ہندو راشٹر، مسلمان اور دلت

 ڈاکٹر عابد الرحمن (چابندور بسوہ)

    گجرات میں  مردہ گائے کی کھال نکالنے کی پاداش میں  ایک دلت فیملی کے ممبران کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہندو راشٹر کا وہی ٹریلر ہے جو ابھی تک مختلف حیلوں  بہانوں  کے ذریعہ غیر ہندوؤں  خاص طور سے مسلمانوں  کے خلاف جاری تھا،    مودی جی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اس طرح کے عملی واقعات میں  اضافہ ہی ہواہے اور اس طرح کی وارداتیں  کر نے والے اب اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں  کہ انہیں  قانون و انصاف کا ذرہ برابر ڈر نہیں  رہا،    بلکہ شاید وہ تو یہ بھی سمجھنے لگے ہیں  کہ ان کے سامنے آئین قانون اور عدلیہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں  اور دوسری مذہبی اقلیتیوں  کے خلاف ان کی دہشت گردی میں  قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے ساتھ رہیں  گے جواگر ان کو قانون کے شکنجے سے بچا نہیں  پائیں  گے تو کم از کم اس میں  نرمی تو برتیں  گے ہی ۔ مودی سرکار کے آنے کے بعد سے لو جہاد،    گھر واپسی،    دہشت گردی اور دھرم سیناؤں  کے نام مسلمانوں  کو ’قومی دھارے ‘ سے الگ کر نے کی بھر پور کوشش کی گئی،   یہ مدے تو جلد ہی ماند پڑ گئے لیکن ’گؤ ماتا ‘ اور اسکی حفاظت اور تقدس کے قیام کا مدہ نہ صرف یہ کہ زندہ رہابلکہ روز بروز مزید تیز ہو تاگیا ۔گائے کے نام پر پر تشدد کارروائیوں  کا سلسلہ روز بروز دراز بھی ہوتا گیا اور پورے ملک میں  بھی پھیلتا گیا اور ہر نئی کارروائی پہلے کے مقابلہ شدید تر ہی ہوتی گئی اورہم مسلمانوں  نے مذمت مذمت کا شور مچا کر اور حکومت کی نچلی سطح کی طرف سے قانونی کارروائی کی یقین دہانی پر ہی حالات سے سمجھوتا کر لیا ۔جس سے ہندو راشٹر کے خواب دیکھنے والے شاید سمجھ گئے کہ انہوں  نے مسلمانوں  کو رام کرلیا،   ہندو راشٹر میں  انہیں  کیسے رہنا ہوگا یہ بتا دیا اور ہندو راشٹر میں  مسلمانوں  کا عمل اور رد عمل کیا ہوگا یہ بھی دیکھ لیا ۔ اب ہندو راشٹر کے نظر یات رکھنے والے اپنی اصل پر آ گئے ہیں  جس کی بنیاد ذات پات کی تفریق ہے ۔ گائے کے نام پر گجرات میں  جو کچھ ہوا وہ دراصل ہندو مذہب میں  نچلی ذاتیوں  کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی ہی مثال ہے کہ جو کوئی جب کبھی چاہے ان پر ظلم کرے ۔خبروں  کے مطابق جو لوگ مردہ گائے کی کھال نکال رہے تھے وہ ’چمار‘ ذاتی کے لوگ تھے اور جو کچھ وہ کر رہے تھے وہ ان کے لئے بھی اور سماج یا ہندوؤں  کے لئے بھی نیا نہیں  تھا بلکہ زمانے سے وہ یہی کرتے آرہے ہیں ،   دلتوں  کی اس ذات کا روزگار ہی مردہ جانوروں  کی کھال نکالنے سے چلتا ہے ہمیں  لگتا ہے کہ ان کے خلاف اس طرح کی کارروائی دراصل دلتوں  اور نچلی ذاتوں  کو ان کی سماجی حیثیت بتانے اوران پر اعلیٰ ذاتوں  کی بڑائی جتانے کے لئے کی گئی ہے۔ لیکن سلام دلتوں  کو،   کہ انہوں  نے اس ظلم کا منھ توڑ جواب دیتے ہوئے نہ صرف جائے واردات بلکہ پورے گجرات کو سر پر اٹھالیا ۔گجرات کے تقریباً ہر علاقے میں  دلتوں  نے احتجاجی مظاہرے کئے،   راستے روکے گئے،   تشدد کے واقعات ہوئے،   بسیں  بھی جلائی گئیں ،   پتھراؤ بھی ہوا،   دکانیں  اور کاروبار زبردستی بند بھی کروائے گئے،   پولس والوں  کے خلاف بھی پر تشدد واقعات ہوئے جن میں  کم از کم ایک پولس والے کی ہلاکت اور کئی پولس والوں  کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے،   احتجاج کے طور پر کچھ لوگوں  نے زہریلی ادویات پی کر خود خود کشی کی بھی کوشش کی ہے جس میں  بھی ایک ہلاکت کی خبر ہے ۔اسی طرح انہوں  نے مردہ جانور ٹرک بھر بھر کر ضلع کلکٹوریٹ کے سامنے بھی لا پھینکے ۔دلتوں  کے اس احتجاج کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی بڑے یا مشہور لیڈر کے بغیر ہی ہوا،   اسی طرح اس میں  مقامی یا کسی نئے لیڈر کی قیادت کی بھی خبر نہیں  ہے،   خبروں  کے مطابق دلتوں  کی کچھ سماجی تنظیموں  نے سوشل میڈیا کے ذریعہ احتجاج کی اپیل کی اور لوگ اس اپیل پر نہ صرف ذاتی طور پر احتجاج کے لئے نکلے بلکہ اسے دوسرے لوگوں  تک آگے بھی بڑھا یا،   کسی نے نہیں  پوچھاکہ یہ اپیل کس نے کی ۔یعنی پوری قوم نے گو رکشکوں  کے ظلم کو ظلم سمجھا اور اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اورسڑکوں  پر نکلنے کو ضروری سمجھا اور عملی طور پر ظالموں  کو اور حکومت کو یہ باور کروادیا کہ ظلم برداشت نہیں  کیا جائیگا۔                      وطن عزیز میں ہندو راشٹر واد کی کسی بھی تحریک کا خاص نشانہ مسلمان ہوتے ہیں  اور مسلمانوں  کے خلاف دلتوں  اور ہندوؤں  کی دوسری نچلی ذاتیوں  کو ساتھ ملا کر کام کیا جاتا ہے گویا مسلمانوں  کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف پورا ملک اور ہندوؤں  کی ہر جاتی ایک ہے ۔یہی نہیں  بلکہ مبصروں  کا کہنا ہے کہ مسلمانوں  کے خلاف پر تشدد کارروائیوں  خاص طور سے فسادات میں  فیلڈ ورکرس کے طور پر دلتوں  کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے اکثر دلتوں  اور نچلی جاتیوں  کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بھی ’ہندو قوم ‘ہی کا اٹوٹ انگ ہیں  اورہندو ان کے ساتھ بھید بھاؤ بھی نہیں  کرتے،   نہ صرف انہیں  برابری کا درجہ دیتے ہیں  بلکہ ان کے بڑوں  کی عزت و تکریم بھی کرتے ہیں  انہیں  اپنے لئے مثالی بھی سمجھتے ہیں  ۔پچھلے دنوں  ڈاکٹر امبیڈ کر کی جینتی پر بی جے پی اور وزیر اعظم مودی جی کا ردعمل دراصل یہی تھا اور ابھی پچھلے دنوں  بی جے پی صدر امت شاہ کے یوپی کے دلتوں  کے ساتھ ساتھ کھانا کھانے کے پیچھے بھی یہی چال کار فرما تھی ۔لیکن دلتوں  کی ہر ذات اور ہر فرد نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ عملی طور پر ان کے ساتھ اسی طرح کا بھید بھاؤ کیا جاتا ہے جس طرح کا مسلمانوں  کے ساتھ کیا جاتا ہے بلکہ مسلمانوں  سے بھی بدتر ۔گجرات کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر جینتی پر بی جے پی کے دلت پریم جتانے اور یوپی میں  امت شاہ کے دلتوں  کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد گجرات حکومت نے دلتوں  پر ہوئے مذکورہ واقعہ کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے تھا لیکن ہوا اس کے الٹ،   پہلے تو گجرات وزیر اعلیٰ نے اس واقعہ پر کچھ کہا ہی نہیں  اور پولس نے بھی اس معاملہ میں  جہاں  کچھ ملزمین کو گرفتار کیاوہیں  گائے کی ہلاکت کی وجوہات معلوم کر نے کیلئے بھی تحقیق کی،   یعنی یہاں  بھی دادری کی طرح ظالموں  کے لئے عذر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،    خیر سے اس تحقیق کی رپورٹ میں  یہ سامنے آیا ہے کہ گائے شیر نے ماری تھی،   لیکن اہم سوال یہ ہے کہ گائے کسی بھی طرح مری ہو پہلے اس کی بنیاد پر انسانوں  کو مارنے والوں  پر سخت ترین عملی کارروائی کرکے اس طرح کی حرکات کرنے والوں  کو وارننگ دینا ضروری ہے یا گائے کی موت کے اسباب کا پتہ لگانا ؟ دلتوں  نے ہندوتوا اور ہندو راشٹر کے علمبرداروں  کی اصل سازشوں  کو سمجھناچاہئے،   اورگجرات میں  ان کے احتجاج سے لگتا ہے کہ وہ اسے سمجھ گئے ہیں ۔                                                                   دلتوں  کا یہ احتجاج ہمارے لئے سبق ہے کہ گائے کے نام پر ہمارے ساتھ جو کچھ کیا گیا دلتوں  کے ساتھ اس کا عشر عشیر بھی نہیں  کیا گیا لیکن ہم لوگوں  نے صرف اس کی مذمت کر کے،   زبانی احتجاج کر کے،   سرکار کو برا بھلا کہہ کے،   ہماری طرح اخبارات کے صفحہ کالے کر کے اور سوشل میڈیا میں  بے تکی بک بک کر کے اسے برداشت کرلیا اوراب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے بھولتے بھی جارہے ہیں ۔ہماری بزدلی کی عجب شان ہے کہ ہم حکومت و انتظامیہ کے ظلم و جبر اور نا انصافیوں  کے خلاف آواز اٹھا نے کی بجائے اس کی ہاں  میں  ہاں  کر کے آپس میں  لڑ مرتے ہیں  ۔لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ملک میں  جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں  اور جس طرح کا نظام لاگو کر نے کی تیاری کی جارہی ہے وہ مسلمانوں  کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں  ۔خدا نخواستہ سو بار خدا نخواستہ اگر ملک میں  یہ نظام رائج ہوگیا تو اس میں  ہمارے لئے برابری کی کوئی جگہ نہیں  ہمیں  یا تو دوسرے درجہ کے شہری بنا کر رکھا جائے گا یا اعلیٰ ذاتوں  اور حکمراں  طبقہ کا نوکر ۔ اور یہی حال دلتوں  اور ہندوؤں  کی نچلی جاتیوں  کا بھی ہو گا ۔اسلئے یہ مسلمانوں  اور دلتوں  دونوں  کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی سماجی اور معاشی طور پر متحد ہوکر اس نظام کو لاگوکر نے والوں  کی ہر کوشش کو ناکام کریں ۔ ہم مسلمانوں  سے گجرات کے اس معاملہ میں  بھی ایک چوک ہوئی کہ ہم دلتوں  کے ساتھ سڑکوں  پر نہیں  آئے کہ یہ دلتوں  سے اظہار یکجہتی کا ایک اچھا موقع تھااور اس معاملہ میں  اس لئے بھی ضروری تھا کہ دلتوں  کو زد وکوب کر نے کے مذکورہ معاملہ میں  پولس نے ایک سترہ سالہ مسلم نوجوان کو بھی گرفتار کیا ہے،   اگر واقعی وہ مسلم نوجوان زد و کوب کرنے والوں  میں  شامل تھا تو اس کی عقل پر ماتم کے سوا کچھ نہیں  کیا جا سکتا کہ خود اسی کے بھائی بند بھی جن لوگوں  کے جس قہر کا شدت سے شکارہیں  وہ خود انہیں  لوگوں  اور اسی قہر کا حصہ بنا،    ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم من حیث القوم اس نوجوان کی مذمت کریں  اور اس کے مقابلہ میں  دلتوں  کا ساتھ دیں  ۔ ملک کے حالات یہ ہیں  کہ ہم جب اپنے طور پرپر امن احتجاج بھی کرتے ہیں  تو حکومتیں  ہم پر گولیاں  چلواتی ہیں  جبکہ دوسروں  کے پر تشدد احتجاج پرلاٹھیاں  بھی شاذ ونادر ہی چلائی جاتی ہیں ،   ابھی دلتوں  کے اس احتجاج پر بھی لاٹھی چارج ضرور ہوا لیکن پولس فائرنگ نہیں  ہوئی اگر اس موقع پر ہم دلتوں  کا ساتھ دیتے تو آگے اپنے احتجاج میں  ان سے شرکت کی اپیل کی گنجائش رہتی کہ کم از کم انہیں  کے ساتھ ہم اپنا احتجاج پیش کرتے اور پولس کی گولیوں  سے بھی محفوظ رہتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔