مسلمانوں کے زوال کے اسباب

محمد فراز احمد

خدا نے آج تک جتنی بھی قومیں بنائی ہے ان تمام نے عروج و زوال کو دیکھا ہے اور اسکی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے،  چاہے وہ بنی اسرائیل ہو یا قوم عاد،  ثمود و لوط ان تمام نے اپنے باطل نفس کی پیروی کی جسکا نتیجہ تھا کہ انھیں بدنامی و خدا کے غضب کا شکار ہونا پڑا اور آج امت مسلمہ بھی اسی نقشِ قدم پر گامزن ہے. ایسی بات نہیں ہیکہ امت مسلمہ نے کبھی عروج کا زینہ نہ چڑھا ہو،  بلکہ ابتدائی دور سے ہی وہ عروج پر تھیں جس نے ایسے ماہر شخصیات کو جنم دیا جنھوں نے اپنے میدانِ کار میں نمایاں کارنامے انجام دئیے نہ صرف یہ بلکہ دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی جسکی ابتداء نبی کریم صلعم نے کی تھی جن کے بارے میں کہا گیا کہ "دنیا نے جینا سیکھا اس اُمّی(صلعم) کے اصولوں سے” جن کے اخلاقِ کریمہ کو اختیار کرکے کئی حیوان صفت لوگ دنیا کو امن کے ساتھ،  یکجہتی کے ساتھ چلانے والے حکمراں بن گئے،  جنھوں نے جس میدان میں اپنا قدم رکھا وہاں پر ایسے کارنامے انجام دئیے جنکی مثالیں تاریخ آج تک دینے سے خاصر ہے. ماہر فلکیات،  ماہر کیمیاء،  ماہر نفسیات کئی ساری مثالیں ہیں جو مسلمانوں کے عروج کی داستان بیان کررتی ہے لیکن افسوس آج ان ہی کی ایجادا ت کو مغربی ممالک نے اختیار کرکے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا،  یہ کہنا تو بڑا مشکل ہوگا کہ مسلمانوں کے زوال کا دور کب سے شروع ہوا لیکن وہ اسباب بیان کئے جا سکتے ہیں جنکی وجہ سے آج امت وسط کہلانے والی قوم ذلت و رسوائی اور پسماندگی کا شکار ہے. زیر نظر تحریر میں چند نمایاں اسباب بیان کئے جارہے ہیں.

قرآن مجید سے دوری
یہ سبب انتہائی غور و فکر کرنے والا اور سب سے اہم ہے کہ آج امت مسلمہ نے اس نعمت کو فراموش کردیا جو کتابِ ہدایت کے طور پر نازل ہوئی تھی جسکے شروعات میں ارشاد ہوا "ھدالناس” تمام انسانوں کے لئے ہدایت،  لیکن مسلمانوں نے اس احسان کا بدلہ ایسا دیا کہ آج قرآن مجید طاقوں کی زینت بنی ہوئی ہے ،  جس کے پڑھنے کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہیکہ عام مسلمان اسکے سمجھنے سے تو دور پڑھنے کو بھی علماء کی جاگیر سمجھتے ہیں جس کا نقصان اسے خود اٹھانا پڑھ رہا ہے.

دین کے اصولوں سے انحراف
ثانوی سبب یہ ہیکہ امت نے دین کی اصل کو ذہنوں سے خارج کردیا اور دوسری شکست خوردہ اقوام کی طرح اپنے مطلب کے اور سہل احکامات کا تعارف کرادیا اور ‘خیر امت’ و ‘امت وسط’ کی ذمہ داریوں کو یکسر مسترد کردیا جس کا نتیجہ ہیکہ جو دین زندگی کے ہر شعبہ کے لئے مکمل نظام حیات بن کر آیا تھا وہ صرف مسجد کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گیا.

مسالک کے نام پر فرقہ بندی

ثالثی اور انتہائی حساس مسئلہ یہ ہیکہ مسلمانوں نے آپس میں فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر فرقہ بندی شروع کردی جس کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
” فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ ”
اختلافی مسائل کو اصل مسئلہ پر زیادہ ترجیح دیکر آپس میں افراط و تفریط کرنے لگے اور ” ولا تفرقو” کے حکم کو پامال کردیا جس کا نتیجہ ہیکہ باطل قوموں نے امت پر اس طرح حملہ کردیا جس طرح اللہ کے نبی محمد(صلعم) نے کہا تھا کہ ” دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑےگی جیسے بھوکے بھیڑئیے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں” اور آج حال یہ ہوگیا ہیکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی کوئی طاقتور اور نمائندہ آواز نہیں ہے جس کا نتیجہ ہیکہ کروڑوں کی تعداد میں نہتے مسلمان گاجر اور مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور باطل طاقتیں مسلمانوں کے ہاتھ جڑ سے اکھاٹ رہی یے لیکن مسلمانوں کی بے حسی یہ ہیکہ وہ ابھی طئے کرنے میں ہیکہ ہاتھ کہاں باندھا جائے.

تعلیمی پسماندگی
ابتداء میں بھی یہ بات کہی جاچکی ہیکہ مسلمانوں نے جس میدان میں قدم رکھا،  کامیابی ان کے قدم چومتی رہی اور ایسے کارنامے انجام دئیے جن کا بدلہ امت کئی صدیوں تک ادا نہیں کرسکتی،  لیکن آج اس تیز رفتار دور میں مسلمان اپنی سست روش میں مبتلا ہے،  جس قوم کو شروعات میں ہی "اقراء ” کی تعلیم دی گئی ہو وہی قوم آج علم کے معاملے میں کوسوں دور ہے ترقی کی منزل تو ثانوی چیز ہے لیکن حصول علم کا بحران دن بہ دن بڑھتا جا رہاہے.

تمام اسباب جن پر سرسری طور پر نظر لگائی گئی کوئی نئی باتیں نہیں بلکہ صرف ایک یاد دہانی جو امت کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لئے کہی گئ ہے امید کی جاتی ہیکہ قوم جو سوئی ہوئی ہے وہ جلد ہی جاگ جائیگی اور جو فریضہ امت کو سونپا گیا تھا اسے پھر سے حاصل کرنے کی جدوجہد کریگی. اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام کو اپنے فرضِ منصبی کہ اور بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔