے،اس لئے بچے صبح وشام انگریزی زبان کی  مشق وتمرین پر گزارتے ہیں۔حتیٰ کہ  درسگاہ  میں  حدیث کادرس ہورہاہوتاہے اور بچے انگریزی  کی مشق کررہے ہوتے ہیں۔ہم نے بھی دورانِ تعلیم مدرسہ سے باہر کمپیوٹر کی ٹائپنگ سیکھی تھی اورکچھ انگریزی بھی  حاصل کی تھی۔

تجویز

اس لئے مدارس کےنصاب میں کچھ اس طرح کی ترمیم کی جانی چاہئے کہ مدارس کے قیام کا مقصد بھی حاصل ہوجائے اور دنیاوی لحاظ سےکچھ ایسےعلوم کے مبادیات سے بھی استفادہ کیاجائے،جن سے روز مرہ سابقہ پڑتاہے۔ اس کے لئے تنِ تنہا کوئی عملی اقدام کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتاہے، بلکہ بہتر ہےکہ کوئی کمیٹی تشکیل دی جائے جو موجودہ نصاب میں ترمیم اور حذف واضافہ وغیرہ کی ذمہ داریوں کو نبھائے۔

نظام تعلیم

١۔  مدارس کا نظامِ تعلیم بہت عمدہ  ہے، اس سے بچوں کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے،اس میں بچوں کی طبیعت، ذہانت،اورنفسیات کاخیال رکھاگیاہے،بچےذہین سے ذہین تر ہوتے ہیں۔مدارس میں تعلیم پرجتنی توجہ مرکوز کی جاتی ہے،اتنی  دیگراداروں میں نہیں کی جاتی ہے۔عام اداروں کی طرح صرف موضوع سے متعلق  رسمی لیکچر پر اکتفاء نہیں کیاجاتاہے، عبارت کا ترجمہ اورمطلب بیان کیاجاتاہے۔ اوربالاستیعاب پڑھایاجاتاہے۔

٢۔  ایک  بچہ جب حفظ میں داخلہ لیتاہے تو حفظ مکمل  ہونے کے بعدہی  اس کو دنیاکی ہوالگتی ہے، ایک طالب علم جب اول میں داخلہ  لیتاہے تو اس کی دنیا کتابیں، قلم دوات، بستہ وغیرہ کے سواکچھ نہیں ہوتی، تاآں کہ وہ فارغ ہوجائے۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سےقائم ہے، چنانچہ اسی نصاب تعلیم اوراسی نظام تعلیم نےملک وملت کو عظیم مفکرین، محدثین،مفسرین،مؤرخین،فقہاء،مبلغین،مصلحین،دعاۃ،ادباء، خطباء،صلحاءاورمجاہدین دئیے ہیں،جن کے نام چہاردانگ عالم میں روشن ہوئے۔جن کی خدمات سے پوری دنیافیضیاب ہورہی ہے۔اوران کے احسان تلے جی رہی ہے۔آج ہندوستان میں اسلام کاجتنا بھی رنگ نظر آرہاہے وہ ان ہی علماء کرام کی بدولت ہے جنھوں نے اس نظام تعلیم کواپنایاتھا، اور اسی کے بل بوتے اپنے سفر کو جاری  رکھاتھا۔ یہاں تک کہ وہ وقت کے بے تاج بادشاہ بنے، پورے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں پر حکمرانی کی،ان کے قول وفعل کو سند کا درجہ حاصل ہوا،ان کی بات پتھر کی لکیر سمجھی گئی،بوقت اختلاف ان کی رائےقول فیصل بنی۔یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ پورے عالم اسلام میں جتنی قدرومنزلت علماء ہندکی ہے شایدہی کسی اورملک کے علماء کرام کی ہو۔ان کی روایت اوردرایت، ان کا تفقہ  فی الدین،فقہی بصیرت، علمی گہرائی اورگیرائی،مطالعہ کی وسعت،اخلاص وللہیت،سنت پرعمل اورجذبہ اطاعت،ان کی شان بے نیازی، اوردینی  وملی خدمت کے سبھی قائل ہوئے اورہورہے ہیں۔یہ سب اسی نظام تعلیم کی برکت ہے۔

٣۔  اس نظام تعلیم کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعلیم  کے ساتھ تربیت کوخاص مقام حاصل ہے۔ چھوٹے بچوں کاذہن پتھرکی طرح ہوتاہے جو اس پر نقش کردیاجائےوہ انمٹ ہوجاتاہے۔اس لئے بچپن میں انھیں مسنون دعائیں یادکرائی جاتی ہیں،فرائض وواجبات کے علاوہ سنن ومستحبات  پر عمل  کاپابندبنایاجاتاہے،صبح بسترسے اٹھنے کے بعد سے لیکر رات میں بستر پر جانے تک کے سارے اعمال مثلا استنجاء، وضو، نماز،والدین اور اساتذہ سےملاقات،کھاناپینا، سلام کلام حتیٰ کہ لباس وغیرہ بھی سنت کے موافق کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔نماز میں صرف فرائض وواجبات پر اکتفاء نہیں کیاجاتا ،بلکہ سنن ونوافل کے ساتھ تسبیحات کی بھی پابندی کروائی جاتی ہے۔ان سنتوں کااثر بچوں کے صاف وشفاف دلوں  پر ہوتاہے، سنت کے نورسے ان کے دل منورہوجاتے ہیں۔اور اس کی برکت ان کی زندگی  میں  ظاہرہوتی ہے، کہ وہ تو خود پابند شریعت ہوتےہی ہیں ساتھ میں ان کے گھروالے بھی ان کےرنگ میں رنگ جاتے ہیں، حتیٰ کہ اس کااثر اہل  محلہ اورپورےگاؤں، علاقہ بلکہ بعض دفعہ پورے ملک پر ہوتاہے۔

مدارس کے نظامِ تعلیم کی  کچھ خامیاں اوران کاحل

تاہم ادھر چند سالوں سےمدارس کے نظام تعلیم میں  کچھ خامیاں ایسی  درآئی ہیں جواس کے حسن کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اوراس کو اندر سے کھوکھلاکئے جارہی ہیں۔اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نظام کی روح پر بھی ہلابول دیاہے۔من جملہ غیرضروری سرگرمیاں ہیں، جو بظاہر خوشنماہیں، لیکن وہ مدارس کے اصل مقصد اورتعلیم کی روح کے خلاف ہے، اور دھیرے دھیرے اس طرح کی  سرگرمیاں  بڑھتی جا رہی ہیں۔ مثلا بچوں سے مدرسہ کا چندہ کروانا، مدرسہ میں اصلاح معاشرہ کے نام سے جلسے کراکربچوں سے بھر پورخدمت لینا،کھیل کود اورلہوولعب کاپروگرام رکھنا، بیت بازی اور مشاعرہ کرواناوغیرہ۔اس کا نقصان یہ ہواہے کہ  بچے تو بچے ہوتے ہیں، وہ پڑھائی سے بہرحال جی چراتے ہیں، کھیل کود اورلہو ولعب کاکوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں،اس لئے وہ اِن سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں،بالآخر وہ سمجھ لیتے ہیں کہ مدرسہ میں پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اچھی طرح سے  چندہ کرنا آجائے یا ہاتھ پیرہلا ہلاکر تقریرکرکے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرلیاجائے،کچھ واہ واہی ہوجائے،یا کچھ گنگناکر پیسہ بٹورلیاجائے،بس۔ اگریہ حاصل  ہوگئے تووہ کامیاب ہیں ورنہ ناکام۔بہرحال اس طرف اہل مدارس کو توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔

طریقہ تدریس  کی کمیاں اوران کاحل

طریقہ تدریس کو کچھ نئے انداز سے کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ زمانہ بہت آگے بڑھ چکاہے،بیسویں صدی کےاواخراوراکیسویں صدی کے شروع میں دنیا میں بڑاانقلاب آیا، لکھنے پڑھنے اورافہام وتفہیم کے طریقے تک بدل گئے ،چنانچہ پہلےلوگ بانس کی قمچی سے قلم بناتے تھے اورکالک اوردیگر سیال چیزوں سے روشنائی بناتے تھے، لیکن آج کل  بال  پین آگیا ہے، جس سے آدمی بسہولت گھنٹوں لکھ سکتاہے ، اس  میں ریفل کاانتظام ہوتاہے، اوراب تو زمانہ اس سے بھی آگے بڑھ گیاہے کہ آدمی ہر چیز کو کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ؛ بلکہ موبائل کے اسکرین پر بھی لکھ سکتاہے، اس کاپرنٹ بھی لے سکتاہے۔ چندسالوں سے ایک  عظیم انقلاب یہ بھی  آیاکہ  اب کیبورڈ پر انگلیاں چلانے کی بھی ضررورت نہیں؛ بلکہ  آپ بولتے جائیں اورکمپیوٹر خود بخود لکھتاچلاجائے گا۔اسی پر بس نہیں؛ بلکہ جو لکھا ہواہے اس کو اسکین کرنے پرہو بہو وہی حروف، جملے اورپورامواد آپ کےاسکرین پر یونیکوڈ میں آجائیں گے، جس سے آپ بآسانی پڑھ سکتے ہیں، اس میں حذف واضافہ کرکے پرنٹ بھی لے سکتے ہیں۔گویاکہ  اب نقل کرنے کی بھی ضرورت باقی  نہیں رہی۔اسی طرح پہلے بلیک  بورڈ استعمال ہوتاتھا، پھر وائٹ بورڈ پر مارکر پین سے لکھا جانے لگا۔اوراب تو ڈیجیٹل بورڈ آگیاہے۔

فی زمانہ مدارس کے نظام تدریس کا حال یہ ہے کہ خال خال مدارس ہی میں بلیک بورڈ کا استعمال ہوتاہے، میراث کی کتاب سراجی فی المیراث جس میں حساب کرناپڑتاہے، اس کےلئے بلیک بورڈ کا استعمال ناگزیرہے، لیکن ہم نے اس کتاب کو بھی بلیک بورڈ کے بغیرسمجھا ہے۔حالاں کہ سراجی کے ساتھ  تقریبا ساری کتابوں کے لئےبھی  بلیک بورڈ کااستعمال ہوسکتاہے۔ حتیٰ کہ حدیث کی تدریس کے لئےبھی  استعمال ہوسکتاہے۔ مثال کے طورپرایک دفعہ رسول اللہ ﷺنے ایک لمبی لیکر کھینچاپھراس کے دائیں بائیں  چھوٹی چھوٹی  لکیروں کوکھینچ کرارشادفرمایاکہ یہ بیچ والی لمبی لکیررحمٰن  کا راستہ ہے، اوردائیں بائیں والی لکیریں شیطان کا راستہ ہے،ہرراستہ پر شیطان بیٹھاہواہے جو لوگوں کواپنی بلاتاہے۔ پھر آپ ﷺ نے لمبی لکیرکی طرف  اشارہ کرتے ہوئے کہا :إِن هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبعُوهُ، یہ سیدھاراستہ ہے اسی کی اتباع کرو۔(سنن کبریٰ للنسائی:١١١۰۹)اس حدیث کو ہم بلیک بورڈ میں لکھ کر بچوں کو سمجھاسکتےہیں، خود اسی حدیث سے بلیک بورڈ پر لکھ کر سمجھانےکا جواز بھی ثابت ہوتاہے۔لیکن اب بلیک بورڈ اور وائٹ بورڈ کازمانہ بھی گزرچکاہے۔

آج صورت حال  یہ ہے کہ پروجیکٹر کے ذریعہ پڑھایاجاتاہے، نہ لکھنے کی ضرورت اورنہ مٹانے،بس ایک بٹن دبانے سے لکھاہوانمودارہوجاتاہےا ورایک بٹن دبانے سے غائب بھی ہوجاتاہے۔اس لئے طریقہ تدریس میں جدید آلات کا استعمال کرناچاہئے، کیوں کہ اس سے بچوں کے اندر دلچسپی بھی بڑھے گی، اور افہام وتفہیم بھی آسان ہوگا۔ماہرین کاکہنا ہے کہ  افہام وتفہیم  کے وقت ا گر دماغ  کے ساتھ ساتھ  آنکھ اورکان بھی استعمال ہوتے ہیں تو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، اورمسئلہ ذہن میں  نقش ہوجاتاہے۔

تحریری مشق

 مدارس  میں درجہ ثانویہ  تک  لکھنے پر بہت زیادہ  توجہ دی جاتی ہے،عربی زبان کی تحریری مشق کے علاوہ اسباق کو بھی لکھنے کارواج ہے، اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ طلبہ  کے اندر لکھنے کی صلاحیت ابھرجاتی ہے، مثال کے طورپرعربی سوم میں ترجمہ قرآن کریم، کافیہ، قدوری،مفتاح العربیہیاالقراۃالواضحہ،شرح تہذیب ، اوراصول الشاشی وغیرہ کتابیں ہیں۔ اس میں مفتاح العربیہ اورالقراۃ الواضحہ میںتحریری مشق تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بعض اداروں میں ہر کتاب کا حتیٰ قدوری اورشرح تہذیب کابھی سبق لکھ کر اساتذہ کو دکھاناپڑتاہے۔

 نیز مفتاح العربیہ میں کتاب میں جو تمرین دی گئی ہے ،اس کے علاوہ بھی مزید تمرین دی جاتی ہے،مثلاً طلبہ  اِس جملہ پرمزید دس جملے لکھ کر لائیں۔ دس ایسے جملےبھی  لکھ کر لائیں جس میں فعل ایساہویا فاعل ایساہووغیرہ۔ ایسی تمرینکامقصد یہ ہوتاہے کہ طلبہ  کے ذہن مین قاعدہ نقش  ہوجائے۔ طلبہ  کسی نہ کسی طرح چاہے دوسرے کی کاپی سے نقل کرکے ہی سہی لکھ کر اساتذہ کو دکھادیتے ہیں۔

لیکن اس کانقصانیہ ہوتاہے کہ طلبہ کا پوراوقت ان چیزوں کے لکھنے میں گزرجاتاہے،کیوں کہ لکھنے میں کافی وقت صرف ہوتاہے، اس لئے طلبہ کو دیگر کتابوں  کےپڑھنے  اورسمجھنے کے لئے وقت نہیں ملتاہے۔اس  لئے دوسری کتابوں وہ کمزورہوجاتے ہیں۔

دوسرانقصان یہ ہوتاہے کہ زبانی افہام وتفہیم میں  کمزوری آجاتی ہے،طلبہ سے کچھ لکھنے کے لیے کہاجائے تو وہ لکھ لیں گے لیکن جب وہی چیز بولنے کے لیے کہاجائے تو اس میں غلطیاں ہوجاتی ہیں۔

تجویز

اس سلسلے میں عرض ہے کہ  اگر لکھنے پر کم اور زبانی بولنے پر زیادہ توجہ دی  جائے تو زیادہ فائدہ ہوگا۔مثلا اِس جملےپر دس جملے زبانی بنائے جائیں۔ اور صرف تین جملے لکھ کر لائیں۔ بس۔

اس کاایک فائدہ یہ ہوگا کہ الفاظ اورجملے زبان پر چڑھ جائیں گے،دماغ بھی  تیزہوگا، سوچنے کی صلاحیت بھی  پروان چڑھے گی۔عربی لکھنے اوربولنے دونوں پر بچے قادرہوجائیں گے۔دوسرااہم فائدیہ ہے کہ  وقت کی کافی بچت ہوگی۔دس جملے لکھنے میں کمسے کم آدھاگھنٹے کا وقت لگتاہے، جب کہ بولنے میں زیادہ سےزیادہ پانچ منٹ کاوقت صرف ہوگا۔تیسرافائدہ یہ ہوگاکہ کاپی اورقلم کی خریداری  میں مالی بچت بھی  ہوگی۔

 ورنہ صرف لکھنے کی صورت میں کاپیاں بھری جاتی  ہیں۔زبان اورمسائل سے متعلق پوراعلم کاپیوں کی زینت بنتاہے، سال کے اخیر میں اتنی کاپیاں ہوجاتی ہیں کہ ان کو جمع  کرکےیا تو الماری میں رکھ دیاجاتاہےیا پھرمالیہ پر  باندھ کر چڑھادیاجاتاہے۔تاہم کچھ لوگبھنگار والوں سے بیچ بھی  دیتے ہیں۔

کتابوں کا ذخیرہ جمع کرنے کانیاطریقہ

پہلے کتابوں کو رکھنے کے لئے الماری اور لائبریری کاانتظام کرناپڑتاتھا، جس کے لئے کافی جگہ درکاہوتی تھی، خرچ بھی کافی ہوتاتھا، اورآج صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں کتاب اپنے موبائل میں اور پین ڈرائیومیں محفوظ کرسکتے ہیں۔اس لئےپین ڈرائیو،ہارڈ ڈسک،کمپیوٹر اورلیپ ٹاپ وغیرہ میں کتابوں کے محفوظ کرنے کاباضابطہ  نظام ہوناچاہیئے۔اسی طرح مکتبہ شاملہ، مکتبہ جبرئیل،مکتبہ نور،مکتبہ علم دین اوراس طرح کے کئی سوفٹ ویر ہیں جو پی ڈی ایف اوریونیکوڈ کی شکلمیں کتابوں کو فراہم کرتے ہیں، ان کا بھی  نظم ہوناچاہئے۔

طریقہ امتحان کی کمیاں اوران کاحل

امتحان میں سوالوں کاپرچہ عام مدارس میں  اس طرح ہوتاہے کہ  پانچ سوالوں میں سے تین کے جوابات مطلوب ہوتے ہیں، ہر سوال میں عبارت بااعراب، ترجمہ، مطلب اورکچھ جزئیات کاجواب مطلوب ہوتاہے۔ مدارس کا پرچہ پہلے پچاس نمبر کا ہواکرتاتھا،جس کی وجہ سے کافی مشکلات کاسامناکرناپڑتاتھا، کیوں کہ ایسا صرف مدارس میں ہواکرتاتھا، اس کے علاوہ پورے ہندوستان کے ہرتعلیمی اورتربیتی اداروں  میں کل  سونمبرہوتےہیں۔لیکن اب دارالعلوم دیوبندنے سو نمبر کاپرچہ کردیا، تو دیگر اداروں نے بھی  اس پر عمل  کیا۔

امتحان کے پرچوں کے تعلق سےعصری اداروں کے پرچہ سوالات سے ہمیں استفادہ کرناچاہئے، کیوں کہ وہ بہت جامع اورپوری کتاب پر محیط ہوتے ہیں۔اس سے طلبہ کی  صلاحیت کااندازہ ہوجاتاہے۔مجموعی نمبرات سو کو دو  کیٹگری میں تقسیم کیاجاناچاہئے ، پچاس تحریری امتحان کے لئے اورپچاس تقریری  امتحان کے خاص ہوناچاہئے۔پرچہ کچھ اس طرح ہو:

(الف) ایک نمبر کے سوالات: جن میں صرف ایک لفظ کے ذریعہ جواب دیناہو، یاخالی جگہوں کو بھرناہو۔اس طرح کےپندرہ  سوالات  ہوں، دس مطلوب ہوں۔(10)

(ب) دو نمبر کے سوالات: جن میں ایک یا دوجملوں کے ذریعہ جواب دیناہو۔اس طرح کے آٹھ  سوالات  ہوں، پانچ مطلوب ہوں۔ (10)

(ج)پانچ نمبر کے سوالات:جن میں ایک پیراگراف کے ذریعہ جواب دیناہو، اس طرح کے پانچ سوالات ہوں، تین مطلوب ہوں۔(15)

(د)دس نمبر کے سوالات: جن میں کچھ تفصیل سے جواب دیناہو۔اس  طرح کے تین سوالات ہوں،دو مطلوب ہوں۔ (20)

(ہ)پندرہ نمبر کے سوالات :جن  میں مزید تفصیل کے ساتھ جواب دیناہو۔دو سوال ہوں، ایک مطلوب ہو۔(15)

اس طرح مجموعی نمبرات میں سےستر نمبر تحریری امتحان کے لئےہوگئے، بقیہ تیس نمبر تقریری  امتحان کے لئے مختص  ہو۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ درس نظامی میں اول ودوم اوربعض اداروں میں سوم تک تحریری اورتقریری دونوں طرح کےامتحان ہوتے ہیں، اس کے بعد یعنی چہارم سے ہشتم یعنی دورہ تک ساری کتابوں کاامتحان صرف تحریری ہوتاہے، تقریری نہیں ہوتاہے؛جب کہ تدریس کانظام یہ ہے کہ چہارم کے بعد لکھنے لکھانے کاکوئی نظم نہیں ہے۔تمرین اورمشق وغیرہ جو بھی ہے وہ  اول دوم اورکہیں کہیں سوم تک ہے،بس۔اس لئےستر  نمبر تحریری امتحان کے لئے اورتیس  نمبر تقریری امتحان کے لیے مختص ہوناچاہئے۔یعنی بچے کی صلاحیت کااندازہ تحریری اور تقریری دونوں لحاظ سے لیاجاناچاہئے۔

خلاصہ

خلاصہ یہ ہے کہ مدارس کے نصاب تعلیم اورنظام تعلیم کوزمانہ سے ہم آہنگ اور طلبہ کے لئے مفیدبنانے کے لئے درج ذیل امورپر عمل  ہوناچاہئے:

١۔  مدارس کےموجودہ نصاب میں کچھ مناسب ترمیم کی جانی چاہئے۔

٢۔  مشکل کتابوں کے بجائے آسان کتابوں کو داخل نصاب کرناچاہئے۔

٣۔  نظام تدریس میں جدیدآلات اورنئے وسائل کا استعمال کیاجاناچاہئے۔

٤۔  تحریری مشق میں کم،زبانی مشق اورافہام وتفہیم میں زیادہ دھیان دیناچاہئے۔

٥۔  غیرضروری  سرگرمیوں سے طلبہ کو دوررکھناچاہئے۔

۶۔  جدیدآلات کااستعمال کرتے ہوئےڈیجیٹل  لائبریری کاانتظام ہوناچاہئے۔

۷۔  طریقہ  امتحان میں ترمیم کی جانی چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔