مسلمان کانگریس کیلئے اب نامحرم
حفیظ نعمانی
ہم اب تک مولانا آزادؔ کے اس مشورہ کو دانت سے پکڑے ہوئے تھے جو انہوں نے آزادی کے صرف ایک سال کے بعد 1948 ء میں لکھنؤ میں ہی دیا تھا کہ مسلمانوں کو اپنی الگ سیاسی پارٹی نہیں بنانا چاہئے بلکہ ملک میں جو سیاسی پارٹیاں ہیں ان میں سے جسے وہ اپنے سے قریب سمجھیں اس میں شامل ہوجانا چاہئے۔ مولانا نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا تھا کہ مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہوجانا چاہئے۔ مولانا نے جمعیۃ علماء کو بھی مشورہ دیا تھا کہ اسے اب سیاست کے بجائے مسلمانوں کے دوسرے کاموں میں لگنا چاہئے۔
اس وقت کانگریس ہی سب سے بڑی پارٹی تھی اور وہ مسلمان جو ملک کی تقسیم کے حامی تھے اور وہ پاکستان بھی نہیں جانا چاہتے تھے یا نہیں جاسکے تھے وہ سب سے پہلے کانگریس میں آگئے اور جب ہندو مہاسبھا نے کانگریس سے مورچہ لینا شروع کیا تو ان مسلمانوں نے کانگریس کو اور مضبوطی سے پکڑلیا۔ کانگریس کو بھی ضرورت تھی اس لئے اس نے مسلمانوں اور اس زمانہ میں ہریجن کہے جانے والے دلتوں کو گلے لگالیا۔
2014 ء سے پہلے بی جے پی ہندو کی پہلی پسند نہیں تھی کانگریس کے اقتدار کے آخری برسوں میں بی جے پی نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہر قدم پر کانگریس کو روکنا ہے بی جے پی میں جو آر ایس ایس کا دماغ برسوں سے منصوبے بنا رہا تھا اس نے 2012 ء کے بعد اسے نااہل، بے ایمان اور ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب کانگریس کی حکومت میں ہر دن ایک وزیر کے خلاف محاذ کھڑا کیا جاتا تھا اور کانگریس کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اس وزیر کو نکالے۔ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے اور پردہ کے اندر سے سونیا گاندھی حکومت چلا رہی تھیں سنگھ پریوار نے اس موقع کو غنیمت جانا اور پوری طاقت سے ہر مورچہ پر حملہ کردیا۔ اور شاید کانگریس کو اپنی غلطی کا اس وقت اندازہ ہوا کہ اس نے اقتدار کے دو ٹکڑے کرکے غلطی کی۔ اگر سونیا وزیراعظم کی کرسی پر ہوتیں یا کسی منھ زور لیڈر کپل سبل جیسے کو وزیراعظم بناتیں تو وہ نہ ہوتا جو 2014 ء میں ہوا۔
کانگریس کا 44 سیٹوں پر سمٹنا اس کی اپنی غلطیوں کی بناء پر ہوا موہن بھاگوت نے سب کو نظرانداز کرکے نریندر مودی کو جو میدان میں اتارا اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے ان کے اندر وہ دیکھ لیا تھا جس کی ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے۔ مودی نے جتنے اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولے اور ملک کے عوام کو ہر وہ چیز جس کی ان کو ضرورت تھی کوڑیوں کے مول دینے کے خواب دکھائے اور دو برس سے جو ایک سنیاسی بابا رام دیو عوام کے دلوں میں اپنا مقام بناکر آیا تھا اپنے ہر جھوٹ کی اس سے تائید کرائی تو اس کے جال میں پورا ملک پھنس گیا اور مودی نے جو کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا اسے عوام نے اپنا لیا اس کا نتیجہ تھا کہ ملک کی کایا پلٹ گئی اور کانگریس 44 پر رہ گئی۔
کانگریس نے وہی کیا جو ہمیشہ سے ہوتا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی اور اے کے انٹونی کمیٹی نے اپنی ذہنیت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ مسلمانوں کو قریب لانے اور ان کا خیال کرنے کی وجہ سے کانگریس کا زوال ہوا۔ یہ پروپیگنڈہ تو بی جے پی برسوں سے کررہی تھی کہ کانگریس ووٹ کے لئے مسلمانوں کی منھ بھرائی کررہی ہے۔ اور کانگریس ہمیشہ ڈرتی رہی ہے اور اگر کچھ کرنے کا اعلان کیا ہے تو بس اعلان تک ہی رہ گئی ہے اس کے بعد انٹونی کمیٹی کی رپورٹ پر عمل کانگریس کے لئے شرم کی بات ہے۔
2014 ء کے بعد جتنے الیکشن ہوئے ان میں کانگریس اپنی کمزوری کی وجہ سے ہاری اور کوئی الیکشن ایسا نہیں تھا جس کو صرف راہل گاندھی نے اپنے دم پر لڑایا ہو۔ گجرات کا الیکشن ضرور ایسا ہوا جس میں صرف راہل ہی ہیرو تھے اور انہوں ے پورے الیکشن میں ہر مندر میں ماتھا ٹیک کر اور مسلمانوں میں نہ جاکر ثابت کردیا کہ وہ انٹونی رپورٹ کو صحیح مانتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے لیکن ایک ریلی بھی نہیں کی اور نہ انہیں کہیں مسلمانوں کے درمیان ٹی وی نے دکھایا۔ ہمارے نزدیک مندروں میں جانا اور ہر دن جانا اعتراض کی بات نہیں ہے۔ ہم تو مسلمان ہیں اور اگر سنتے ہیں کہ کوئی مسلمان لیڈر ہر نماز کے وقت مسجد جاتا ہے تو خوشی ہوتی ہے کہ وہ عبادت گذار ہے۔ لیکن مسلمانوں سے دامن بچانا ان کا نام نہ لینا اپنے جلسوں میں ہندوئوں کے ہر طبقہ کو اسٹیج پر بٹھانا اور مسلمان سے پرہیز کرنا یہ بے نیازی کون برداشت کرے گا؟
اُترپردیش کے صوبائی الیکشن میں وزیراعظم نے اکھلیش یادو پر بھی وہی حملے کئے ہر تقریر میں یہ کہا کہ وہ سب کچھ مسلمانوں کے لئے کرتے ہیں ہندوئوں کے لئے نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ اکھلیش اس کا منھ توڑ جواب دے سکتے تھے لیکن وہ دبائو میں آگئے اور کہنا پڑا کہ میں بھی تو ہندو ہوں۔ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ آپ نہیں جانتے کہ 22 کروڑ آبادی کے صوبہ کی وزارت کیسے چلائی جاتی ہے؟ اور نہ آپ جانیں کہ رمضان کیا ہوتا ہے؟ رمضان میں مسلمان نہ ٹی وی دیکھتا ہے نہ شادیاں کرتا ہے نہ جلسے جلوس اور مشاعرے کرتا ہے۔ اور رمضان تہوار نہیں پوجا کا مہینہ ہے جس میں بجلی زیادہ نہیں کم خرچ ہوتی ہے۔ اور دیوالی صرف روشنی کا تہوار ہے جس میں بجلی کے خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
راہل گاندھی اب کانگریس کے صدر ہیں دیکھنا ہے کہ وہ کتنے مسلمانوں کو عہدہ دیتے ہیں اور ورکنگ کمیٹی یا دوسری کمیٹیوں میں کتنے مسلمان لیتے ہیں؟ اگر وہ گجرات والے راہل بنے رہتے ہیں تو ہم بھی کہیں گے کہ اب مسلمانوں کو اپنی الگ پارٹی بنا لینا چاہئے اور دوسری پارٹیوں سے معاہدہ کرنا چاہئے ان کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑنا چاہئے۔ گجرات میں مسلمانوں میں جیسا جوش تھا اگر راہل ان کے ساتھ کھڑے ہوکر الیکشن لڑاتے تو چار کے بجائے آٹھ مسلمان کامیاب ہوتے۔ گجرات میں یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ مایاوتی اور شرد پوار مودی کے غلاموں میں شامل ہوچکے ہیں۔ اب ہر مسلمان کو ان دونوں سے کنارہ کرلینا چاہئے۔
کانگریس نے تین طلاق بل پر جو رویہ اپنایا اسے بھی وہی سمجھ سکتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاق دینے والے مرد کو سزا دی جائے گی لیکن یہ بھی تو معلوم ہونا چاہئے کہ اس عورت نے کیا کیا ہے ؟ جس کی وجہ سے شوہر طلاق دے رہا ہے یہ بات تو بعد کی ہے کہ ایک منٹ میں دی یا تین مہینے میں دی؟ حیرت ہے کہ پورے ہائوس میں کوئی نہیں تھا جو معلوم کرتا کہ عورت کی غلطی بھی بتائی جائے۔ اس کے بعد سزا اور جرمانہ لیا جائے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔