دلت مسلم اتحاد كے لئے موزوں ترین وقت

عبد اللہ كمال  

مئی 2014 جب سے بی جے پی کی سرکار اقتدار میں آئی ہے ایک مخصوص نظریہ کو فروغ دینے کی سعی پیہم جاری ہے، ہندوستان جس کی جمہوریت تکثیری اصولوں پر مبنی ہے اس پہ برابر حملے ہو رہے ہیں، جمہوریت کی بنیاد کمزور ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کئی بار رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑا،  اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف و ہراسانی کا سامنا ہے، گائے نے مرکزی سیاست کی حیثیت حاصل کرلی اور اور گئو رکشا کے نام پر منافرت کی جس سیاست کا آغاز دادری سے ہوا تھا وہ لاتور، جھاڑ کھنڈ ہوتے ہوئے آج بھی جاری ہے، گئو رکشا کے نام پر بہت سی نام نہاد تنظیمیں وجود میں آ گئیں جو اس نام پہ محض غنڈہ گردی کر رہی ہیں، مدھیہ پردیش کے حالیہ واقعہ سے جس میں دو مسلمان عورتوں کو گائے کے گوشت لے جانے کے الزام میں بلا تحقیق  زد و کوب کیا گیا اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے، اس کی شہادت گجرات کے چیف سیکرٹری جی آر الور نے بھی دی ہے جن کا کہنا ہے کہ تحفظ گائے کے نام پر غنڈہ گردی اور دہشت پھیلانے کی مذموم کوشش چل رہی ہے، یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جس کا تعلق مذہبی انتہا پسندی سے ہے، آئیے اب اس کے دوسرے رخ کو بھی دیکھتے ہیں جو کہ نسلی عصبیت اور ذات پات کی تفریق سے متعلق ہے۔

 موجودہ حکومت میں نسلی برتری کا جنون بھی شباب پر ہے، حال میں دلتوں کے ساتھ ہو رہے واقعات اس کے شاہد ہیں اگرچہ کہ بی جے پی کی تاریخی کامیابی میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے جو مذہبی تشدد کا شکار ہو کر بی جے پی کی حمایت کر بیٹھے، لیکن آج اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے بہت نالاں اور پریشان ہیں، انہیں ذات پات کی تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نوبت تو یہاں تک پہونچ گئی کہ انسانوں کا خون گائے یا اس کے چمڑے سے بھی ارزاں ہو گیا، کشمیر میں بہت سارے مسلمان مارے گئے لیکن درد گائے کے مرنے پر زیادہ ہے، گائے سے جڑی کوئی بحث فورا میڈیا میں مرکزی توجہ حاصل کر لیتی ہے اور بڑے بڑے مفاد عامہ کے مسائل قابل اعتنا نہیں سمجھے جاتے، کچھ دنوں پہلے چند دلت نوجوان جو مردہ گائے کی کھال اتار رہے تھے انھیں گئو رکشا تنظیم سے جڑے ہوئے افراد نے ایسی بے رحمی سے ظلم کا نشانہ بنایا کہ ویسا سلوک مجرموں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، پس مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلت برادری بھی ظلم، عصبیت اور تفریق کا شکار ہے اور وہ مذہبی تفریق جو ہندو مذہب کے مزعوم تھیکداروں نے اپنی عیش و عشرت کی خاطر تشکیل دے رکھی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر عود کر آئی ہے۔

 معلوم ہوا کہ مسلم اقلیت کے ساتھ دیگر اقلیتیں خاص طور سے پسماندہ دلت بھی ظلم و زیادتی اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں، گجرات کے اونا واقعہ کے بعد دلتوں میں خاصا غصہ دیکھا جا رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر وہ اس احساس کا شکار ہیں کہ ہندو مذہب میں ان کے ساتھ امتیازی رویہ برتا جا رہا ہے، وہ عدم مساوات کے شکار ہیں اور انھیں انصاف نہیں مل رہا ہے، چنانچہ ملک کے مختلف علاقوں سے بہت سی ایسی خبریں آئیں جن میں دلتوں نے یہ دھمکی دی کہ اگر ان کے ساتھ نفرت، اور استحقار کا رویہ ایسے ہی جاری رہا اور یہ کہ انھیں انصاف نہیں ملا تو وہ اسلام قبول کر لیں گے، تمل ناڈو کے کرور میں دو گاؤں کے متعلق یہ خبر بھی ہے کہ سیکڑوں دلت مندر میں داخلہ نہ ملنے پر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔

آج بھی دنیا جب جبر و ظلم اور ناانصافی کا شکار ہوتی ہے تو اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ تلاش کرتی ہے، اسلامی عدل و مساوات اور عدم تفریق پر مبنی تعلیمات اسے اپیل کرتی ہیں، یہ وقت خاص طور سے اسلامی مبلغین، مسلم سیاسی پارٹیوں ،سماجی تنظیموں اور بالعموم پوری ملت اسلامیہ کے لیے  کے لئے نہایت موزوں ہے، شاعر مشرق کی زبان میں مٹی بالکل زرخیز ہے، یہ وقت ان کے ساتھ ہمدردی کا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے نظام عدل اور درس مساوات کو عملی طور پر ان کے سامنے پیش کریں، ان کے حقوق کے لیے اور ان پر ہو رہے مظالم کے خلاف ہم شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور پورے ملک میں تحریری و تقریری طور پر اس بات کا اعلان کریں کہ مسلمان رنگ و نسل، ذات پات پر مبنی تفریق کے خلاف اس لڑائی میں دلتوں، کمزوروں اور مظلوموں کے ساتھ ہیں۔

لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے جیسی تائید ملنی چاہئے تھی وہ غائب ہے، کسی ممتاز مذہبی یا سیاسی جماعت کی جانب سے بر ملا اس کا اعلان نہیں ہوا، تالیف قلب کا اس سے بہتر کوئی اور موقعہ نہیں ہو سکتا، از روئے سیاست یا از روئے دعوت دونوں پہلوؤں سے مسلمانوں کے لئے بڑا اچھا وقت ہے کہ وہ اپنے دعوتی یا سیاسی مشن کو آگے بڑھائیں، آخر ہم ایسا کیوں نہ کریں، ہم قضیہ فلسطین، مسئلہ سیریا اور ترکی کے ناکام فوجی انقلاب پہ گفتگو اور احتجاج کر سکتے ہیں تو پھر برادران وطن پر ہو رہے مظالم کے خلاف اتنی خاموشی کیوں؟

اگر آج ہم خاموش رہ گئے تو پھر الگ تھلگ پڑ جائیں گے، ہم اپنے حقوق کی لڑائی سیکولر ہندو اور دلتوں کے ساتھ مل کر ہی لڑ سکتے ہیں، اس بات کا ادراک ہمارے لیڈران کو جتنی جلدی ہو جائے بہتر ہے، صرف مسلم ایشوز پر جذباتی سیاست سے بظاہر وقتی تھوڑا بہت فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے نقصانات کا دائرہ بہت وسیع ہوگا، ہم نتیجتا حاشیہ پر آ جاتے ہیں، اس لیے مسلم قیادت کی اولین ترجیحات میں مسلم دلت اتحاد شامل ہو، گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا، کتنے نوجوانوں کی جان بھی گئی لیکن کیا کبھی کسی کو سزا ہوئی، کسی نے معافی مانگی، ظاہر بات ہے کہ جواب نفی میں ہے، لیکن جب بی جے پی کے یوپی نائب صدر دیا شنکر نے بی ایس پی سپریمو مایاوتی کے خلاف بد زبانی کا مظاہرہ کیا تو اچانک ملک کی سیاست میں بھونچال سا آ گیا، نہ صرف یہ کہ مذکورہ لیڈر کو پارٹی سے معطل کیا گیا بلکہ بہت سارے بی جے پی کے سر کردہ لیڈروں نے دیا شنکر کے بیان کی مذمت بھی کی، کیا ایسا اس لیے ہوا کہ بی جے پی انصاف پسند ہوگئی ہے؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے، آئندہ سال یوپی اور گجرات میں الیکشن ہونے والا ہے اور زعفرانی پارٹی کو دلت ووٹ کی قوت کا مکمل اندازہ ہے، ورنہ بی جے پی میں معافی اور کاروائی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، نہ جانے کب ہم اس حقیقت کو سمجھیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔