یہ کس کا لہو ہے کون مرا

ہر سو خون کی ہولی میرے خدایا!

ایس احمد پیرزادہ
8 جولائی 2016 ء کو ضلع اسلام آباد کے کوکرناگ علاقے میں فوج کے ساتھ مبینہ طور پر ہوئی ایک جھڑپ میں حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر برہان مظفر وانی اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ جان بحق ہوگئے۔ یہ خبر چند ہی گھنٹوں میںنہ صرف ریاست بلکہ پوری دنیامیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ شام دیر گئے جنوبی کشمیر کے مختلف دیہات سے نوجوانوں اپنے گھروں سے باہر آکر احتجاج کرنے لگے۔ ریاستی انتظامیہ نے راتوں رات وادی کے حساس علاقوں میں کرفیو کے نفاذ کا اعلان کردیا اور جدید دنیا میں ترسیل کے سب سے بڑے ذریعہ انٹرنیٹ سروس کو جام کرنے کے علاوہ جنوبی کشمیر میں موبائل سروس کو بھی بند کردیا گیا۔ اگلی صبح یعنی۹جولائی سنیچر وار کو طلوع آفتاب سے لے کر رات دیرگئے تک ریاست بھر میں پُر امن احتجاجیوں اور فورسز اہلکاروں کے درمیان شدیدجھڑپیں ہوتی رہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ تادم تحریر 55 نوجوان جاں بحق ہوگئے جبکہ دوہزار سے زائد لوگ بُری طرح سے زخمی ہوگئے جن میں درجنوں ایسے ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے ۔ اب کی بار کشمیر میں حالات نے اچانک کروٹ لی اور دلی سے سرینگر تک کام کرنے والی سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ سبھی سیاسی جماعتوں کو بھی بدلتے حالات نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ہے، اور انتظامیہ کو یقین بھی نہیں تھا کہ یہاں ایسے بھی حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہندنواز سیاست دان، حکمران اور دلی کی مختلف ایجنسیوں نے حقیقت سے آنکھیں نہ چرائی ہوتی تو پھر اُنہیں ایسے حالات کے پیدا ہونا کا اندازہ پہلے سے ہی ہوتا۔ یہ بات طے ہے کہ کشمیریوں کے سواد اعظم کو بھارت کا تسلط قابل قبول نہیں ہے اور اگر دلی کی اجارہ داری یہاں چل رہی ہے وہ اس لیے نہیں کہ یہاں کے لوگ بھارت کے ساتھ خوش ہیں بلکہ یہ سب اس لیے ہے کیونکہ یہاں بھارت کے دس لاکھ سے زائد فوج اور نیم فوجی دستے تعینات ہیں۔ طاقت کے بل پر قوموں کو زیر کرنا اور اُنہیں اپنے ساتھ جبراً جوڑے رکھنے والی سوچ کو پائیداری حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ جب بھی کمزور ، دبائے اور ستائے ہوئے قوم کو موقع مل جاتا ہے وہ بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ جب سے دلی اور سرینگر میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے کشمیریوں کو ہر ہمیشہ دھکمیاں ہی سننے کو ملتی ہیں۔ کبھی بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی سرینگر آکر دلی کے سب سے وفادار آدمی مفتی سعید کو ٹوکتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے مجھے کسی کے مشوروں کی ضرورت نہیں تو کبھی منوہر پاریکر سے لے کر راج ناتھ سنگھ تک بی جے پی کے دفتر کا ہر ملازم آزادی کی بات کرنے والوں کو سبق سکھانے کی بات کرتے رہتے ہیں، کبھی سینک کالونیوں کا منصوبہ لے کر تو کبھی پنڈٹ کالونیوں کی بات کرکے کشمیریوں میں یہ احساس دوبالا کیا جاتا رہا کہ یہاں کی ڈیموگرافی تبدیل ہوکر رہے گی۔گویا گزشتہ دو برس سے بھارت کی حکمران جماعت اور اُن کا زرخرید میڈیا کشمیریوں کے ساتھ نفسیاتی جنگ لڑرہا ہے اور وہ اُنہیں ڈرا دھمکا کرزیر کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔مانا کہ کشمیری کمزور ہیں، دہائیوں کی غلامی نے اُنہیں کافی حد تک سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے، اُن کے پاس نہ طاقت ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر اُنہیں بڑے بڑے ممالک کاسپورٹ حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اپنا ملّی غیرت اور قومی وقار چھوڑ کر کشمیری قوم جھک جائے گی۔ اس قوم نے گزشتہ سات دہائیوں سے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اس دوران مخالف سمت سے کیا کیاحربے اور ہتھکنڈے نہ آزمائے گئے لیکن اس قوم نے ہزار کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود کبھی اپنے ہاتھ کھڑے نہیں کیے ہیں۔ ہر بار ظلم و جبر پر اپنی آواز بلند کی اور باطل کے سامنے حق کو بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ پیش کیا۔
ریاستی انتظامیہ کے تحت کام کرنے والی پولیس اور سی آر پی ایف نے 2008,2009 اور 2010 کی طرح اس مرتبہ بھی عوامی ایجی ٹیشن کو کچلنے کے لیے طاقت کی زبان کا استعمال کیا اور اُن کی پشت پر یہاں کے سیاسی لیڈران کے ساتھ ساتھ دلی کے تمام میڈیا ہاوس موجود تھے۔ وردی پوش بے گناہوں کو تہ تیغ کرتے رہے، نہتے، معصوم بچوں اور عورتوں کو پیلٹ گن اور گولیوں سے اپاہچ بناتے رہے ، سیاست دان اُن کی انسانیت دشمن حرکتوں کو جواز فراہم کرتے رہے اور دلی کی نیوز چینلز پروپیگنڈا کرکے قاتلوں کو دنیا کے سامنے بحیثیت ہیرو جبکہ مظلوم کشمیریوں کو مجرموں کی طرح پیش کرتے رہے۔جس بے دردی کے ساتھ شہر و دیہات میں وردی پوشوں نے بربریت اور چنگیزیت کا مظاہرہ کیا اُسے دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پولیس اور فوج نے یہاں کی سویلین آبادی کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اس طرح سے عام لوگوںپر جنگی ہتھیار استعمال کرکے اُن کا بے تحاشا قتل عام نہیں کیا جاتا ہے جس طرح یہاں کیا گیا ہے۔ پولیس نے38 لوگوں کو گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا ہے اور اس کے لیے جواز یہ پیش کیا گیا کہ اُنہوں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی ہے۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ دمحال ہاجی پورہ کی یاسمینہ سے پولیس فورس کو کون سا خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اس بے چاری کو اپنے ہی گھر کے اندر گولی مار کر موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اسلام آباد کے جادید احمد نے کون سی جنگ چھیڑ رکھی تھی جنہیں اپنے محلے میں پکڑ کراس قدر شدید زد کوب کیا گیا کہ اُنہیں نیم مردہ حالت میں صورہ کے میڈیکل انسٹی چیوٹ میں داخل کرانا پڑا۔ جہاں انہوں نے دو دن تک موت و حیات کی کشمکش میں رہ کر بالآخر ۴۱جولائی کو اپنی جان جانِ آفرین کے حوالے کردی۔محبوبہ مفتی صاحبہ جاکے ایس ایم ایچ ایس میں قمرواری کی اُس پانچ سالہ زہرا مجید کو دیکھیں جس کے سینے کو اُن کی پولیس نے گھر کے اندر گھس کر پیلٹ گن سے چھلنی کردیا۔ اُس معصوم اور ننھی سی کلی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے ، آخر اُس نے کتنے فورسز اہلکاروں کو زخمی کردیا تھا جو اس چھوٹی سی جان کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ زخمی کردیاگیا۔ ایس ایم ایچ میں بجبہاڑہ کی اُس ۰۸سالہ بزرگ خاتوان نے کون سے پولیس اسٹیشن یا بینکر پر حملہ بول دیا تھا جو اُس کے گھر میں گھس کر پولیس نے اُسے شدید مارپیٹ کرکے نازک حالت میں اُسے ہسپتال پہنچا دیا۔ 137 نوجوانوں کی آنکھوں کو پیلٹ گن کے ذریعہ سے نشانہ بناکر اُنہیں زندگی بھر کے لیے بینائی سے محروم کردیا گیا۔ دلّی والوں کے اپنے لوگ جو اس حالت کو دیکھتے ہیں چیخ پڑتے ہیں۔ آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس سے آنے والی آنکھوں کے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم نے جب ایس ایم ایچ ایس میں زخمی نوجوانوں اور پیلٹ گن کے شکار نونہالوں کو دیکھا تو وہ بھی اس ظلم و بربریت پر پھٹ پڑے۔اُنہوں نے بھی کہا کہ ایسی صورتحال صرف جنگ میں پیدا ہوجاتی ہے۔انسانی حقوق کی جس طرح ریاست جموں وکشمیر میں بے حرمتی کی جاتی ہے شائد ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ہو رہی ہوگی۔ اس کے باوجود دلّی کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔بڑی جمہوریت کے اس تمام تر دعوو¿ں کی پول وادی کشمیر میں کھل جاتی ہے اور اُن کے چہرے سے نقلی مکھوٹا یہاں ہورہی ناانصافیوں اورظلم و زیادتیوں سے اُتر جاتا ہے۔
محکمہ ہیلتھ کی جانب سے اخبارات میں مشتہر ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پہلے چار روز میں 50 ایمبولینس گاڑیوں کی فورسز اہلکاروں نے توڑ پھوڑ کی۔ ہسپتال میں زخمی افراد کے لواحقین نے بھی شکایت کی ہے کہ راہ چلتے ہوئے اُنہیں اُس وقت فورسز اہلکاروں بالخصوص سی آر پی ایف اور پولیس نے پکڑ کرشدید زدکوب کیا جب وہ زخمی نوجوانوں کو ہسپتال منتقل کررہے تھے۔ شرمال شوپیان کے بیس بائیس برس کے دو نوجوان کسمپرسی کی حالت میں صدر ہسپتال سرینگر میں درد سے کراہ رہے تھے ۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اِن دونوں نوجوانوں میں سے ایک کے بھائی کو پیلٹ گن کی گولیاں لگی اور ان دونوں نے اُسے زخمی حالت میں شوپیان منتقل کردیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے زخمی نوجوان کی تشویشناک حالت دیکھ کر دونوں نوجوانوں کو اُسے سرینگر منتقل کرنے کا مشورہ دیا اور ہسپتال کی ایمبولنس میں دونوں نے اُسے سرینگر لے آنے کی کوشش کی۔ راستے میں ہف کے مقام پر سی آر پی ایف اہلکاروں نے ایمبولینس کو روک کر نہ صرف اس کے تمام شیشے توڑ دئے اور زخمی نوجوان کو لاتوں اور گھونسوں سے مارا۔بلکہ دونوں تیماردار نوجوانوں کو ایمبولینس سے نیچے اُتار کر بیچ سڑک لیٹا دیاگیا اور بندوق بٹھوں سے اُن کے سینوں پربے تحاشا ضربیں لگانی شروع کردی۔قریبا آدھے گھنٹے تک شدید مارپیٹ کرنے کے بعد جب دونوں نوجوان بے ہوش ہوگئے تو اُنہیں وہیں چھوڑ کر سی آر پی ایف والے وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔ ایمبولینس ڈرائیور نے بڑی مشکل سے دونوں نوجوانوں کو گاڑی میں ڈال کر سرینگر کے صدر ہسپتال پہنچا دیا ، جہاں اصل زخمی سے زیادہ اِن دونوں نوجوانوںکی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔جنگ زدہ ممالک میں جہاں دو مختلف ممالک کی افواج ایک دوسرے کے خلاف برسرجنگ ہوتے ہیں وہاں بھی ہیلتھ سروس سے وابستہ اہلکاروںکو اپنے فرائض انجام دینے کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔ زخمیوں میں اپنا دشمن ہی کیوں نہ ہو ، وہاں کی افواج اُنہیں ہسپتال منتقل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یہاں تو ہر معاملے میں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ عام زخمیوں کو ہسپتال پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ہے۔ اُنہیں راستے میں روک کر تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔ دوران احتجاج سی آر پی ایف اہلکاروں نے مجرمانہ طور پر صدر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوکر وہاں اندھا دھند ٹیئرگیس کے گولے داغے۔ زخمیوں کو مارا پیٹا گیا، ڈاکٹروں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے روکا گیا۔ پانپور اور لالپورہ کپواڑہ کے ہسپتالوں میں بھی وردی پوشوں نے توڑ پھوڑ کی اور وہاں موجود زخمی نوجوانوں کی مارپیٹ کی۔یہ کارروائیاں جنگی جرائم میں آتی ہیں اور اس کا حکومت وقت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پھر بھی تواقع کررہے ہیں کہ حالات سدھر جائیں اور عوام کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے۔
ایک بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ دس دن سے حکومت اور اس کے وردی پوش اہلکاروں کا رویہ عوام دشمنی پر مبنی تھا۔لوگوں کو مشکلات میں مبتلا کرکے اُن کا ذہنی ٹارچر کیا گیا۔ ہسپتالوں میں ادویات کی منصوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہسپتال عملے کو کام کرنے سے روکا گیا۔ اس ساری صورتحال میں ایک مرتبہ پھر کشمیری قوم نے گرانقدار خدمات انجام دے کر ثابت کردیا کہ وہ خراب سے خراب تر حالات کا بھی مردانہ وار مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جنگی حالات میں دنیا بھر میں لوگ نفسانفسی کے عالم میں ہوتے ہیں اور سب کو اپنی اپنی جان ، مال اور عیال کی فکر لاحق رہتی ہے لیکن کشمیر ی قوم نے مشکلات و مصائب سے پُر اِن حالات میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرکے اور اُن کا ہاتھ بٹھا کر ثابت کردیا کہ حالات کچھ بھی ہوں کشمیری سماج میں انسان دوستی اور خدمت خلق کا جو جذبہ فطری طور پر موجود ہے اُس میں کمی نہیں آئے گی۔ہسپتالوں میں پہلے ہی دن سے مختلف رضاکار تنظیمیں ، آس پاس کی محلہ کمیٹیاں، مسجدوں سے وابستہ بیوت المال میں سے پھنسے ہوئے مریضوں ، اُن کے تیمارداروںاور زخمیوں کے لیے نہ صرف کھانے پینے کا انتظام رکھا گیاہے بلکہ مریضوں کے لیے کپڑے، مفت ادویات اور سرجیکل سامان سب کچھ عام لوگوں نے دستیاب رکھا ہے۔ جس بڑی تعداد میں زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا اُس کو دیکھ کر ایک پل کے لیے لگنے لگا تھاکہ شاید خون کی قلت پیدا ہوجائے گی لیکن تیسرے دن جب ایس ایم ایچ ایس کے بلڈ بینک کے ذمہ داروں سے رابطہ کر کے خون کے عطیات دینے کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ آج ہمارے بلڈ بینک میں عام دنوں سے زیادہ خون دستیاب ہے۔ پہلے روز سے ہی درجنوں نوجوان از خود ہسپتال پہنچ کر خون کے عطیات رضاکارانہ طور پر دینے لگے۔ اللہ ہمارے اس قومی جذبہ کو سلامت رکھے ، یہ مسیج ہے اُن طاقتوں کے لیے جو کشمیریوں کو کمزور جان کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ مشکلات اور مصائب سے تنگ آکر یہ از خود ہاتھ کھڑے کرلیں گے۔اُنہیں جان لینا چاہیے کہ ہمارا جذبہ اخوت ، ہمت اور عزم منزل مقصود تک پہنچنے سے قبل ہمیں رکنے نہیں دے گا۔ ہندوستان بھر میں ہمارے اور ہماری جدوجہد کے خلاف پروپیگنڈا زور و شور سے کیا جارہا ہے جس کا شکار وہاں کے عام لوگ بھی ہوگئے ہیں۔ اس لیے وہ نہ صرف ہماری جدوجہد سے نفرت کرتے ہیں بلکہ ہندوستان کا سواد اعظم غلط پروپیگنڈے کے نتیجے میں کشمیریوں کو ”دہشت گردوں“ کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب بجبہاڑہ میں یاتری بس کو حادثہ پیش آیا تو وہاں یاتریوں کے بقول اُن کے ساتھی یاتریوں نے اُنہیں بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی ، نہ ہی وہاں موجود آرمی نے کوئی مدد کی بلکہ کرفیو میں محصور آس پاس رہنے والے کشمیریوں نے کرفیو توڑ کر اور اپنی جانوں پر کھیل کر بس میں پھنسے یاتریوں کو زخمی حالت میںنہ صرف بچا لیا بلکہ اُنہیں نزدیکی ہسپتال منتقل کرکے وہاں اُن کے علاج و معالجے کا سارا خرچہ بھی برداشت کیا۔ اُنہیں دوائیاں اور غذائی اجناس فراہم کیے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے جو خون فورسز کی گولیاں سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کے لیے عطیہ کیا تھا وہ خون اِن یاتریوں کو فراہم کرکے اُن کی جان بچائی گئی۔ یہ جذبہ ہماری نسل کشی کرنے والی قوم میں کہیں پر بھی موجود نہیں ہے۔ یہ اخوت اور ہمدردی صرف ہمارے یہاں پائی جاتی ہے ۔ ہم اپنے قاتلوں کی جان کو بھی مقدس سمجھتے ہیں اور مصیبت کی ہر گھڑی میں ہم نے ہمیشہ اُن کی مدد کی۔ جو سی آر پی ایف والے آج وادی کی گلی کوچوں کو ہمارے خون سے رنگ رہے ہیں اُن کے سینکڑوں نوجوانوں کو 2014 کے سیلاب میں اِن ہی نوجوانوں سے ڈوبنے سے بچا لیا ہے جن کے سینے یہ لوگ آج اپنی گولیوں سے چھلنی کررہے ہیں۔
دُکھ فوج کا نہیں ہے، نہ ہی سی آر پی ایف اہلکاروں سے کوئی گلہ ہے۔ دُکھ اُن پولیس والوں کا ہے جو کشمیری سماج سے وابستہ ہیں۔ جن کے افراد خانہ بھی عام کشمیریوں کی طرح حالات کا شکار ہوچکے ہیں۔ جن کے خونی رشتوں میں بھی کسی نہ کسی کا خون بہا ہوگا۔اس کے باوجود وہ اپنے ہی بھائیوں پر مظالم کا پہاڑ توڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ڈیوٹی نبھانا ٹھیک ہے لیکن جس ڈیوٹی میں یہ خیال نہ رہے کہ وہ اپنے ہی بھائی کا سینہ جرم بے گناہی میں چھلنی کررہا ہے، اپنی ہی بہن کے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کررہا ہے اُس ڈیوٹی کو ڈیوٹی نہیں بلکہ اندھے پن کی اعلیٰ ترین مثال کہا جاسکتا ہے۔جموں میں بھی پولیس والے ہیں، اسی برس ہریانہ میں بھی عوامی احتجاج ہوا تھا اور وہاں پرتشدد احتجاجیوں نے سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ راہ چلتی کئی خواتین کو مسافر گاڑیوں سے اُتار کر اُن کی عزت ریزی بھی کی ہے ، جموں میں 2008 کے تشدد میں لوگوں نے اربوں اور کھربوں روپے کی مالیت کا نقصان کیا ہے لیکن اس کے باوجود جموں اور ہریانہ کی پولیس نے لوگوں پر گولیاں نہیں چلائی ، کیونکہ وہ اُن لوگوں کو اپنا سمجھ رہے ہیں اور آپ اپنے ہوکر پرائی گود میں بیٹھ کر اپنوں کے قتل عام کا حصہ بن رہے ہیں۔ہم مریں یا آپ دونوں صورتوں میںکشمیری ہی مرتے ہیں ، ہندوستان کا کچھ نہیں بگڑتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر یہاں کی پولیس کو سامنے لاکر اپنے ہی عوام میں اُنہیں بدظن کررہے ہیں۔ اس مقام پر جموں وکشمیر پولیس سے وابستہ ہر اہلکار کو سوچنا چاہیے اور اپنے ضمیر سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور اُنہیں کیا کرنا چاہیے۔
رابطہ:9797761908

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔