سال 2017 :جموں وکشمیر میں بیتا کچھ اس طرح سے

الطاف حسین جنجوعہ

سال 2017ہم سے رخصت ہوا۔اس دوران ملکی وغیر ملکی سطح پر بھی متعدد اتار چڑھاؤ آئے۔ کئی واقعات، حادثات وحالات رونما ہوئے۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہمارے دل پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ذاتی طور بھی یہ سال کسی کے لئے کامیابی، کسی کی ناکامی، کسی کے لئے غمی اور کسی کے لئے خوشی لایا۔ اگر گذرنے والے سال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو احساس ہوگا کہ یہ سال بھی خوشیاں کم، مگر غموں کی بھرمار دے کرگذر گیا۔ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے بھی سیاسی اور حالات کی سطح پر کئی طرح کے مدو جزر آئے۔ دنیشور شرما کی بطور مرکزی مذاکراتکارتقرری، گیسو تراشی، اننت ناگ ضمنی انتخابات کی منسوخی، وزیر داخلہ وکانگریس پالیسی گروپ کی آمد، دفعہ35-Aپر سیاسی بحث، منی لانڈرنگ معاملہ میں حریت ومین سٹریم پر این آئی اے کا کریک ڈان، امرناتھ یاتریوں پر اننت ناگ میں جنگجوانہ حملہ، محبوبہ مفتی کابینہ میں توسیع، وکرم آدتیہ سنگھ کامستعفی ہونا اور تصدق مفتی کا ایم ایل سی اور پھر وزیر بننا، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا دوبارہ این سی اور پی ڈی پی جماعتوں کا صدر منتخب ہونا، 60ہزار سے زائد مختلف زمروں کے عارضی ملازمین کی مستقلی کا حکومتی فیصلہ، جی ایس ٹی کا قضیہ، پی ڈی پی کی اندرونی خلفشار، آپریشن آل آؤٹ وغیرہ اہم معاملات رہے۔سات دہائیوں سے قبل وجود میں آئے پیچیدہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے راہ تلاش کرنے کے مقصد سے نئی دہلی نے سال 2017میں اہم پہل کرتے ہوئے اکتوبر کے آخری ہفتہ میں سابق آئی بی ڈائریکٹر دنیشور شرما کو مزاکرتکار نامزد کیا۔ ان کی تقرری وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے چار روزہ تفصیلی دورہ ریاست کے بعد عمل میں لائی گئی۔دنیشور شرما نے سال کے آخری2ماہ میں مشن کشمیر کیلئے ریاست کے3دورے کئے۔

اس دوران مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں ،جن میں مین اسٹریم سیاست دان،طلاب،غیر سرکاری انجمنیں اور دیگر لوگ شامل ہیں ،سے تبادلہ خیال کیا۔پہلے دورے کے بعد دنیشور شرما نے مرکزی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی،جس میں پہلی بار سنگبازی کے مرتب ہوئے نوجوانوں کو عام معافی دینے کی سفارش کی گئی۔مرکزی حکومت نے انکی اس سفارش کو عملی جامعہ پہنایا اور نومبر میں اعلان کیا کہ سنگبازی میں پہلی بار مرتکب ہوئے نوجوانوں کو عام معافی دی جائے گی۔اس دوران تاہم مزاحمتی خیمہ دنیشور شرما سے دور رہا،اور سید علی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت بیشتر مزاحمتی لیڈروں نے دنیشور شرما سے مزاکرات نہیں کئے۔ اعلیحدگی پسند خیمہ سے صرف شبیر احمد شاہ نے دنیشور شرما سے ملاقات کی۔متحدہ حریت کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ اس دوران تنازعات میں آئے،کہ انہوں نے خفیہ طور پر دنیشور شرما کے ساتھ بات کی،تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کیا۔سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس کا کشمیر پرپالیسی ساز گروپ نے بھی جموں اور کشمیر کے اعلیحدہ اعلیحدہ دورے کر کے زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی۔ نعیم خان کی طرف سے مبینہ طور پر خفیہ کیمرہ کے سامنے یہ اعتراف کہ وہ کشمیر میں حالات کو مسلسل خراب رکھنے کے لئے فنڈز حاصل کرتے ہیں ، کے بعد این آئی اے نے چھاپہ ماری شروع کی اور درجنوں حریت لیڈران، تاجروں کو گرفتار کیا۔سرینگر ومظفر آباد اور پونچھ راولاکوٹ آر پارتجارت سے جڑے کئی تاجر بھی این آئی اے کے شکنجہ میں آئے۔

اس کارروائی سے پونچھ چکاں دا باغ آر پار رہ ملن اورتجارتی سرگرمیوں بھی متاثر رہیں ۔ 2017 کے وسط میں قومی تحقیقاتی ایجنسی نے مزاحمتی لیڈروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی عمل میں لائی،جس کی وجہ سے کئی محاذوں پر سیاست گرم ہوئی۔ جولائی میں این آئی اے نے نعیم احمد خان،پیر سیف اللہ،ایاز اکبر،فاروق احمد ڈار عرف بٹہ کراٹے،محمد الطاف شاہ،معراج الدین کلول کے علاوہ سرکرہ تاجر ظہور وٹالی کو حراست میں لیکر دہلی پہنچایاجبکہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے شبیر احمد شاہ کو گرفتار کیا۔اس دوران سید علی گیلانی، محمد یاسین ملک ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اور دیگر مزاحمتی لیڈروں ، انکے رشتہ داروں ،تاجر لیڈراں سمیت ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشیدو دیگر لوگوں کے نام بھی نوٹسیں اجراء کی گئیں ،اور انہیں دہلی میں این آئی اے میں پیش ہونے کی ہدایت جاری کی۔صلاح الدین کے بیٹے کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی اور گیلانی کے دو بیٹوں سے بھی تفتیش کی گئی۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ این آئی اے نے جموں میں بھی کئی مقامات پر چھاپے مارے، کئی افراد کو حراست میں لیا۔ ریاست میں سال کے وسط میں مرکزی قانون’’اشیاء  و خدمات محصولات‘ کو نافذ کرنے پر بڑی ہنگامہ آرائی ہوئی۔حزب اختلاف اور تجارتی تنظیموں نے جموں وکشمیر میں اس کے نفاذ کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ حکومت کی طرف سے کی گئی ہرکوششیں ناکام رہیں ، کل جماعتی اجلاس طلب کیاگیا، وہ بھی ناکام رہا۔

علیحدگی پسندوں ، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں ،مذہبی تنظیموں کے علاوہ وادی کی تجارتی انجمنوں اور سیول سوسائٹی نے اس قانون کو نافذ کرنے کی سخت مخالفت کی،اور ریاست کا اپنا جی ایس ٹی بنانے کا مشورہ دیا۔ سرکار نے جون کے آخر میں اسمبلی کا خصوصی اجلاس بھی طلب کیا،تاہم اس کو ایک روز بعد ہی ملتوی کیا گیا۔تاجروں کی سخت ناراضگی کے بیچ اسمبلی میں جی ایس ٹی بل پاس کر کے اس کو صدرجمہوریہ کے آرڈیننس کے ذریعہ ریاست میں نافذ کیا گیا۔جموں کی تاجر تنظیمیں جوکہ اس کی تائید وحمایت میں تھیں ، بعد میں اس کے برعکس اثرات سے سرکار کے خلاف ہوگئیں اور آج بھی سخت پریشان ہیں کیونکہ انہیں جی ایس ٹی کے ساتھ ساتھ لکھن پور ٹول ٹیکس بھی ادا کرنا پڑ رہاہے۔

 سال 2017کے مئی ماہ میں صوبہ جموں کے سانبہ اور کٹھوعہ ضلع میں خواتین کی چوٹی کٹنے کے واقعات سامنے آئے۔ اس پر طرح طرح کی من گھڑت باتیں سامنے آنے لگیں ۔ رفتہ رفتہ خواتین کی مو تراشی کے واقعات جموں ، راجوری، پونچھ، وادی چناب میں آئے اور پھر دو ماہ تک گیسو تراشی نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا۔ مجموعی طور 200سے زائد خواتین اور جوان سال و چھوٹی لڑکیوں کے بال کاٹے گئے۔ اس دوران دلیری کے کئی واقعات بھی دیکھنے کو ملے۔ ستمبر کے وسط سے لیکر اکتوبر کے وسط تک اس کا سلسلہ جاری رہا،جس کے دوران خواتین میں لرزہ اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا۔90کی دہائی میں آپریشن گھوسٹ کی طرز پر امسال ستمبر میں گیسو تراش نمودار ہوئے اور قریب 2 ماہ تک دہشت پھیلاتے ہوئے قریب157خواتین کی چوٹیاں کاٹ ڈالیں ۔گیسو تراشی میں کون ملوث ہے؟ اس کاپتہ لگانے میں سرکار، پولیس اور دیگر ایجنسیاں مکمل طورناکام رہیں ، کئی جگہ پر لوگوں نے اس میں سیکورٹی فورسز کے ملوث ہونے کا الزام لگایا لیکن کسی نے ایک نہ سنی، الٹا کئی مقامات پر عام لوگوں کو ہی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے عتاب کا نشانہ بنایا۔ گیسو تراشی واقعات نے لوگوں کی ناک میں دم کردیا لیکن جوں ہی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے چار روزہ دورہ ریاست کے بعد نئی دہلی نے مذاکراتکار دنیشور شرما کی تقرری کا اعلان کیاتو چوٹی کٹنے کے واقعات ختم ہوگئے اور معمہ ابھی تک نہ سلجھاکہ اس میں ملوث کون تھا۔

 سال 2017کی بڑی خبروں میں سے ایک اننت ناگ لو ک سبھا نشست کے انتخابات کو ملتوی ہونا تھا رہا۔ یہ نشست محبوبہ مفتی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے گذشتہ سال کے اپریل ماہ سے خالی پڑی تھی۔طارق حمید قرئہ کے MPسے استعفی دینے کے بعد سرینگر لوک سبھا نشست اور اننت ناگ پر ایکساتھ الیکشن کرانے کا منصوبہ تھا لیکن حالات انتہائی کشیدہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ سرینگر لوک سبھا انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر ہوئے تشددہوا، جس دوران 9افراد جاں بحق اور دیگر درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔سال بھر جاری رہنے و الی اتھل پتھل کے دوران8 اپریل سب سے سیاہ ترین دن ثابت ہوا،جب سرینگر پارلیمانی حلقہ کے ضمنی انتخاب کے دوران صرف ایک دن میں 8 نوجوانوں کو گولیوں سے بھو ن دیا گیا۔

اس صورتحال کے مد نظر اسلام آباد(اننت ناگ) پارلیمانی حلقے کا انتخاب پہلے ایک ماہ اور بعد میں غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کیا گیا۔ 9پریل کولوک سبھا نشست پر انتخابات کے دوران حالات خراب ہونے کے حدشات کے پیش نظر حکام نے انٹرنیٹ سہولیات بند کر دیں ۔ جب پولنگ کا خاتمہ ہوا تو اسی روز آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے اور جبکہ ایک چند دن بعد دم توڑ گیا۔ ووٹنگ صرف 7فیصد رہی۔ نیشنل کانفرنس صدر فاروق عبداللہ جوکہ سال 2014کو ہارگئے تھے، نے پی ڈی پی امیدوارنذیر احمد خان کو 10ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دیکر واپسی کی۔ سرینگر میں ہوئی ووٹنگ کے دوسرے روز وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے بھائی تصدق حسین مفتی جوکہ ضمنی انتخابات اننت ناگ لوک سبھا سے پی ڈی پی امیدوار تھے نے، ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ الیکشن کمیشن سے کہاکہ وادی کشمیر میں صورتحال بہتر ہونے تک اننت ناگ لوک سبھا انتخابات ملتوی کئے جائیں ۔ شروع میں الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کی تاریخ پیچھے کی اور بعد میں ان کو منسوخ کر دیا۔ سال 1991کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کشمیر میں تشدد کی وجہ سے انتخابات منسوخ کرائے گئے۔ 1991جب پورے جموں وکشمیر میں ملی ٹینسی عروج پر تھی، میں اننت ناگ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات کوسنگ بناری اور امن وقانون کی صورتحا ل کے پیش نظر ملتوی کرنا پڑا تھا۔

سال 2017کے دوران جموں وکشمیر میں سڑک حادثات، سرحدوں پر آر پار گولہ باری اور کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے شروع کئے گئے ’آپریشن آل آؤٹ‘سے سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانوں کا اتلاف ہوا جس میں عام شہری، سیکورٹی فورسز کے جوان اور جنگجو شامل ہیں ۔سرینگر میں پولیس افسر محمد ایوب پنڈت کی ہجوم کی طرف سے پیٹ پیٹ کر ہلاکت(Lynching)، لیفٹیننٹ عمر فیاض اور چھٹی پر آئے سپاہی عرفان احمد ڈار کی جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاکت سے ملک بھر میں مذمت کی گئی۔ وادی میں پولیس افسران پر جنگجوؤں نے متعدد حملے بھی کئے۔فوج اور فورسز آپریشنوں کے دوران215کے قریب عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔100کے قریب فورسز، پولیس اور فوجی اہلکار بھی لقمہ اجل بن گئے،جن میں 25اہلکار قدرتی آفات کے دوران برف کے نیچے بھی دب گئے۔ جھڑپوں کے دوران ایک درجن میجر،2لیفٹنٹ کرنل، 2ایس پی اور ایک کمانڈنٹ سمیت ٹاسک فورس،فوج اور سی آر پی ایف کے200کے قریب اہلکار زخمی بھی ہوئے۔اس دوران کشمیر وادی میں 61عام شہری گولیوں کا نشانہ بن گئے جن میں ایک بچی سمیت9خواتین بھی شامل ہیں ۔30شہری عسکریت پسندوں اور فوج و فورسز کے درمیان خونین جھڑپوں کے دوران جائے جھڑپوں کے نزدیک فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن آل آوٹ کے دوران خونین معرکہ آرائیوں میں حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر محمود غزنوی اور لشکر طیبہ کے چیف کمانڈراں ابو دوجانہ و ابو اسماعیل کے علاوہ جیش محمد کے چیف کمانڈر خالد بھائی،حزب کمانڈرسبزار بٹ،بشیر لشکری،جنید متو،مظہ مولوی،عبدالقیوم نجار،جنید متو،نور ترالی اور دیگر اعلیٰ کمانڈر بھی جاں بحق ہوئے۔سال بھر جہاں سرکاری دعوئے کے مطابق 215کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جو گزشتہ6برسوں میں سے سے زیادہ ہیں ،وہیں 2017میں سب سے زیادہ مقامی نوجوانوں ،جن کی تعداد117بتائی جاتی ہے،نے عسکری صفوں میں شمولیت اختیارکی۔ جھڑپوں کے بیچ کئی جنگجو اور بالائے زمین ورکروں کو زندہ گرفتار کیا گیا۔

عسکری محاز پر گرما گرمی کے دوران شمال وجنوب میں فوج،فورسز،ٹاسک فورس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے جنگجوئوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں جاری رہیں جبکہ بستیوں اور علاقوں کا محاصرہ بھی بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ عسکری محازاور سیاست میں اس وقت غیر معمولی سرگرمیاں بھی اس وقت نظر آئی،جب ایک فٹ بال کھلاڑی نے عسکری صفوں میں شرکت کی۔ ماجد نامی اس نوجوان نے گھر واپسی کی۔مزاحمتی خیمے میں روایت سے ہٹ کر 2017میں سابق حزب کمانڈر ذاکر موسیٰ نے مزاحمتی قیادت کو دھمکی بھی دی،جس کی وجہ سے مزاحمتی لیڈراں تذبذب کے شکار ہوگئے،تاہم متحدہ جہاد کونسل نے حریت لیڈراں کی حمایت کی۔ذاکر موسیٰ حزب سے علیحدہ ہوگئے اور انصاالاغزوہ ہند کے نام سے الگ تنظیم کی داغ بیل ڈال دی۔پہلی بار بنک گارڑوں کو بھی نشانہ بنایا گیا،جس میں الگ الگ واقعات کے دوران چاربنک محافظ جان بحق ہوئے۔اپنے نوعیت کے پہلے واقعے میں مشکوک حالات میں تعینات ایک پولیس افسر کو زیر چوب ہلاک کیا گیا۔اس دوران معروف اخوانی کمانڈر کو بھی گولیاں کا نشانہ بنایا گیا۔سال بھر کئی فوجی، فورسز اور پولیس کیمپوں پر فدائین حملے بھی ہوئے،جن میں پلوامہ پولیس لائنز،سرینگر ائر پورٹ کیمپ اور چوکی بل کپوارہ کیمپ بھی شامل ہے۔ سال بھر عسکری محاز میں زبردست گرما گرمی دیکھنے کو ملی،جس کے بیچ خونین جھڑپوں میں انسانی لہو زمین پر نظر آیا۔ اس دوران20ہفتوں تک تاریخی جامع سرینگر بھی مقفل رہی،جبکہ شہر خاص کے حساس علاقوں میں 38مرتبہ جزوی یا سخت پابندیا یا بندشیں عائد رہیں ۔

 سال 2017 مجموعی طور حکمراں جماعت پی ڈی پی کے لئے اچھا نہیں رہا۔ کئی لیڈران کے روٹھنے اور منانے کا عمل جاری رہا۔ وکرم آدتیہ اور گوجر بکروال مشاورتی بورڈ کے وائس چیئرمین چوہدری ظفر کٹھانہ اور وقف بورڈ چیئرمین پیر محمد حسین کے مستعفی ہونے اور ان کی طرف سے پارٹی پر لگائے گئے الزامات سے قیادت کو کافی شرمندگی سے بھی گذرنا پڑا۔ کئی ممبران اور وزیروں کو روٹھ کر منانے کے بیچ سیاسی گلیاروں میں بھی ہلچل کا سلسلہ جاری رہا۔مہاراجہ ہری سنگھ کے یومِ پیدائش پرسرکاری تعطیل نہ کرنے پر وکرم آدیتہ نے استعفیٰ دیا تو چوہدری ظفر کٹھانہ نے عہدہ دینے پر کوئی اختیارات نہ دینے کی شکایت کرتے ہوئے کرسی چھوڑ دی۔ حج واقاف کے وزیر مملکت سعید فاروق اندرابی نے استعفیٰ دیا تو جاوید مصطفی میر کی دوبارہ کابینہ میں واپسی ہوئی ساتھ ہی محبوبہ مفتی نے اپنے بھائی تصدق مفتی کو کونسل میں شامل کرلیا۔ کئی ماہ تک وہ وزیر اعلیٰ شکایات ازالہ سیل کے کارڈنیٹربھی رہے۔فروری میں سید الطاف بخاری کو دوبارہ کابینہ میں شامل کر کے وز تعلیم کا قلمدان سونپا گیا جبکہ دیگر وزراء کے قلمدانوں میں ردبدل کی گئی۔بشارت بخاری کو باغبانی کا محکمہ دینے پر وہ برہم ہوئے اور انہوں نے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جبکہ عمران انصاری نے بھی انہیں کوئی دیگر وزارت نہ دینے کے خلاف استعفیٰ پیش کیا۔یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری بھی رہا آخر کار عمران انصاری کو منا لیا گیا۔ اپریل میں ضمنی پارلیمانی انتخابات کے دوران پی ڈی پو کو حریف سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دھچکہ دیتے ہوئے سرینگر پارلیمانی حلقہ سے پی ڈی پی امیدوار کو شکست دی،جبکہ اس نشست پر انکے سابق حریف طارق قرہ انکی حمایت میں آگئے۔

 بالی ووڈ کی مشہور فلم’اومکارہ‘سمیت درجنوں فلموں کی ’cinematography‘کرنے والے تصدق مفتی نے ’ فلمی دنیا‘  کو چھوڑ کر سیاسی اننگ شروع کی۔ محبوبہ مفتی کے بھائی تصدق مفتی کو پہلے اننت ناگ سے لوک سبھا کے انتخابات لڑانے کا فیصلہ کیاگیا لیکن انتخابات منسوخ ہونے کے بعد انہیں سی ایم گروینس سیل کا کارڈی نیٹر بنایاگیا جہاں ان کی کچھ تربیت کی گئی جس کے بعد ایم ایل سی وکرم آدیتہ کے مستعفی ہونے سے خالی نشست پر گورنر کی سفارش پر وہ ایم ایل سی بنے اور پھر انہیں کابینہ وزیر کے طور حلف دلایاگیا۔

 نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹرفاروق عبداللہ، اخبارات میں نمایاں جگہ پانے میں مہارت رکھتے ہیں ، جب انہیں جی چاہئے وہ ایسا کچھ کہہ دیتے ہیں تہلکہ مچ جاتاہے۔ ایسا ہی کچھ انہوں نے سال 2017میں بھی کیا، کئی ایسے بیانات دیئے کہ ملک بھر میں ان کے خلاف لوگ سڑکوں پر اترے، کئی نے عدالت اور پولیس تھانوں کابھی دروازہ کھٹکھٹایا لیکن فاروق عبداللہ کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس وقت سیاسی گلیاروں میں زلزلہ پیدا کیا جب انہوں نے کہا کہ نوجوان جنگجوئوں کی صفوں میں وزیر اور ممبران اسمبلی کیلئے نہیں بلکہ وطن کی محبت اور آزادی کیلئے شامل ہو رہے ہیں ۔انہوں نے حکومت ہند سے یہ بات بھی کہی پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جھنڈا لہرانا تو دور لال چوک میں ترنگا لہراکر دیکھو۔ ملک کے مختلف مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ دہلی ہائی کورٹ میں ان کے خلاف عرضی بھی دائر کی گئی جس کو پہلے دن ہی کورٹ نے خارج کر دیا۔ ریاست کی سب سے بڑی2مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے2017میں ایک بار پھر اپنے صدور کو برقرار رکھتے ہوئے بالترتیب ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اپنی اپنی جماعتوں کے صدور منتخب کیا۔

مزاحمتی خیمے کیلئے یہ سال سب سے زیادہ مصیبت کا سامان لیکر آیا۔ سید علی شاہ گیلانی گزشتہ برسوں کی ہی طرز پر 2017میں بھی رہائشی طور پر نظر بند رہیں ۔ میرواعظ عمر فاروق کی خانہ نظر بندی بھی حساس مواقعوں اور پروگراموں کے دوران عمل میں لائی گئی۔محمد یاسین ملک کھبی گھر میں تو کھبی تھانہ اور کھبی سینٹرل جیل سرینگر میں نظر بند رہے۔محمد اشرف صحرائی سمیت دیگر لیڈروں کی خانہ وتھانہ نظر بندی بھی سال بھر وقفہ وقفہ سے جاری رہی۔مزاحمتی جماعتوں کی کال پر بیشتر ایام میں شہر خاص کے حساس علاقوں اور دیگر جگہوں کی ناکہ بندی کی گئی،جس کے پیش نظر 2017میں 20ہفتوں تک وقفہ وقفہ سے تاریخی جامع مسجد سرینگر کے ممبر و محراب نماز جمعہ کے دوران خاموش رہے۔امسال طلاب نے بھی کھل کر احتجاجی مظاہرے کئے۔پلوامہ ڈگری کالج میں اپریل میں پیش آئے واقعے کے بعد وادی کے یمین و یسار میں طلبہ و طالبات سڑکوں پر آئے،اور احتجاجی مظاہروں کے علاوہ سنگبازی بھی کی۔اس دوران قریب تین ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا،اور اسکولوں و کالجوں کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں کو سرکاری سطح پر بند کرنے تک کی بھی نوبت آگئی۔ حکومتی سطح پر مختلف محکمہ جات کے 60ہزار سے زائد عارضی ملازمین کی مستقلی کے فیصلہ سے لاکھوں لوگوں کو راحت ملی۔قریب61ہزار روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو مستقل کرنے کا اعلان کیا۔ا س کے لئے باقاعدہ طور پر ایس آر او520جاری کیاگیاہے جس میں ان ملازمین کی مستقلی بارے مکمل قواعد موجود ہیں ۔جہاں 9زمروں کے ہزاروں عارضی ملازمین نے راحت کی سانس لی وہیں این ایچ ایم، منریگا ملازمین، کنٹریکچول لیکچرروں نے بھی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔

سال 2017میں دفعہ35-Aجس کے تحت جموں وکشمیر ریاست میں کوئی بھی غیر ریاستی شہری ملکیتی اراضی نہیں لے سکتا، کی قانونی حیثیت کو عدالت عظمیٰ کو چیلنج کیاگیا۔ اس کے خلاف حریت پسندوں ، تجارتی تنظیموں اور نیشنل کانفرنس نے ریاست بھر میں مہم شروع کی۔ بڑے پیمانے پر احتجاجی سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی جموں بنام کشمیر جیسی صورتحال بھی دیکھنے کو ملی کیوں جموں کی بھاجپا حمایتی نواز تنظیمیں جہاں اس کی حمایت میں نظر آئیں وہیں کشمیر میں اکثریت نے دفعہ 35-Aکو چیلنج کرنے کی بھر پور مخالفت کی۔ اس پر ریاست میں پیداشدہ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی،خوب سیاست ہوئی۔ مرکزی سرکار کی مداخلت سے سپریم کورٹ نے اس معاملے کو مارچ تک التواء میں رکھاہے۔مجموعی طور سال 2017خطہ پیر پنچال (پونچھ اور راجوری )اضلاع سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے کافی کامیاب رہا۔ اسسٹنٹ پروفیسرز، لیکچررز، عدلیہ کے علاوہ سول سروسز امتحانات میں اس خطہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی۔ اسی خطہ سے تعلق رکھنے والے انجم بشیر خٹک نے KASمیں سرفہرست مقام حاصل کیا۔ وہ ایسا کرنے والے خطہ کے پہلے شخص ہیں ۔ سال2017کو آئی اے ایس میں بھی خطہ پیر پنچال کے نوجوانوں نے زیادہ کامیابی حاصل کی۔سرحد کے آر پار پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ بدستور جاری رہا جس سے سرحد کے لوگوں کو سال 2017کوبھی کوئی راحت نہ ملی، ان کی مشکلات جوں کی توں رہیں ۔

اجڑنے، بسنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بڑے پیمانے پر جانی ومالی ن نقصان بھی ہوا۔ البتہ حکومت نے ایکس گریشیا ریلیف میں کچھ بڑھوتری کی اور بنکروں کی تعمیر کے لئے فنڈز بھی واگذار کئے جس سے کچھ راحت ضرورہوئی لیکن اس اعلان پر زمینی سطح پر کوئی عمل ہونا باقی ہے۔ سیاحتی صنعت کو فروغ دینے اور رابطہ سڑک میں بہتری لانے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2اپریل2017کو افتتاح کیا۔ 9.28 کلومیٹر یہ ٹنل ہندوستان میں سب سے بڑا ٹنل ہے، جس سے جموں اور سرینگر کے درمیان30کلومیٹر مسافت کم ہوئی۔ امیرکبیرؒکی زیارت میں آتشزدگی کی واردات بھی ہوئی جس سے زیارت کو جزعی نقصان پہنچا۔ چند چھوٹے فرقہ وارانہ معاملات کو چھوڑ کر خطہ لداخ کے اضلاع کرگل اور لہہ پر امن رہے۔ وادی میں بندوقوں کی گن گرج، سنگ باری اور تشدد کے ڈل جھیل کنارے عدنان سمیع اور لکی علی کے میوزیکل کنسرٹ بھی ہوئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔