مسلمان عورت
تحریر: ڈاکٹرحمیداللہ…ترتیب: عبدالعزیز
اسلام میں عورت کے بنیادی حقوق اور فرائض کا مطالعہ کرتے وقت ابتدا میں ہی اس امر کی نشاندہی ہوجانی چاہئے کہ اسلامی قانون میں حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانے کی گنجائش ہونے کے باوجود عورت کی اس بے مہار آزادی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں جس کا اظہار آج مغرب کے معاشروں میں ہورہا ہے۔ اسلام عورت کو اوسط درجے کے طرزِ عمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے وہ اس سے فرشتہ بن جانے کا تقاضا کرتا ہے نہ ہی شیطان کی راہ اختیار کرنے کو قبول کرتا ہے۔ اسلام میں عورت کے مقام کا دوسری تہذیبوں یا نظاموں میں اسے حاصل حیثیت سے تقابل کرتے وقت تمام متعلقہ حقائق پیش نظر رکھنے چاہئیں ۔ یہ نہیں کہ اس کی اِکا دُکا روایات اور معمولات کو ہی موضوع بحث بنالیا جائے۔ در حقیقت اخلاقیات کے بعض پہلوؤں کے حوالے سے اسلام آج کے بعض دوسرے نظاموں کے مقابلے میں بے لچک اور روایت پسند ہے۔
عمومی صورت حال:
اسلام میں ماں کو بلند درجہ عطا کیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘ ۔ بخاری کی روایت ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ کون سا عمل ہے جو خدا کی سب سے زیادہ خوشنودی کا باعث بنتا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز مقررہ وقت پر ادا کرنا‘‘۔
’’اور اس کے بعد؟‘‘( کون سا عمل اللہ کو محبوب ہے)
’’اپنے ماں باپ سے حسن سلوک کرنا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم نے فرمایا۔
قرآن مجید میں متعدد بار یہ ذکر آیا ہے اور انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اسے اس کی ماں نے اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے۔ اور اس عمل کے دوران بڑی تکالیف برداشت کی ہیں اور دن رات محبت اور قربانیوں سے اسے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔
جہاں تک عورت کے بحیثیت بیوی ہونے کا تعلق ہے تو اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کی مشہور حدیث ہے:
’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے‘‘۔
حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کا ارشاد ملاحظہ ہو۔
’’ہاں ! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے حکم کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان کے حقوق تم پر ہیں اور تمہارے حقوق ان پر ہیں ۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی دوسرے کو نہ آنے دیں اور نہ اپنے گھروں میں کسی ایسے شخص کو داخل ہونے کی اجازت دیں جن کی آمد تم کو پسند نہیں ۔ انھیں بے حیائی کے کاموں کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ اگر وہ باز نہ آئیں تو پھر اللہ نے آپ کو (مردوں کو) حق دیا ہے کہ ان کی سرزنش کرو (اور پھر بھی باز نہ آئیں تو) ان کے بستر اپنے سے الگ کردو (اور پھر بھی باز نہ رہیں تو) تو انھیں مار بھی سکتے ہو مگر ہلکی مار مارنا۔ اس کے بعد اگر وہ (اپنی حرکتوں سے) باز آجائیں اور تمہاری فرماں بردار بن جائیں تو پھر حسب دستور انھیں نان و نفقہ دو اور میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ؛ کیونکہ وہ گھروں میں تمہاری دست نگر ہیں اور ان کے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ گواہ رہنا کہ میں نے ان تک سب کچھ پہنچا دیا‘‘ (ابن ہشام)۔
جہاں تک عورت کے بحیثیت بیٹی ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اسلام کے رویہ کا اندازہ قرآن مجید کی اس سرزنش سے لگایا جاسکتا ہے جو کافروں کو قبل از اسلام کے بیٹیوں سے ان کے سلوک پر کی گئی۔ قرآن مجید کی سورہ ’النحل‘ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور یہ لوگ اللہ کیلئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (اور) وہ ان سے پاک ہے اور اپنے لئے (بیٹے) جو (دل پسند) ہیں ‘‘۔
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑجاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے‘‘۔
’’اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور) سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے‘‘ (57-59:16)۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں اور افزائش نسل کیلئے نر اورمادہ دونوں جنسوں کی موجودگی ضروری ہے جو اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ قرآن مجید کی سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
’’… مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انھوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انھوں نے کئے…‘‘ (32:4)۔
فطرتِ کاملہ نے اس حکمت کے تحت کہ کوئی بھی تخلیق غیر ضروری یا فضول محسوس نہ ہو، نر اور مادہ کو مکمل ایک جیسا نہیں بنایا گیا بلکہ ان کے کردار و عمل کو باہم لازم و ملزوم کر دیا۔ مثلاً مرد کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ بچے جنم دے سکے۔ اور اسی طرح مرد کیلئے مخصوص کردار عورت نہیں نبھا سکتی۔ اس کی جسمانی ساخت میں فطرت نے نازکی اور نزاکت بھر دی ہے اور اس کا دماغ اور ہڈیاں بھی ان اثرات سے مبرا نہیں ۔ اس طرح اس کی دلچسپیاں اور معمولات ایسے ہوں گے جو اس کی جسمانی نزاکت کے تقاضے نبھا سکیں ۔ مرد کو عورت کی نسبت مضبوط قویٰ کا حامل بنایا گیا ہے اور اسے حالات کے تلاطم اور تھپیڑوں سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ زندگی کے تمام معاملات مرد اور عورت میں اس طرح تقسیم کر دیئے گئے ہیں کہ وہ ہر دو کی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق ہیں ۔
مرد اور عورت میں بعض فطری امتیازات ضرور ہیں لیکن زندگی کے بہت سے معاملات میں وہ یکساں ہیں اس لئے ان معاملات میں ان کے حقوق اور فرائض بھی ایک جیسے ہیں ۔
اس طرح اس میں عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا بھی نچوڑ مل گیا ہے کہ بعض معاملات میں وہ مرد کے برابر ہے اور بعض میں نہیں ۔ عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں کے تفصیلی تذکرے سے اس کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔
عورت کے فرائض:
مذہبی معاملات میں اس کا اوّلین فرض اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھنا ہے اور یہی فرض مرد کا بھی ہے اور یہی آخرت میں نجات کا واحد راستہ ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ اسلام نے کسی کو بھی جبراً دین میں داخل کرنے کی باضابطہ ممانعت کی اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کسی مسلمان کی غیر مسلم بیوی کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے اور اس کے مطابق عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ جب کہ یہ بات بھی سب کے علم میں کہ مسلمان کی زندگی ایک کڑے نظم و ضبط کی متقاضی ہوتی ہے جس میں ارتداد قابل سزا جرم ہے؛ تاہم خلافت راشدہ کے دوران ایسی مثالیں ہیں کہ عورتوں کیلئے مرتد ہونے کی سزا مردوں کی نسبت کم ہے۔
جہاں تک عبادات کا تعلق ہے تو نماز مرد وعورت پر یکساں فرض ہے مگر چند رعایتوں کے ساتھ۔ ماہانہ ایام حیض (پیریڈز) میں عورت کو نماز کی ادائیگی سے استثناء حاصل ہے جبکہ نماز جمعہ مرد پر فرض اور عورت کیلئے اختیاری ہے کہ چاہے تو مسجد میں جاکر ادا کرے اور چاہے تو گھر کے اندر نماز ادا کرے۔ رمضان کے روزوں میں بھی اس پر بوجھ کم رکھا گیا ہے کہ ماہانہ پیریڈز اور بچے کی پیدائش کے دنوں میں اسے روزے موخر کر دینے کی اجازت ہے کہ معمول کے ایام میں وہ ان کی قضا ادا کرسکتی ہے۔ فریضۂ حج کے بعض ارکان میں بھی اسے مخصوص نسوانی وجوہ کی بنیاد پر اسثناء حاصل ہے۔ مختصراً یہ کہ اسلام عورت کے حوالے سے لچک دار اور نرم رویہ ظاہر کرتا ہے۔
اسلام کے چار بنیادی ارکان میں سے آخری یعنی ادائیگی زکوٰۃ میں دونوں پر برابر ہیں ؛ تاہم شافعی فقہ میں اسے قدرے رعایت دی جاتی ہے۔ زکوٰۃ سالانہ بچت پر عائد ہوتی ہے مگر عورت اس بچت سے اپنے ذاتی استعمال کیلئے زیورات خریدے تو اس پر زکوٰۃ کی چھوٹ حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر چہ اسلام دولت کی مسلسل گردش کی حوصلہ افزائی اور جمع کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے؛ حالانکہ جمع شدہ دولت پر ٹیکس (زکوٰۃ) کا فائدہ بھی ہے مگر وہ سرمایہ کی گردش کے حق میں ہے تاکہ اس میں اضافہ ہو اور لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع حاصل ہوں تاہم عورت کیلئے نرم گوشے کے اظہار کے طور پر اور اس کے شوق کی تسکین کیلئے اسے سونے کی شکل میں سرمایہ جمع کرنے کی اجازت دی ہے۔
کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ قومی دولت کی منصفانہ تقسیم کیلئے ارتکاز دولت کا باعث بننے والے حربوں کی ممانعت کر دی گئی ہے؛ مثلاً سود اور جوا وغیرہ۔ اس حوالے سے مسلمان عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں اور ان پابندیوں کا اطلاق دونوں پر ایک جیسا ہوگا۔ لاٹریاں اور ریس وغیرہ پر شرطیں لگانا معاشرے کے اقتصادی توازن کیلئے نقصان دہ ہے، اس لئے یہ مردوں اور عورتوں کیلئے یکساں ممنوع ہیں ۔
لامتناہی تباہی اور بدنصیبی کا ایک اور ذریعہ نشہ آور اشیاء ہیں اور یہ ہر مسلمان کا مسلمہ فرض ہے کہ ان خبائث سے اجتناب کرے۔ قرآن نے اسے کارِ شیطان قرار دیا ہے۔
صحت، معاش اور اخلاق پر مرتب ہونے والے بد اثرات کے علاوہ نشہ آور اشیاء کے بہت سے نقصانات ہیں جو سب کو معلوم ہیں ۔ شراب کے عورتوں پر اثرات خاص طور پر دور رس ہیں ۔ عورت اپنے بچے کو پیٹ میں خون سے پالتی ہے اور بعد از پیدائش اسے دودھ پلاتی ہے اور اس طرح اس کی صحت اور بیماری کے اثرات براہ راست بچے کو منتقل ہوتے ہیں ؛ گویا وہ اس حوالے سے اچھائی یا برائی نئی نسل کو اورانسانیت کے مستقبل کو منتقل کر رہی ہے۔
ایک بہت جامع فرض اخلاقیات ہے۔ اگر اپنے خالق سے ہمارے تعلقات کے حوالے سے ہمارا فرض روحانیت ہے تو اخلاقیات کو بندوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے وہی مقام حاصل ہے۔ اسلام برائی کے سر چشموں کو ہدف بنانے کا حامی ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے بعض اقدامات بطور قانون لاگو کر دیئے جبکہ بعض اعمال کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا اور بعض کی حوصلہ افزائی کی جن کے اثرات بعض اوقات حیران کن ہوتے ہیں ۔
زنا اور بدکاری کو تمام مذاہب جرم قرار دیتے ہیں مگر اسلام اس سے آگے جاکر ایسے اقدامات تجویز کرتا ہے جن سے اس کی ترغیب کے مواقع کم سے کم پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ تصور کرلینا یا امید رکھنا بہت آسان ہے کہ ہر کوئی اپنے اندر اخلاقی جذبہ اتنا قوی کرے کہ اس میں تراغیب کی مزاحمت کی قوت پیدا ہوجائے لیکن بہترین حکمت یہ ہے کہ ایسے مواقع ہی نہ پیدا ہونے دیئے جائیں جن میں کمزور کردار کے انسان جن کی کہ معاشرے میں اکثریت ہے ایک ایسی جنگ میں الجھ جائیں جس میں ہار ناگزیر ہوتی ہے۔ (جاری)
تبصرے بند ہیں۔