بارش کی تباہ کاریاں – ذمہ دار کون؟ 

سجاد الحسنین

اب تک سوکھے سے ملک کے عوام پریشان تھے تاہم حالیہ دنوں بارش نے جنوب سے لیکر شمال تک حالات درہم برہم کردئے ہیں۔ اترا کھنڈ جموں کشمیر دہلی این سی آر آسام بہار یوپی اور آندھراپردیش و کرناٹک کے ساتھ ساتھ محض چند گھنٹوں کی موسلادھار بارش نے عام زندگی مفلوج کردی ہے اور انتظامیہ کو اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ ملک بھر میں سیلاب سے اب تک کوئی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ بہار میں اب تک چھبیس افرادہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ بائیس لاکھ افراد متاثرہیں۔ ریاست میں دریائے کوسی سمیت دیگردریاﺅں سطح اب خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہاہے۔ بہار ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈبارٹمنٹ کا کہناہیکہ سیلاب کی وجہ سے کشن گنج میں آٹھ افرادہلاک ہوگئے۔ جبکہ پورنیہ میں سات دیگرشہروں میں بھی کچھ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ ڈپارٹمنٹ کے مطابق پورنیہ، کشن گنج، دربھنگہ، مدھے پورا، بھاگلپور، کٹیہار، سہرسہ اور گوپال گنج اضلاع میں سیلاب سے تقریبااکیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب میں تقریباایک عشاریہ تراسی ملین ہیکٹر زمین زیراب اگئی ہے۔ ہزاروں ہیکٹر پر موجود فصل تباہ ہوگئی ہے۔ بارش کے باعث ملک کے دارالحکومت دہلی کے اطراف ٹریفک جام نے پورے ملک کو چونکایا دیا تھا۔ دہلی این سی آر میں ٹریفک جام نے عوام اورراہ گیروں کو پریشان کردیاتھا۔ مسلسل بارش کی وجہ سے کل شام نوئیڈا میں اٹھ کلومیٹر تک طویل جام رہا۔ صبح تک یہاں جام ختم تو ہوگیالیکن گڑگاو¿ں، غازی آباد کے بعد نوئیڈا میں ٹریفک جام نے سرکاری انتظامیہ کے دعووں کامذاق بنادیاہے۔ بارش کے باعث کئی مقامات زیراب اگئے تھے اور ٹرینیں بند تھی۔ دہلی کے ازاد مارکٹ میں بھی اج ٹریفک جام دیکھاگیا۔ موٹرسواروں کوادھے گھنٹے سے زائدجام میں پھنسارہناپڑرہاہے۔ کچھ موٹرسوار دہلی حکومت کجریوال پربھی برہم نظرائے۔ گروگرام میں ہیرو ہونڈہ چوک پر بارش کی وجہ سے ٹریفک جام دیکھاگیاتھا۔ سڑک پر ٹریفک کی بحالی کے لئے بارش کے پانی سے جمع ہونے والی کیچڑ کے تیزی سے ہٹانے کا کام بھی جاری ہے۔ تلنگانہ میں بھی کئی علاقوں میں وقفہ وقفہ سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ بارش کے سبب حیدرآباد کے کئی نشیبی علاقے زیر آب آگئے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حیدراباد کے مختلف علاقے کوٹھی‘ عابڈس‘ دلسکھ نگر،  ایل بی نگر، بنجارہ ہلز‘ مہدی پٹنم،  راجندر نگر،  شمس آباد سمیت دیگر علاقوں میں بارش سے سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا اور ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ شہر میں چار اعشاریہ نو سنٹی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں بھی بارش کے باعث سڑکیں اور گلیاں جھیل میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ گزشتہ چار دنوں سے بنگلور میں بارش کے بعد شہر جھیل کامنظرپیش کرنے لگا۔ کچھ مقامات پرتو لوگوں جالوں کے ساتھ مچھلی پکڑتے دیکھاگیا۔ بارش کاپانی رہائشی علاقوں میں بھی داخل ہوگیاتھا۔ کئی زیراب علاقوں سے عوام کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیاگیا۔ جبکہ چنئی اور آندھرا پردیش میں بھی سیلابی صورتحال سے عوام بے حال ہیں۔ نیپال میں بارشوں اور ندیوں میں ظغیانی کے باعث اترا کھنڈ بہار اور شمال کے بیشتر علاقوں میں سیلاب آگیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ درجنوں ہلاکتوں کی بھی خبریں ہیں۔ آسام میں بھی گذشتہ ایک ہفتے سے سیلاب کی صورتحال سنگین ہے اور حالات کو دیکھتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے آسام کا دورہ کیا ہے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی سروے بھی کیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی سروے کیا۔ وزیر داخلہ نے سیلاب متاثرین کیلئے بنائے گئے ریلیف کیمپوں کا بھی جائزہ لیا۔  وزیر اعلی سربانند سونووال اور سینئر عہدیداروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ فوج کو چوکس کردیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر راحت کاری کے لئے بھی اقدامات کئے جارہے۔ سب سے المناک صورتحال تو دہلی این سی آر کی رہی جہاں جئے پور سے
دلی آنے والی قومی شاہراہ چوبیس گھنٹے تک جام رہی اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہا جاتا ہے کہ پچیس ہزار گاڑیوں میں قریبا دیڑھ لاکھ لوگ بنا کھانے پانی کے محض سڑک پر ہی پوری رات اور پورا دن گذارنے کے لئے مجبور ہوگئے تھے اوربارش کے باعث چار چار فٹ تک پانی میں ڈوبی سڑکوں سے ٹریفک کو ہٹانے میں نہ صرف مرکزی سرکار بلکہ ہریانہ کی سرکار بھی بے بس نظر آرہپی تھی عوام نے شکایت کی دہلی کے قریب سڑک پر پھنسے ہونے کے باوجود نہ تو کسی نے ہمارے لئے پانی کا انتظام کیا اور نہ ہی کھانے کا انتظام کیا گیا جس کے باعث اس سڑک پر انسانی بحران پیدا ہوگیا تھا۔ جو کچھ بھی ہو محض چھ سات گھنٹوں کی تیز بارش میں ایک اس طرح سے حالات تباہ ہوجائیں اور پانی گھروں میں گھس آئے اور گاوں کے گاوں سیلاب میں ڈوب جائیں تو یہ سرکار کے لئے کوئی اچھی بات نہیں کہلائے گی۔ کیا سرکاریں اس جانب سوچنا چاہینگی۔ اگر نہیں تو پھر اسے اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔